سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کا ایک سجدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تین سجدوں سے بھی زیادہ لمبا ہوتا ہے۔ (حالانکہ امام کو تخفیف کا حکم ہے)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عطية بن سعد العوفي.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا العمري ، عن نافع ، عن ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان يرفع يديه حذو منكبيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین کرتے ہوئے کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف العمري، لكنه متابع.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مسجد فضیخ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ”فضیخ“یعنی کچی کھجور کی نبیذ پیش کی گئی تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرما لیا تھا، اسی وجہ سے اس مسجد کا نام مسجد فضیخ پڑ گیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا العمري ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من شرب الخمر في الدنيا، لم يشربها في الآخرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الدُّنْيَا، لَمْ يَشْرَبْهَا فِي الْآخِرَةِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں شراب پیئے تو وہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا (اور وہاں اسے شراب نہیں پلائی جائے گی)“۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف العمري، وقد توبع.
صفیہ بنت ابی عبید کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک بچے کو دیکھا جس کے سر میں کچھ بال کٹے ہوئے تھے اور کچھ یوں ہی چھوٹے ہوئے تھے، انہوں نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بچوں کے بال کٹوانے سے منع فرمایا ہے؟
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن نافع.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو بائیں ہاتھ سے نہ کھائے پیئے کیونکہ بائیں ہاتھ سے شیطان کھاتا پیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، العمري وإن كان ضعيفا، توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا موسى بن عقبة ، حدثني سالم ، عن ابيه , انه كان يسمعه يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين امر اسامة بن زيد، فبلغه ان الناس عابوا اسامة، وطعنوا في إمارته، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس، فقال كما حدثني سالم:" الا إنكم تعيبون اسامة، وتطعنون في إمارته، وقد فعلتم ذلك بابيه من قبل، وإن كان لخليقا للإمارة، وإن كان لاحب الناس كلهم إلي، وإن ابنه هذا من بعده لاحب الناس إلي، فاستوصوا به خيرا، فإنه من خياركم"، قال سالم: ما سمعت عبد الله يحدث هذا الحديث قط , إلا قال: ما حاشا فاطمة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُ كَانَ يَسْمَعُهُ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَمَّرَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَبَلَغَهُ أَنَّ النَّاسَ عَابُوا أُسَامَةَ، وَطَعَنُوا فِي إِمَارَتِهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَقَالَ كَمَا حَدَّثَنِي سَالِمٌ:" أَلَا إِنَّكُمْ تَعِيبُونَ أُسَامَةَ، وَتَطْعَنُونَ فِي إِمَارَتِهِ، وَقَدْ فَعَلْتُمْ ذَلِكَ بِأَبِيهِ مِنْ قَبْلُ، وَإِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمَارَةِ، وَإِنْ كَانَ لَأَحَبَّ النَّاسِ كُلِّهِمْ إِلَيَّ، وَإِنَّ ابْنَهُ هَذَا مِنْ بَعْدِهِ لَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ، فَاسْتَوْصُوا بِهِ خَيْرًا، فَإِنَّهُ مِنْ خِيَارِكُمْ"، قَالَ سَالِمٌ: مَا سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ يُحَدِّثُ هَذَا الْحَدِيثَ قَطُّ , إِلَّا قَالَ: مَا حَاشَا فَاطِمَةَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو کچھ لوگوں کا امیر مقرر کیا، لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس کی امارت پر اعتراض کر رہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے پہلے تم اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کر چکے ہو، حالانکہ اللہ کی قسم! وہ امارت کا حقدار تھا اور لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب تھا اور اب اس کا یہ بیٹا اس کے بعد مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، لہٰذا اس کے ساتھ اچھا سلوک کر نے کی وصیت قبول کرو،کیونکہ یہ تمہارا بہترین ساتھ ہے۔“ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اس حدیث کو بیان کرتے وقت ہمیشہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا استثناء کر لیتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا موسى بن عقبة ، حدثني سالم , عن رؤيا رسول الله صلى الله عليه وسلم في وباء المدينة، عن عبد الله بن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" رايت امراة سوداء ثائرة الراس خرجت من المدينة حتى قامت بمهيعة، فاولت ان وباءها نقل إلى مهيعة"، وهي الجحفة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ , عَنْ رُؤْيَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَبَاءِ الْمَدِينَةِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" رَأَيْتُ امْرَأَةً سَوْدَاءَ ثَائِرَةَ الرَّأْسِ خَرَجَتْ مِنَ الْمَدِينَةِ حَتَّى قَامَتْ بِمَهْيَعَةَ، فَأَوَّلْتُ أَنَّ وَبَاءَهَا نُقِلَ إِلَى مَهْيَعَةَ"، وَهِيَ الْجُحْفَةُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے خواب میں کالی کلوٹی بکھرے بالوں والی ایک عورت کو مدینہ منورہ سے نکلتے ہوئے دیکھا جو مہیعہ یعنی جحفہ میں جا کر کھڑی ہو گئی، میں نے اس کی تعبیریہ لی کہ مدینہ منورہ کی وبائیں اور آفات جحفہ منتقل ہو گئی ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، اخبرني عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" نهى عن بيع الولاء، وعن هبته"، قال: قلت: سمعت من ابن عمر؟ قال: نعم، وساله عنه ابنه حمزة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ، وَعَنْ هِبَتِهِ"، قَالَ: قُلْتُ: سَمِعْتَ مِنَ ابْنِ عُمَرَ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَسَأَلَهُ عَنْهُ ابْنُهُ حَمْزَةُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حق ولاء کو بیچنے یا ہبہ کر نے کی ممانعت فرمائی ہے۔