سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا جس کی آنکھ کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ سانپ طوق بنا کر اس کے گلے میں لٹکا دیا جائے گا اور وہ اسے کہے گا کہ میں تیرا خزانہ ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم ثمود کے قریب ارشاد فرمایا: ان معذب اقوام پر روتے ہوئے داخل ہوا کرو کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں بھی وہ عذاب نہ آپکڑے جوان پر آیا تھا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا: ہے قزع کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے بال کٹواتے وقت کچھ بال کٹوالیے جائیں اور کچھ چھوڑ دیئے جائیں (جیسا کہ آج کل فیشن ہے)
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن ابي بكير , حدثنا شعبة ، عن توبة ، قال: قال الشعبي : لقد صحبت ابن عمر سنة ونصفا، فلم اسمعه يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا حديثا واحدا، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتي بضب، فجعل القوم ياكلون، فنادت امراة من نسائه، إنه ضب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كلوا، فإنه حلال"، او" كلوا، فلا باس"، قال: فكف، قال: فقال:" إنه ليس بحرام، ولكنه ليس من طعامي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ تَوْبَةَ ، قَالَ: قَالَ الشَّعْبِيُّ : لَقَدْ صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ سَنَةً وَنِصْفًا، فَلَمْ أَسْمَعْهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا حَدِيثًا وَاحِدًا، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُتِيَ بِضَبٍّ، فَجَعَلَ الْقَوْمُ يَأْكُلُونَ، فَنَادَتْ امْرَأَةٌ مِنْ نِسَائِهِ، إِنَّهُ ضَبٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُوا، فَإِنَّهُ حَلَالٌ"، أَوْ" كُلُوا، فَلَا بَأْسَ"، قَالَ: فَكَفَّ، قَالَ: فَقَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ بِحَرَامٍ، وَلَكِنَّهُ لَيْسَ مِنْ طَعَامِي".
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ڈیڑھ دو سال کے قریب آتا جاتا رہا ہوں لیکن اس دوران میں نے ان سے اس کے علاوہ کوئی حدیث نہیں سنی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے کہ گوہ لائی گئی لوگ اسے کھانے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ نے پکار کر کہا کہ یہ گوہ کا گوشت ہے (یہ سنتے ہی صحابہ رضی اللہ عنہ رک گئے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھالو یہ حلال ہے اور اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ میرے کھانے کی چیز نہیں ہے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکرو مؤنث اور آزاد و غلام سب مسلمانوں پر صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو مقرر فرمایا: ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود الهاشمي ، اخبرنا سعيد بن عبد الرحمن ، عن عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" الرؤيا الصالحة جزء من سبعين جزءا من النبوة، فمن راى خيرا فليحمد الله عليه، وليذكره، ومن راى غير ذلك فليستعذ بالله من شر رؤياه، ولا يذكرها، فإنها لا تضره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ، فَمَنْ رَأَى خَيْرًا فَلْيَحْمَدْ اللَّهَ عَلَيْهِ، وَلْيَذْكُرْهُ، وَمَنْ رَأَى غَيْرَ ذَلِكَ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ رُؤْيَاهُ، وَلَا يَذْكُرْهَا، فَإِنَّهَا لَا تَضُرُّهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اچھا خواب اجزاء نبوت میں سے سترواں جزو ہے اس لئے جو شخص خواب دیکھے اسے اس پر اللہ کا شکر کرنا اور اسے بیان کر دینا چاہئے اور اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اللہ سے اس خواب کے شر سے پناہ مانگے اور اسے کسی سے بیان نہ کرے اس طرح وہ خواب اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے خواب میں کالی کلوٹی بکھرے بالوں والی ایک عورت کو مدینہ منورہ سے نکلتے ہوئے دیکھا جو مہیعہ یعنی جحفہ میں جا کر کھڑی ہو گئی میں نے اس کی تعبیریہ لی کہ مدینہ منورہ کی وبائیں اور آفات جحفہ منتقل ہو گئی ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 7038، وهذا إسناد حسن .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مشکیزے (یا دور حاضر میں نل کے) سے منہ لگا کر پانی مت پیا کرو بلکہ ہتھیلیوں میں لے کر پیا کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الرجل الراوي عن ابن عمر .