(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا عبد الملك يعني ابن ابي سليمان ، عن انس بن سيرين ، عن ابن عمر ، قال: سالته عن امراته التي طلق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: طلقتها وهي حائض، فذكرت ذلك لعمر، فذكره عمر للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" مره فليراجعها، إذا طهرت طلقها في طهرها للسنة"، قال: ففعلت , قال انس: فسالته , هل اعتددت بالتي طلقتها وهي حائض؟ قال: وما لي لا اعتد بها، إن كنت عجزت واستحمقت!!.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ امْرَأَتِهِ الَّتِي طَلَّقَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: طَلَّقْتُهَا وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعُمَرَ، فَذَكَرَهُ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، إِذَا طَهُرَتْ طَلَّقَهَا فِي طُهْرِهَا لِلسُّنَّةِ"، قَالَ: فَفَعَلْتُ , قَالَ أَنَسٌ: فَسَأَلْتُهُ , هَلْ اعْتَدَدْتَ بِالَّتِي طَلَّقْتَهَا وَهِيَ حَائِضٌ؟ قَالَ: وَمَا لِي لَا أَعْتَدُّ بِهَا، إِنْ كُنْتُ عَجَزْتُ وَاسْتَحْمَقْتُ!!.
انس بن سیرین کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ اپنی زوجہ کو طلاق دینے کا واقعہ تو سنایئے انہوں نے فرمایا: کہ میں نے اپنی بیوی کو " ایام " کی حالت میں طلاق دے دی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکر ہ کیا تو انہوں نے فرمایا: اسے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے، جب وہ " پاک " ہو جائے تو ان ایام طہارت میں اسے طلاق دے دے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے وہ طلاق شمار کی تھی جو " ایام " کی حالت میں دی تھی؟ انہوں نے کہا کہ اسے شمار نہ کرنے کیا وجہ تھی؟ اگر میں ایسا کرتا تو لوگ مجھے بیوقوف سمجھتے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے زمین پر گھسیٹتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر نظر رحم نہیں فرمائے گا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے علاقے میں قرآن سفر پر جاتے وقت قرآن کریم اپنے ساتھ لے جانے سے منع فرمایا: ہے کیونکہ اندیشہ ہے کہ کہیں وہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1869، وهذا إسناد حسن.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن عطاء ، حدثنا مالك بن انس ، عن نافع ، عن ابن عمر , ان النبي صلى الله عليه وسلم:" نهى عن الوصال" , فقيل له: إنك تواصل يا رسول الله! قال:" إني لست كهيئتكم، إني اطعم واسقى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنِ الْوِصَالِ" , فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ:" إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ، إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَى".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے میں ایک ہی سحری سے مسلسل کئی روزے رکھنے سے لوگوں کو روکا تو وہ کہنے لگے کہ آپ ہمیں تو مسلسل کئی دن کا روزہ رکھنے سے منع کر رہے ہیں اور خود رکھ رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں مجھے تو اللہ کی طرف سے کھلا پلا دیا جاتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبيدة بن حميد ، عن منصور بن المعتمر ، عن مجاهد ، قال: دخلت انا وعروة بن الزبير المسجد، فإذا نحن بعبد الله بن عمر، فجالسناه، قال: فإذا رجال يصلون الضحى، فقلنا: يا ابا عبد الرحمن، ما هذه الصلاة؟ فقال: بدعة، فقلنا له: كم اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: اربعا، إحداهن في رجب، قال: فاستحيينا ان نرد عليه، قال: فسمعنا استنان ام المؤمنين عائشة ، فقال لها عروة بن الزبير: يا ام المؤمنين، الا تسمعي ما يقول ابو عبد الرحمن ؟! يقول: اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم اربعا، إحداهن في رجب؟! فقالت: يرحم الله ابا عبد الرحمن، اما إنه لم يعتمر عمرة إلا وهو شاهدها، وما اعتمر شيئا في رجب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا نَحْنُ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَجَالَسْنَاهُ، قَالَ: فَإِذَا رِجَالٌ يُصَلُّونَ الضُّحَى، فَقُلْنَا: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ؟ فَقَالَ: بِدْعَةٌ، فَقُلْنَا لَهُ: كَمْ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَرْبَعًا، إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ، قَالَ: فَاسْتَحْيَيْنَا أَنْ نَرُدَّ عَلَيْهِ، قَالَ: فَسَمِعْنَا اسْتِنَانَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ ، فَقَالَ لَهَا عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَلَا تَسْمَعِي مَا يَقُولُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ؟! يَقُولُ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا، إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ؟! فَقَالَتْ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَعْتَمِرْ عُمْرَةً إِلَّا وَهُوَ شَاهِدُهَا، وَمَا اعْتَمَرَ شَيْئًا فِي رَجَبٍ.
مجاہدرحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور عروہ بن زبیر رحمہ اللہ مسجد میں داخل ہوئے ہم لوگ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچے اور ان کے پاس بیٹھ گئے وہاں کچھ لوگ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے ہم نے ان سے پوچھا اے ابوعبدالرحمن یہ کیسی نماز ہے؟ انہوں نے فرمایا: نو ایجاد ہے ہم نے ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے تھے؟ انہوں نے فرمایا: چار جن میں سے ایک رجب میں بھی تھا ہمیں ان کی بات کی ترید کرتے ہوئے شرم آئی البتہ اسی وقت ہم نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے مسواک کرنے کی آواز سنی تو عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے ان سے کہا اے ام المؤمنین کیا آپ نے ابو عبدالرحمن کی بات سنی؟ وہ فرما رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے ہیں جن میں سے ایک رجب میں تھا؟ انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمن پر رحم فرمائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمرہ بھی کیا وہ اس میں شریک رہے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں فرمایا:۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبيدة ، حدثنا محمد بن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن رجل يدعى: صدوع، وفي نسخة: صدقة , عن ابن عمر ، قال: اعتكف رسول الله صلى الله عليه وسلم في العشر الاواخر، قال: فبني له بيت من سعف، قال: فاخرج راسه منه ذات ليلة، فقال: ايها الناس،" إن المصلي إذا صلى , فإنه يناجي ربه تبارك وتعالى، فليعلم بما يناجيه ولا يجهر بعضكم على بعض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ رَجُلٍ يُدْعَى: صَدُوعَ، وَفِي نُسْخَةٍ: صَدَقَةَ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، قَالَ: فَبُنِيَ لَهُ بَيْتٌ مِنْ سَعَفٍ، قَالَ: فَأَخْرَجَ رَأْسَهُ مِنْهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ،" إِنَّ الْمُصَلِّيَ إِذَا صَلَّى , فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، فَلْيَعْلَمْ بِمَا يُنَاجِيهِ وَلَا يَجْهَرْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھجور کی شاخوں سے ایک خیمہ بنادیا گیا ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے سرنکالا اور ارشاد فرمایا: جو شخص بھی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے درحقیقت وہ اپنے رب کی مناجات کرتا ہے اس لئے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تم اپنے رب سے کیا مناجات کر رہے ہو؟ اور تم نماز میں ایک دوسرے سے اونچی قرأت نہ کیا کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبيدة بن حميد ، حدثني عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيعرض البعير بينه وبين القبلة"، وقال عبيد الله: سالت نافعا، فقلت: إذا ذهبت الإبل، كيف كان يصنع ابن عمر؟ قال: كان يعرض مؤخرة الرحل بينه وبين القبلة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَيُعَرِّضُ الْبَعِيرَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ"، وقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: سَأَلْتُ نَافِعًا، فَقُلْتُ: إِذَا ذَهَبَتْ الْإِبِلُ، كَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ ابْنُ عُمَرَ؟ قَالَ: كَانَ يُعَرِّضُ مُؤْخِرَةَ الرَّحْلِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو سامنے رکھ کر اسے بطور سترہ آگے کر لیتے اور نماز پڑھ لیتے تھے۔