(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا جرير بن حازم ، سمعت نافعا ، حدثنا ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" من اعتق نصيبا له في عبد، فإن كان له من المال ما يبلغ قيمته، قوم عليه قيمة عدل، وإلا فقد اعتق ما اعتق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، سَمِعْتُ نَافِعًا ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا لَهُ فِي عَبْدٍ، فَإِنْ كَانَ لَهُ مِنَ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ قِيمَتَهُ، قُوِّمَ عَلَيْهِ قِيمَةَ عَدْلٍ، وَإِلَّا فَقَدْ أَعْتَقَ مَا أَعْتَقَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی غلام کو اپنے حصے کے بقدر آزاد کر دیتا ہے تو اسے اس کا بقیہ حصہ آزاد کر نے کا بھی مکلف بنایا جائے گا، اگر اس کے پاس اتنا مال نہ ہو جس سے اسے آزاد کیا جا سکے تو جتنا اس نے آزاد کیا ہے اتنا ہی رہے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا موسى بن عقبة ، حدثني سالم , ان عبد الله :" كان يصلي في الليل، ويوتر راكبا على بعيره، لا يبالي حيث وجهه"، قال: وقد رايت انا سالما يصنع ذلك، وقد اخبرني نافع، عن عبد الله انه كان ياثر ذلك , عن النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ , أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ :" كَانَ يُصَلِّي فِي اللَّيْلِ، وَيُوتِرُ رَاكِبًا عَلَى بَعِيرِهِ، لَا يُبَالِي حَيْثُ وَجَّهَهُ"، قَالَ: وَقَدْ رَأَيْتُ أَنَا سَالِمًا يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَقَدْ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ كَانَ يَأْثُرُ ذَلِكَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رات کی نماز اور وتر اپنی سواری پر پڑھ لیتے تھے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہ فرماتے تھے کہ اس کا رخ کس سمت میں ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے سالم کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے اور مجھے نافع نے بتایا ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا صخر بن جويرية ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يوم يقوم الناس لرب العالمين سورة المطففين آية 6، قال:" يغيب احدهم في رشحه إلى انصاف اذنيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ سورة المطففين آية 6، قَالَ:" يَغِيبُ أَحَدُهُمْ فِي رَشْحِهِ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت ”جب لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے“ کی تفسیر میں فرمایا کہ اس وقت لوگ اپنے پسینے میں نصف کان تک ڈوبے ہوئے کھڑے ہوں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا صخر يعني ابن جويرية ، حدثنا نافع ، ان عبد الله بن عمر اخبره , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إذا قال الرجل لصاحبه يا كافر، فإنها تجب على احدهما، فإن كان الذي قيل له كافر، فهو كافر، وإلا رجع إليه ما قال".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا صَخْرٌ يَعْنِي ابْنَ جُوَيْرِيَةَ ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِصَاحِبِهِ يَا كَافِرُ، فَإِنَّهَا تَجِبُ عَلَى أَحَدِهِمَا، فَإِنْ كَانَ الَّذِي قِيلَ لَهُ كَافِرٌ، فَهُوَ كَافِرٌ، وَإِلَّا رَجَعَ إِلَيْهِ مَا قَالَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی شخص جب اپنے بھائی کو اے کافر کہتا ہے تو دونوں میں سے کسی ایک پر تو یہ چیز لازم ہو ہی جاتی ہے، جسے کافر کہا گیا ہے یا تو وہ کافر ہوتا ہے ورنہ کہنے والے پر اس کی بات پلٹ جاتی ہے۔“
(حديث قدسي) حدثنا عبد الوهاب بن عطاء ، اخبرنا سعيد ، عن قتادة ، عن صفوان بن محرز ، قال: بينما ابن عمر يطوف بالبيت، إذ عرضه رجل، فقال: يا ابا عبد الرحمن ، كيف سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في النجوى؟ قال:" يدنو المؤمن من ربه يوم القيامة كانه بذج، فيضع عليه كنفه اي يستره، ثم يقول: اتعرف؟ فيقول: رب اعرف، ثم يقول: اتعرف؟ فيقول: رب اعرف، يعني فيقول: انا سترتها عليك في الدنيا، وانا اغفرها لك اليوم، ويعطى صحيفة حسناته، واما الكفار والمنافقون، فينادى بهم على رءوس الاشهاد: هؤلاء الذين كذبوا على ربهم الا لعنة الله على الظالمين سورة هود آية 18 , قال سعيد: وقال قتادة: فلم يخز يومئذ احد , فخفي خزيه على احد من الخلائق.(حديث قدسي) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، قَالَ: بَيْنَمَا ابْنُ عُمَرَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، إِذْ عَرَضَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، كَيْفَ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي النَّجْوَى؟ قَالَ:" يَدْنُو الْمُؤْمِنُ مِنْ رَبِّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ بَذَجٌ، فَيَضَعُ عَلَيْهِ كَنَفَهُ أَيْ يَسْتُرُهُ، ثُمَّ يَقُولُ: أَتَعْرِفُ؟ فَيَقُولُ: رَبِّ أَعْرِفُ، ثُمَّ يَقُولُ: أَتَعْرِفُ؟ فَيَقُولُ: رَبِّ أَعْرِفُ، يَعْنِي فَيَقُولُ: أَنَا سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، وَيُعْطَى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الْكُفَّارُ وَالْمُنَافِقُونَ، فَيُنَادَى بِهِمْ عَلَى رُءُوسِ الْأَشْهَادِ: هَؤُلاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ سورة هود آية 18 , قَالَ سَعِيدٌ: وَقَالَ قَتَادَةُ: فَلَمْ يَخْزَ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ , فَخَفِيَ خِزْيُهُ عَلَى أَحَدٍ مِنَ الْخَلَائِقِ.
صفوان بن محرز رحمہ الله کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ ایک آدمی آ کر کہنے لگا: اے ابوعبدالرحمن! قیامت کے دن جو سرگوشی ہو گی، اس کے متعلق آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک بندہ مومن کو اپنے قریب کریں گے اور اس اپنی چادر ڈال کر اسے لوگوں کی نگاہوں سے مستور کر لیں گے اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروائیں گے اور اس سے فرمائیں گے، کیا تھے فلاں فلاں گناہ یاد ہے؟ جب وہ اپنے سارے گناہوں کا اقرار کر چکے گا (اور اپنے دل میں یہ سوچ لے گا کہ اب تو وہ ہلاک ہو گیا)، تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے میں نے دنیا میں تیری پردہ پوشی کی تھی اور آج تیری بخشش کرتا ہوں، پھر اسے اس کا نامہ اعمال دے دیا جائے گا، باقی رہے کفار اور منافقین تو گواہ کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی تکذیب کیا کرتے تھے، آگاہ رہو ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
عبدالرحمن بن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا ہے کہ وہ سواری پر نفل نماز پڑھ لیا کرتے تھے خواہ اس کا رخ کسی بھی سمت ہو، انہوں نے ایک مرتبہ ان سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ فرمانے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن عمر ، حدثنا سفيان ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، قال: بينما الناس يصلون في مسجد قباء، إذ جاء رجل، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد انزل عليه قرآن، وقد امر ان يتوجه إلى الكعبة"، قال: فاستداروا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: بَيْنَمَا النَّاسُ يُصَلُّونَ فِي مَسْجِدِ قُبَاءَ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ قُرْآنٌ، وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَتَوَجَّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ"، قَالَ: فَاسْتَدَارُوا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے، اسی دوران ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ آج کی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کر نے کا حکم دیا گیا ہے، یہ سنتے ہی ان لوگوں نے نماز کے دوران ہی گھوم کر خانہ کعبہ کی طرف اپنا رخ کر لیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کر کے آئے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى بن عبيد , حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن ابي الشعثاء ، قال: قيل لابن عمر : إنا ندخل على امرائنا، فنقول القول، فإذا خرجنا قلنا غيره؟! فقال: كنا نعد هذا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم النفاق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ ، قَالَ: قِيلَ لِابْنِ عُمَرَ : إِنَّا نَدْخُلُ عَلَى أُمَرَائِنَا، فَنَقُولُ الْقَوْلَ، فَإِذَا خَرَجْنَا قُلْنَا غَيْرَهُ؟! فَقَالَ: كُنَّا نَعُدُّ هَذَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النِّفَاقَ.
ابوالشعثاء رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پوچھا کہ ہم لوگ اپنے حکمرانوں کے پاس جاتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں اور جب باہر نکلتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں اس چیز کو ہم نفاق سمجھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عتاب بن زياد ، حدثنا عبد الله يعني ابن مبارك ، اخبرنا موسى بن عقبة ، عن سالم ، ونافع , عن عبد الله , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: كان إذا قفل من الغزو او الحج او العمرة، يبدا فيكبر ثلاث مرار، ثم يقول:" لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، آيبون تائبون عابدون ساجدون، لربنا حامدون، صدق الله وعده، ونصر عبده، وهزم الاحزاب وحده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُبَارَكٍ ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمٍ ، وَنَافِعٌ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا قَفَلَ مِنَ الْغَزْوِ أَوْ الْحَجِّ أَوْ الْعُمْرَةِ، يَبْدَأُ فَيُكَبِّرُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ يَقُولُ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب حج، جہاد یا عمرہ سے واپس آتے تو پہلے تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے، پھر یہ دعا پڑھتے ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی حکومت ہے اور اسی کی تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، توبہ کرتے ہوئے لوٹ رہے ہیں، سجدہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے اور اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے واپس آرہے ہیں، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی اور تمام لشکروں کو اکیلے ہی شکت دے دی۔“