مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 3786
Save to word اعراب
قال يحيى : وحدثنا حماد ، عن ثابت ، عن ابي رافع ، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم... بمثله.قَالَ يَحْيَى : وحَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... بِمِثْلِهِ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3481، م: 2756.
حدیث نمبر: 3787
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عارم بن الفضل ، حدثنا سعيد بن زيد ، حدثنا علي بن الحكم البناني ، عن عثمان ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، والاسود ، عن ابن مسعود ، قال: جاء ابنا مليكة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالا: إن امنا كانت تكرم الزوج، وتعطف على الولد، قال: وذكر الضيف غير انها كانت وادت في الجاهلية، قال:" امكما في النار"، فادبرا، والشر يرى في وجوههما، فامر بهما، فردا، فرجعا والسرور يرى في وجوههما، رجيا ان يكون قد حدث شيء، فقال:" امي مع امكما"، فقال رجل من المنافقين: وما يغني هذا عن امه شيئا، ونحن نطا عقبيه، فقال رجل من الانصار: ولم ار رجلا قط اكثر سؤالا منه يا رسول الله، هل وعدك ربك فيها او فيهما؟ قال: فظن انه من شيء قد سمعه، فقال:" ما سالته ربي، وما اطمعني فيه، وإني لاقوم المقام المحمود يوم القيامة"، فقال الانصاري: وما ذاك المقام المحمود؟ قال:" ذاك إذا جيء بكم عراة حفاة غرلا، فيكون اول من يكسى إبراهيم عليه السلام، يقول: اكسوا خليلي، فيؤتى بريطتين بيضاوين، فليلبسهما، ثم يقعد فيستقبل العرش، ثم اوتى بكسوتي، فالبسها، فاقوم عن يمينه مقاما لا يقومه احد غيري، يغبطني به الاولون والآخرون"، قال:" ويفتح نهر من الكوثر إلى الحوض"، فقال المنافقون: فإنه ما جرى ماء قط إلا على حال، او رضراض، قال: يا رسول الله، على حال او رضراض؟ قال:" حاله المسك، ورضراضه التوم". قال المنافق: لم اسمع كاليوم، قلما جرى ماء قط على حال او رضراض إلا كان له نبتة، فقال الانصاري: يا رسول الله، هل له نبت؟ قال:" نعم، قضبان الذهب"، قال المنافق: لم اسمع كاليوم، فإنه قلما نبت قضيب إلا اورق، وإلا كان له ثمر، قال الانصاري: يا رسول الله، هل من ثمر؟ قال:" نعم، الوان الجوهر، وماؤه اشد بياضا من اللبن، واحلى من العسل، إن من شرب منه مشربا لم يظما بعده، وإن حرمه لم يرو بعده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ عُثْمَانَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالْأَسْوَدِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: جَاءَ ابْنَا مُلَيْكَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا: إِنَّ أُمَّنَا كَانَتْ تُكْرِمُ الزَّوْجَ، وَتَعْطِفُ عَلَى الْوَلَدِ، قَالَ: وَذَكَرَ الضَّيْفَ غَيْرَ أَنَّهَا كَانَتْ وَأَدَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَ:" أُمُّكُمَا فِي النَّارِ"، فَأَدْبَرَا، وَالشَّرُّ يُرَى فِي وُجُوهِهِمَا، فَأَمَرَ بِهِمَا، فَرُدَّا، فَرَجَعَا وَالسُّرُورُ يُرَى فِي وُجُوهِهِمَا، رَجِيَا أَنْ يَكُونَ قَدْ حَدَثَ شَيْءٌ، فَقَالَ:" أُمِّي مَعَ أُمِّكُمَا"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُنَافِقِينَ: وَمَا يُغْنِي هَذَا عَنْ أُمِّهِ شَيْئًا، وَنَحْنُ نَطَأُ عَقِبَيْهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: وَلَمْ أَرَ رَجُلًا قَطُّ أَكْثَرَ سُؤَالًا مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ وَعَدَكَ رَبُّكَ فِيهَا أَوْ فِيهِمَا؟ قَالَ: فَظَنَّ أَنَّهُ مِنْ شَيْءٍ قَدْ سَمِعَهُ، فَقَالَ:" مَا سَأَلْتُهُ رَبِّي، وَمَا أَطْمَعَنِي فِيهِ، وَإِنِّي لَأَقُومُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: وَمَا ذَاكَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ؟ قَالَ:" ذَاكَ إِذَا جِيءَ بِكُمْ عُرَاةً حُفَاةً غُرْلًا، فَيَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُكْسَى إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام، يَقُولُ: اكْسُوا خَلِيلِي، فَيُؤْتَى بِرَيْطَتَيْنِ بَيْضَاوَيْنِ، فَلَيَلْبِسْهُمَا، ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَسْتَقْبِلُ الْعَرْشَ، ثُمَّ أُوتَى بِكِسْوَتِي، فَأَلْبَسُهَا، فَأَقُومُ عَنْ يَمِينِهِ مَقَامًا لَا يَقُومُهُ أَحَدٌ غَيْرِي، يَغْبِطُنِي بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ"، قَالَ:" وَيُفْتَحُ نَهَرٌ مِنَ الْكَوْثَرِ إِلَى الْحَوْضِ"، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ: فَإِنَّهُ مَا جَرَى مَاءٌ قَطُّ إِلَّا عَلَى حَالٍ، أَوْ رَضْرَاضٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلَى حَالٍ أَوْ رَضْرَاضٍ؟ قَالَ:" حَالُهُ الْمِسْكُ، وَرَضْرَاضُهُ التُّومُ". قَالَ الْمُنَافِقُ: لَمْ أَسْمَعْ كَالْيَوْمِ، قَلَّمَا جَرَى مَاءٌ قَطُّ عَلَى حَالٍ أَوْ رَضْرَاضٍ إِلَّا كَانَ لَهُ نَبْتَةٌ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَهُ نَبْتٌ؟ قَالَ:" نَعَمْ، قُضْبَانُ الذَّهَبِ"، قَالَ الْمُنَافِقُ: لَمْ أَسْمَعْ كَالْيَوْمِ، فَإِنَّهُ قَلَّمَا نَبَتَ قَضِيبٌ إِلَّا أَوْرَقَ، وَإِلَّا كَانَ لَهُ ثَمَرٌ، قَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ مِنْ ثَمَرٍ؟ قَالَ:" نَعَمْ، أَلْوَانُ الْجَوْهَرِ، وَمَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، إِنَّ مَنْ شَرِبَ مِنْهُ مَشْرَبًا لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهُ، وَإِنْ حُرِمَهُ لَمْ يُرْوَ بَعْدَهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ملیکہ کے دونوں بیٹے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہماری والدہ اپنے شوہر کی بڑی عزت کرتی تھیں، بچوں پر بڑی مہربان تھیں، ان کی مہمان نوازی کا بھی انہوں نے تذکرہ کیا، البتہ زمانہ جاہلیت میں انہوں نے ایک بچی کو زندہ درگور کر دیا تھا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں جہنم میں ہے، یہ سن کر وہ دونوں واپس جانے لگے اور ان دونوں کے چہروں سے ناگواری کے آثار واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان دونوں کو واپس بلایا گیا، چنانچہ جب وہ واپس آئے تو ان کے چہرے پر خوشی کے اثرات دیکھے جا سکتے تھے، کیونکہ انہیں یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید ان کی والدہ کے متعلق کوئی نیا حکم نازل ہو گیا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ میری ماں بھی تمہاری ماں کے ساتھ ہو گی۔ ایک منافق یہ سن کر چپکے سے کہنے لگا کہ ہم ان کی پیروی یوں ہی کر رہے ہیں، یہ تو اپنی ماں کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے؟ ایک انصاری - جس سے زیادہ سوال کرنے والا میں نے نہیں دیکھا - کہنے لگا: یا رسول اللہ! کیا آپ کے رب نے اس عورت یا ان دنوں کے بارے کوئی وعدہ فرمایا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے پروردگار سے اس کا سوال کیا ہے اور نہ ہی اس نے مجھے کوئی امید دلائی ہے، البتہ میں قیامت کے دن مقام محمود پر فائز کیا جاؤں گا، اس انصاری نے پوچھا: مقام محمود کیا چیز ہے؟ فرمایا: جس وقت قیامت کے دن تم سب کو برہنہ جسم، برہنہ پا اور غیر مختون حالت میں لایا جائے گا، اور سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے خلیل کو لباس پہناؤ، چنانچہ دو سفید چادریں لائی جائیں گی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام انہیں زیب تن فرما لیں گے، پھر وہ بیٹھ جائیں گے اور عرش الٰہی کی طرف رخ کر لیں گے۔ اس کے بعد میرے لئے لباس لایا جائے گا اور میں بھی اسے پہن لوں گا، پھر میں اپنی دائیں جانب ایک ایسے مقام پر کھڑا ہو جاؤں گا جہاں میرے علاوہ کوئی اور کھڑا نہ ہو سکے گا اور اولین و آخرین اس کی وجہ سے مجھ پر رشک کریں گے، پھر جنت کی نہر کوثر میں سے حوض کوثر تک ایک نہر نکالی جائے گی۔ یہ سن کر منافقین کہنے لگے کہ پانی تو ہمیشہ مٹی پر یا چھوٹی اور باریک کنکریوں پر بہتا ہے، اس انصاری نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ پانی کسی مٹی پر بہتا ہو گا یا کنکریوں پر؟ فرمایا: اس کی مٹی مشک ہو گی اور اس کی کنکریاں موتی جیسے چاندی کے دانے ہوں گے، ایک منافق آہستہ سے کہنے لگا کہ یہ بات تو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنی، جب بھی کسی مٹی یا کنکریوں پر پانی بہتا ہے تو وہاں کچھ چیزیں یقینا اگتی ہیں، اس منافق کی بات سن کر اس انصاری نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا وہاں کچھ چیزیں بھی اگتی ہوں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! سونے کی شاخیں، وہ منافق پھر کہنے لگا کہ یہ بات تو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنی، جہاں شاخیں اگتی ہیں وہاں پتے اور پھل بھی ہوتے ہیں، اس انصاری نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا وہاں پھل بھی ہوں گے؟ فرمایا: ہاں! جواہرات کے رنگ جیسے، اور حوض کوثر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا، جو شخص اس کا ایک گھونٹ پی لے گا، اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی اور جو شخص اس سے محروم رہ جائے گا وہ کبھی سیراب نہ ہوگا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عثمان،، وسعيد مختلف فيه.
حدیث نمبر: 3788
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، وعفان ، قالا: حدثنا معتمر ، قال: قال ابي : حدثني ابو تميمة ، عن عمرو ، لعله ان يكون قد قال: البكالي يحدثه عمرو، عن عبد الله بن مسعود، قال عمرو إن عبد الله قال: استبعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فانطلقنا، حتى اتيت مكان كذا وكذا فخط لي خطة، فقال لي:" كن بين ظهري هذه لا تخرج منها، فإنك إن خرجت هلكت"، قال: فكنت فيها، قال: فمضى رسول الله صلى الله عليه وسلم، حذفة، او ابعد شيئا، او كما قال: ثم إنه ذكر هنينا كانهم الزط قال عفان: او كما قال عفان: إن شاء الله ليس عليهم ثياب، ولا ارى سوآتهم، طوالا، قليل لحمهم، قال: فاتوا، فجعلوا يركبون رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وجعل نبي الله صلى الله عليه وسلم يقرا عليهم، قال: وجعلوا ياتوني، فيخيلون او يميلون حولي، ويعترضون لي، قال عبد الله: فارعبت منهم رعبا شديدا، قال: فجلست او كما قال، قال: فلما انشق عمود الصبح جعلوا يذهبون او كما قال، قال: ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء ثقيلا وجعا، او يكاد ان يكون وجعا مما ركبوه، قال:" إني لاجدني ثقيلا" او كما قال، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه في حجري او كما قال، قال: ثم إن هنينا اتوا، عليهم ثياب بيض طوال او كما قال، وقد اغفى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال عبد الله: فارعبت منهم اشد مما ارعبت المرة الاولى، قال عارم في حديثه: قال: فقال بعضهم لبعض: لقد اعطي هذا العبد خيرا، او كما قالوا: إن عينيه نائمتان، او قال: عينه او كما قالوا: وقلبه يقظان، ثم قال: قال عارم وعفان: قال بعضهم لبعض: هلم فلنضرب له مثلا او كما قالوا، قال بعضهم لبعض: اضربوا له مثلا ونؤول نحن، او نضرب نحن وتؤولون انتم، فقال بعضهم لبعض: مثله كمثل سيد ابتنى بنيانا حصينا، ثم ارسل إلى الناس بطعام او كما قال، فمن لم يات طعامه او قال: لم يتبعه عذبه عذابا شديدا او كما قالوا، قال الآخرون: اما السيد: فهو رب العالمين، واما البنيان: فهو الإسلام، والطعام: الجنة، وهو الداعي، فمن اتبعه كان في الجنة، قال عارم في حديثه او كما قالوا: ومن لم يتبعه عذب او كما قال، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم استيقظ، فقال:" ما رايت يا ابن ام عبد؟" فقال عبد الله: رايت كذا وكذا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما خفي علي مما قالوا شيء"، قال نبي الله صلى الله عليه وسلم:" هم نفر من الملائكة، او قال: هم من الملائكة، او كما شاء الله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: قَالَ أَبِي : حَدَّثَنِي أَبُو تَمِيمَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ قَالَ: الْبِكَالِيَّ يُحَدِّثُهُ عَمْرٌو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ عَمْرٌو إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ قَالَ: اسْتَبْعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا، حَتَّى أَتَيْتُ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا فَخَطَّ لِي خِطَّةً، فَقَالَ لِي:" كُنْ بَيْنَ ظَهْرَيْ هَذِهِ لَا تَخْرُجْ مِنْهَا، فَإِنَّكَ إِنْ خَرَجْتَ هَلَكْتَ"، قَالَ: فَكُنْتُ فِيهَا، قَالَ: فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَذَفَةً، أَوْ أَبْعَدَ شَيْئًا، أَوْ كَمَا قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ ذَكَرَ هَنِينًا كَأَنَّهُمْ الزُّطُّ قَالَ عَفَّانُ: أَوْ كَمَا قَالَ عَفَّانُ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَيْسَ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ، وَلَا أَرَى سَوْآتِهِمْ، طِوَالًا، قَلِيلٌ لَحْمُهُمْ، قَالَ: فَأَتَوْا، فَجَعَلُوا يَرْكَبُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَجَعَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ عَلَيْهِمْ، قَالَ: وَجَعَلُوا يَأْتُونِي، فَيُخَيِّلُونَ أَوْ يَمِيلُونَ حَوْلِي، وَيَعْتَرِضُونَ لِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَأُرْعِبْتُ مِنْهُمْ رُعْبًا شَدِيدًا، قَالَ: فَجَلَسْتُ أَوْ كَمَا قَالَ، قَالَ: فَلَمَّا انْشَقَّ عَمُودُ الصُّبْحِ جَعَلُوا يَذْهَبُونَ أَوْ كَمَا قَالَ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ ثَقِيلًا وَجِعًا، أَوْ يَكَادُ أَنْ يَكُونَ وَجِعًا مِمَّا رَكِبُوهُ، قَالَ:" إِنِّي لَأَجِدُنِي ثَقِيلًا" أَوْ كَمَا قَالَ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي حِجْرِي أَوْ كَمَا قَالَ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ هَنِينًا أَتَوْا، عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ طِوَالٌ أَوْ كَمَا قَالَ، وَقَدْ أَغْفَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَأُرْعِبْتُ مِنْهُمْ أَشَدَّ مِمَّا أُرْعِبْتُ الْمَرَّةَ الْأُولَى، قَالَ عَارِمٌ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: لَقَدْ أُعْطِيَ هَذَا الْعَبْدُ خَيْرًا، أَوْ كَمَا قَالُوا: إِنَّ عَيْنَيْهِ نَائِمَتَانِ، أَوْ قَالَ: عَيْنَهُ أَوْ كَمَا قَالُوا: وَقَلْبَهُ يَقْظَانُ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ عَارِمٌ وَعَفَّانُ: قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: هَلُمَّ فَلْنَضْرِبْ لَهُ مَثَلًا أَوْ كَمَا قَالُوا، قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: اضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا وَنُؤَوِّلُ نَحْنُ، أَوْ نَضْرِبُ نَحْنُ وَتُؤَوِّلُونَ أَنْتُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: مَثَلُهُ كَمَثَلِ سَيِّدٍ ابْتَنَى بُنْيَانًا حَصِينًا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى النَّاسِ بِطَعَامٍ أَوْ كَمَا قَالَ، فَمَنْ لَمْ يَأْتِ طَعَامَهُ أَوْ قَالَ: لَمْ يَتْبَعْهُ عَذَّبَهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ كَمَا قَالُوا، قَالَ الْآخَرُونَ: أَمَّا السَّيِّدُ: فَهُوَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، وَأَمَّا الْبُنْيَانُ: فَهُوَ الْإِسْلَامُ، وَالطَّعَامُ: الْجَنَّةُ، وَهُوَ الدَّاعِي، فَمَنْ اتَّبَعَهُ كَانَ فِي الْجَنَّةِ، قَالَ عَارِمٌ فِي حَدِيثِهِ أَوْ كَمَا قَالُوا: وَمَنْ لَمْ يَتَّبِعْهُ عُذِّبَ أَوْ كَمَا قَالَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَيْقَظَ، فَقَالَ:" مَا رَأَيْتَ يَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ؟" فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: رَأَيْتُ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا خَفِيَ عَلَيَّ مِمَّا قَالُوا شَيْءٌ"، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُمْ نَفَرٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، أَوْ قَالَ: هُمْ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، أَوْ كَمَا شَاءَ اللَّهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے ساتھ کہیں لے کر گئے، ہم چلتے رہے یہاں تک کہ جب ایک مقام پر پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر ایک خط کھینچا اور مجھ سے فرمایا کہ اس خط سے پیچھے رہنا، اس سے آگے نہ نکلنا، اگر تم اس سے آگے نکلے تو ہلاک ہو جاؤ گے، چنانچہ میں وہیں رہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دور گئے جہاں تک انسان کی پھینکی ہوئی کنکری جا سکتی ہے یا اس سے کچھ آگے، وہاں کچھ لوگ محسوس ہوئے جو ہندوستان کی ایک قوم جاٹ لگتے تھے، انہوں نے کپڑے بھی نہیں پہن رکھے تھے اور مجھے ان کی شرمگاہ بھی نظر نہیں آتی تھی، ان کے قد لمبےاور گوشت بہت تھوڑا تھا، وہ آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سوار ہونے کی کوشش کرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے کچھ پڑھتے رہے، وہ میرے پاس بھی آئے اور میرے ارد گرد گھومنے اور مجھے چھیڑنے کی کوشش کرنے لگے جس سے مجھ پر شدید قسم کی دہشت طاری ہو گئی اور میں اپنی جگہ پر ہی بیٹھ گیا۔ جب پو پھٹی تو وہ لوگ جانا شروع ہو گئے، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپس آ گئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت بوجھل محسوس ہو رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں درد ہو رہا تھا، اس لئے مجھ سے فرمانے لگے کہ مجھے طبیعت بوجھل لگ رہی ہے، پھر اپنا سر میری گود میں رکھ دیا، اسی اثناء میں کچھ لوگ اور آ گئے جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور ان کے قد بھی لمبے لمبے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو چکے تھے اس لئے مجھ پر پہلی مرتبہ سے بھی زیادہ شدید دہشت طاری ہوگئی۔ پھر وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اس بندے کو خیر عطا کی گئی ہے، اس کی آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے، آؤ، ہم ان کے لئے کوئی مثال دیتے ہیں، تم مثال بیان کرو، ہم اس کی تاویل بتائیں گے یا ہم مثال بیان کرتے ہیں، تم اس کی تاویل بتانا، چنانچہ ان میں سے کچھ لوگ کہنے لگے کہ ان کی مثال اس سردار کی سی ہے جس نے کوئی بڑی مضبوط عمارت بنوائی، پھر لوگوں کو دعوت پر بلایا، اور جو شخص دعوت میں شریک نہ ہوا، اس نے اسے بڑی سخت سزا دی، دوسروں نے اس کی تاویل بیان کرتے ہوئے کہا کہ سردار سے مراد تو اللہ رب العالمین ہے، عمارت سے مراد اسلام ہے، کھانے سے مراد جنت ہے، اور یہ داعی ہیں، جو ان کی اتباع کرے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو ان کی اتباع نہیں کرے گا اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیدار ہو گئے اور فرمانے لگے: اے ابن ام عبد! تم نے کیا دیکھا؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے یہ یہ چیز دیکھی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے جو کچھ کہا، مجھ پر اس میں سے کچھ بھی پوشیدہ اور مخفی نہیں، یہ فرشتوں کی جماعت تھی۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف عمرو البكالي، لم يثبت سماعه لهذا الحديث من ابن مسعود.
حدیث نمبر: 3789
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، حدثنا عبد العزيز بن مسلم القسملي ، حدثنا سليمان الاعمش ، عن حبيب بن ابي ثابت ، عن يحيى بن جعدة ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يدخل النار من كان في قلبه مثقال حبة من إيمان". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ولا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال حبة من كبر فقال رجل: يا رسول الله، إني ليعجبني ان يكون ثوبي غسيلا، وراسي دهينا، وشراك نعلي جديدا، وذكر اشياء، حتى ذكر علاقة سوطه، افمن الكبر ذاك يا رسول الله؟ قال:" لا، ذاك الجمال، إن الله جميل يحب الجمال، ولكن الكبر من سفه الحق، وازدرى الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ الْقَسْمَلِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ كِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَيُعْجِبُنِي أَنْ يَكُونَ ثَوْبِي غَسِيلًا، وَرَأْسِي دَهِينًا، وَشِرَاكُ نَعْلِي جَدِيدًا، وَذَكَرَ أَشْيَاءَ، حَتَّى ذَكَرَ عِلَاقَةَ سَوْطِهِ، أَفَمِنْ الْكِبْرِ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لَا، ذَاكَ الْجَمَالُ، إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، وَلَكِنَّ الْكِبْرَ مَنْ سَفِهَ الْحَقَّ، وَازْدَرَى النَّاسَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جہنم میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا، اور وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا، ایک شخص نے یہ سن کر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے یہ چیز اچھی لگتی ہے کہ میرے کپڑے دھلے ہوئے ہوں، میرے سر میں تیل لگا ہوا ہو اور میرے جوتوں کا تسمہ نیا ہو، اس نے کچھ اور چیزیں بھی ذکر کیں حتی کہ اپنے کوڑے کی رسی کا بھی ذکر کیا اور کہا: یا رسول اللہ! کیا یہ بھی تکبر میں شامل ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ تو خوبصورتی ہے، اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، تکبر تو یہ ہے کہ انسان حق بات کو قبول نہ کرے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔

حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، م: 91، وهذا إسناد ضعيف لإرساله، يحيي بن جعدة لم يلق ابن مسعود.
حدیث نمبر: 3790
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح ، حدثنا إسماعيل بن زكريا ، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن القاسم بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنه سيلي امركم من بعدي رجال يطفئون السنة، ويحدثون بدعة، ويؤخرون الصلاة عن مواقيتها"، قال ابن مسعود: يا رسول الله، كيف بي إذا ادركتهم؟ قال:" ليس يا ابن ام عبد طاعة لمن عصى الله"، قالها ثلاث مرات، قال عبد الله بن احمد: وسمعت انا من محمد بن الصباح ، مثله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ سَيَلِي أَمْرَكُمْ مِنْ بَعْدِي رِجَالٌ يُطْفِئُونَ السُّنَّةَ، وَيُحْدِثُونَ بِدْعَةً، وَيُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ مَوَاقِيتِهَا"، قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِي إِذَا أَدْرَكْتُهُمْ؟ قَالَ:" لَيْسَ يَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ طَاعَةٌ لِمَنْ عَصَى اللَّهَ"، قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قال عبد الله بن أحمد: وسَمِعْت أَنَا مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ ، مِثْلَهُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے بعد حکومت کی باگ دوڑ کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں بھی آئے گی جو سنت کو مٹا دیں گے اور بدعت کو جلاء دیں گے، اور نماز کو اس کے وقت مقررہ سے ہٹا دیں گے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں ایسے لوگوں کو پاؤں تو ان کے ساتھ میرا رویہ کیسا ہونا چاہئے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن ام عبد! اللہ کی نافرمانی کرنے والے کی اطاعت نہیں کی جاتی، یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ دہرایا۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن عند من يصحح سماع عبدالرحمن من أبيه عبدالله، وهو ضعيف عند من يقول: إنه لم يسمع من أبيه إلا اليسير.
حدیث نمبر: 3791
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود الهاشمي ، انبانا إسماعيل ، اخبرني عمرو بن ابي عمرو ، عن عبيد الله ، وحمزة ابني عبد الله بن عتبة، عن عبد الله بن مسعود ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" كان ياكل اللحم، ثم يقوم إلى الصلاة ولا يمس ماء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ ، أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي عَمْرٍو ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، وَحَمْزَةَ ابني عبد الله بن عتبة، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَأْكُلُ اللَّحْمَ، ثُمَّ يَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ وَلَا يَمَسُّ مَاءً".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گوشت تناول فرماتے، پھر پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز پڑھانے کھڑے ہو جاتے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عبيد الله وحمزة لم يدركا عم أبيهما عبدالله بن مسعود.
حدیث نمبر: 3792
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز بن محمد ، عن عمرو يعني ابن ابي عمرو ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، عن ابن مسعود ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" ياكل اللحم، ثم يقوم إلى الصلاة، فما يمس قطرة ماء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ أَبِي عَمْرٍو ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَأْكُلُ اللَّحْمَ، ثُمَّ يَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ، فَمَا يَمَسُّ قَطْرَةَ مَاءٍ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت تناول فرمایا، پھر پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز پڑھانے کھڑے ہو گئے۔

حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، وهو مكرر سابقه.
حدیث نمبر: 3793
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا سليمان بن بلال ، عن عمرو بن ابي عمرو ، عن حمزة بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، عن ابن مسعود ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" اكل لحما، ثم قام إلى الصلاة، ولم يمس ماء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَكَلَ لَحْمًا، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَمَسَّ مَاءً".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت تناول فرمایا، پھر پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز پڑھانے کھڑے ہو گئے۔

حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، حمزة لم يدرك ابن مسعود.
حدیث نمبر: 3794
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا إسرائيل ، حدثنا ابو إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن عبد الله ، قال:" انطلق سعد بن معاذ معتمرا، فنزل على صفوان بن امية بن خلف، وكان امية إذا انطلق إلى الشام، فمر بالمدينة، نزل على سعد، فقال امية لسعد: انتظر، حتى إذا انتصف النهار، وغفل الناس، انطلقت فطفت، فبينما سعد يطوف، إذ اتاه ابو جهل، فقال: من هذا يطوف بالكعبة آمنا؟ قال سعد: انا سعد، فقال ابو جهل: تطوف بالكعبة آمنا، وقد آويتم محمدا عليه الصلاة والسلام؟ فتلاحيا، فقال امية لسعد: لا ترفعن صوتك على ابي الحكم، فإنه سيد اهل الوادي، فقال له سعد: والله إن منعتني ان اطوف بالبيت، لاقطعن إليك متجرك إلى الشام، فجعل امية يقول: لا ترفعن صوتك على ابي الحكم، وجعل يمسكه، فغضب سعد، فقال: دعنا منك، فإني سمعت محمدا" يزعم انه قاتلك"، قال: إياي؟ قال: نعم، قال: والله ما يكذب محمد، فلما خرجوا، رجع إلى امراته، فقال: اما علمت ما قال لي اليثربي؟ فاخبرها به، فلما جاء الصريخ، وخرجوا إلى بدر، قالت امراته: اما تذكر ما قال اخوك اليثربي؟ فاراد ان لا يخرج، فقال له ابو جهل: إنك من اشراف الوادي، فسر معنا يوما او يومين، فسار معهم، فقتله الله عز وجل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" انْطَلَقَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ مُعْتَمِرًا، فَنَزَلَ عَلَى صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَكَانَ أُمَيَّةُ إِذَا انْطَلَقَ إِلَى الشَّامِ، فَمَرَّ بِالْمَدِينَةِ، نَزَلَ عَلَى سَعْدٍ، فَقَالَ أُمَيَّةُ لِسَعْدٍ: انْتَظِرْ، حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ، وَغَفَلَ النَّاسُ، انْطَلَقْتَ فَطُفْتَ، فَبَيْنَمَا سَعْدٌ يَطُوفُ، إِذْ أَتَاهُ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ آمِنًا؟ قَالَ سَعْدٌ: أَنَا سَعْدٌ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: تَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ آمِنًا، وَقَدْ آوَيْتُمْ مُحَمَّدًا عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ؟ فَتَلَاحَيَا، فَقَالَ أُمَيَّةُ لِسَعْدٍ: لَا تَرْفَعَنَّ صَوْتَكَ عَلَى أَبِي الْحَكَمِ، فَإِنَّهُ سَيِّدُ أَهْلِ الْوَادِي، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: وَاللَّهِ إِنْ مَنَعْتَنِي أَنْ أَطُوفَ بِالْبَيْتِ، لَأَقْطَعَنَّ إِلَيْكَ مَتْجَرَكَ إِلَى الشَّأْمِ، فَجَعَلَ أُمَيَّةُ يَقُولُ: لَا تَرْفَعَنَّ صَوْتَكَ عَلَى أَبِي الْحَكَمِ، وَجَعَلَ يُمْسِكُهُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ، فَقَالَ: دَعْنَا مِنْكَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ مُحَمَّدًا" يَزْعُمُ أَنَّهُ قَاتِلُكَ"، قَالَ: إِيَّايَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا يَكْذِبُ مُحَمَّدٌ، فَلَمَّا خَرَجُوا، رَجَعَ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ: أَمَا عَلِمْتِ مَا قَالَ لِي الْيَثْرِبِيُّ؟ فَأَخْبَرَهَا به، فَلَمَّا جَاءَ الصَّرِيخُ، وَخَرَجُوا إِلَى بَدْرٍ، قَالَتْ امْرَأَتُهُ: أَمَا تَذْكُرُ مَا قَالَ أَخُوكَ الْيَثْرِبِيُّ؟ فَأَرَادَ أَنْ لَا يَخْرُجَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ: إِنَّكَ مِنْ أَشْرَافِ الْوَادِي، فَسِرْ مَعَنَا يَوْمًا أَوْ يَوْمَيْنِ، فَسَارَ مَعَهُمْ، فَقَتَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ پہنچے اور امیہ بن خلف ابوصفوان کے مہمان بنے، امیہ کی بھی یہی عادت تھی کہ جب وہ شام جاتے ہوئے مدینہ منورہ سے گزرتا تھا تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے یہاں مہمان بنتا تھا، بہرحال! امیہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا کہ آپ تھوڑا سا انتظار کر لیں، جب دن خوب نکل آئے گا اور لوگ غافل ہو جائیں گے تب آپ جا کر طواف کر لیجئے گا۔ جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ طواف کر رہے تھے تو اچانک ابوجہل آ گیا اور کہنے لگا کہ یہ کون شخص خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہے؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں سعد ہوں، ابوجہل کہنے لگا کہ تم کتنے اطمینان سے طواف کر رہے ہو حالانکہ تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کو پناہ دے رکھی ہے؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! ہم نے انہیں پناہ دے رکھی ہے، اس پر دونوں میں تکرار ہونے لگی۔ امیہ بن خلف سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا کہ آپ ابوالحکم یعنی ابوجہل پر اپنی آواز کو بلند نہ کریں کیونکہ وہ اس علاقے کا سردار ہے، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واللہ! اگر تو نے مجھے طواف کرنے سے روکا تو میں تیری شام کی تجارت کا راستہ بند کر دوں گا، امیہ بار بار یہی کہے جاتا تھا کہ آپ اپنی آواز اونچی نہ کریں اور انہیں روکے جاتا تھا، اس پر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا اور فرمایا کہ ہمارے درمیان سے ہٹ جاؤ، کیونکہ تمہارے بارے بھی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ تمہیں قتل کر دیں گے، امیہ نے پوچھا: مجھے؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں! امیہ نے کہا کہ واللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کبھی جھوٹ نہیں بولتے، بہرحال! جب وہ لوگ چلے گئے تو امیہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہنے لگا: تمہیں پتہ چلا کہ اس یثربی نے مجھ سے کیا کہا ہے؟ پھر اس نے اپنی بیوی کو سارا واقعہ بتایا، ادھر جب منادی آیا اور لوگ بدر کی طرف روانہ ہونے لگے تو امیہ کی بیوی نے اس سے کہا: تمہیں یاد نہیں ہے کہ تمہارے یثربی دوست نے تم سے کیا کہا تھا؟ اس پر امیہ نے نہ جانے کا ارادہ کر لیا، لیکن ابوجہل اس سے کہنے لگا کہ تم ہمارے اس علاقے کے معزز آدمی ہو، ایک دو دن کے لئے ہمارے ساتھ چلے چلو، چنانچہ وہ ان کے ساتھ چلا گیا اور اللہ نے اسے قتل کروا دیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3632.
حدیث نمبر: 3795
Save to word اعراب
حدثنا خلف بن الوليد ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن عبد الله ، قال: انطلق سعد بن معاذ معتمرا على امية بن خلف بن صفوان، وكان امية إذا انطلق إلى الشام، ومر بالمدينة نزل على سعد... فذكر الحديث، إلا انه قال: فرجع إلى ام صفوان، فقال: اما تعلمي ما قال اخي اليثربي؟ قالت: وما قال؟ قال: زعم انه سمع محمدا يزعم انه قاتلي، قالت: فوالله ما يكذب محمد، فلما خرجوا إلى بدر وساقه".حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: انْطَلَقَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ مُعْتَمِرًا عَلَى أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفِ بْنِ صَفْوَانَ، وَكَانَ أُمَيَّةُ إِذَا انْطَلَقَ إِلَى الشَّامِ، وَمَرَّ بِالْمَدِينَةِ نَزَلَ عَلَى سَعْدٍ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَرَجَعَ إِلَى أُمِّ صَفْوَانَ، فَقَالَ: أَمَا تَعْلَمِي مَا قَالَ أَخِي الْيَثْرِبِيُّ؟ قَالَتْ: وَمَا قَالَ؟ قَالَ: زَعَمَ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدًا يَزْعُمُ أَنَّهُ قَاتِلِي، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا يَكْذِبُ مُحَمَّدٌ، فَلَمَّا خَرَجُوا إِلَى بَدْرٍ وَسَاقَهُ".
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وهو مكرر سابقه.

Previous    21    22    23    24    25    26    27    28    29    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.