(حديث مرفوع) حدثنا الحجاج ، انبانا شريك ، عن الركين بن الربيع ، عن القاسم بن حسان ، عن عبد الله بن مسعود ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الخيل ثلاثة: ففرس للرحمن، وفرس للإنسان، وفرس للشيطان، فاما فرس الرحمن: فالذي يربط في سبيل الله، فعلفه وروثه وبوله، وذكر ما شاء الله، واما فرس الشيطان: فالذي يقامر او يراهن عليه، واما فرس الإنسان: فالفرس يرتبطها الإنسان يلتمس بطنها، فهي تستر من فقر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الرُّكَيْنِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: فَفَرَسٌ لِلرَّحْمَنِ، وَفَرَسٌ لِلْإِنْسَانِ، وَفَرَسٌ لِلشَّيْطَانِ، فَأَمَّا فَرَسُ الرَّحْمَنِ: فَالَّذِي يُرْبَطُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَعَلَفُهُ وَرَوْثُهُ وَبَوْلُهُ، وَذَكَرَ مَا شَاءَ اللَّهُ، وَأَمَّا فَرَسُ الشَّيْطَانِ: فَالَّذِي يُقَامَرُ أَوْ يُرَاهَنُ عَلَيْهِ، وَأَمَّا فَرَسُ الْإِنْسَانِ: فَالْفَرَسُ يَرْتَبِطُهَا الْإِنْسَانُ يَلْتَمِسُ بَطْنَهَا، فَهِيَ تَسْتُرُ مِنْ فَقْرٍ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں، بعض گھوڑے تو رحمان کے ہوتے ہیں، بعض انسان کے اور بعض شیطان کے، رحمان کا گھوڑا تو وہ ہوتا ہے جسے اللہ کے راستہ میں باندھا جائے، اس کا چارہ، اس کی لید اور اس کا پیشاب اور دوسری چیزیں (سب اللہ کے لئے ہوتی ہیں اور ان پر انسان کو ثواب ملتا ہے)، شیطان کا گھوڑا وہ ہوتا ہے جس پر جوا لگایا جائے یا اسے گروی کے طور پر رکھا جائے، اور انسان کا گھوڑا وہ ہوتا ہے جسے انسان اپنا پیٹ بھرنے کے لئے روزی کی تلاش میں باندھتا ہے اور وہ اسے فقر و فاقہ سے بچاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناده ضعيف ، شريك سيئ الحفظ ، والقاسم لم يدرك عبدالله.
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا سفيان ، حدثنا منصور ، عن ربعي ، عن البراء بن ناجية الكاهلي ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن رحى الإسلام ستزول بخمس وثلاثين، او ست وثلاثين، او سبع وثلاثين، فإن يهلك، فكسبيل من اهلك، وإن يقم لهم دينهم، يقم لهم سبعين عاما"، قال: قال عمر: يا رسول الله، ابما مضى ام بما بقي؟ قال:" بل بما بقي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ نَاجِيَةَ الْكَاهِلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ رَحَى الْإِسْلَامِ سَتَزُولُ بِخَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، أَوْ سِتٍّ وَثَلَاثِينَ، أَوْ سَبْعٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِنْ يَهْلَكْ، فَكَسَبِيلِ مَنْ أُهْلِكَ، وَإِنْ يَقُمْ لَهُمْ دِينُهُمْ، يَقُمْ لَهُمْ سَبْعِينَ عَامًا"، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبِمَا مَضَى أَمْ بِمَا بَقِيَ؟ قَالَ:" بَلْ بِمَا بَقِيَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اسلام کی چکی پئنتیس (35)، چھتیس (36) یا سئنتیس (37) سال تک گھومتی رہے گی، اس کے بعد اگر مسلمان ہلاک ہوئے تو ہلاک ہونے والوں کی راہ پر چلے جائیں گے، اور اگر باقی بچ گئے تو ستر سال تک ان کا دین باقی رہے گا“، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس کا تعلق ماضی کے ایام سے ہے یا مستقبل سے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مستقبل سے۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، البراء بن ناجية قد عرفه العجلي وابن حبان.
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، قال: سمعت إسرائيل بن يونس ، عن الوليد بن هشام مولى الهمداني، عن زيد بن زائدة ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحابه:" لا يبلغني احد عن احد من اصحابي شيئا، فإني احب ان اخرج إليكم وانا سليم الصدر"، قال: واتى رسول الله صلى الله عليه وسلم مال، فقسمه، قال: فمررت برجلين، واحدهما يقول لصاحبه: والله ما اراد محمد بقسمته وجه الله، ولا الدار الآخرة، فتثبت، حتى سمعت ما قالا، ثم اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إنك قلت لنا:" لا يبلغني احد عن احد من اصحابي شيئا"، وإني مررت بفلان وفلان، وهما يقولان كذا وكذا، قال: فاحمر وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وشق عليه، ثم قال:" دعنا منك، فقد اوذي موسى اكثر من ذلك، ثم صبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ إِسْرَائِيلَ بْنَ يُونُسَ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ هِشَامٍ مَوْلَى الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ:" لَا يُبَلِّغْنِي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِي شَيْئًا، فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَخْرُجَ إِلَيْكُمْ وَأَنَا سَلِيمُ الصَّدْرِ"، قَالَ: وَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَالٌ، فَقَسَمَهُ، قَالَ: فَمَرَرْتُ بِرَجُلَيْنِ، وَأَحَدُهُمَا يَقُولُ لِصَاحِبِهِ: وَاللَّهِ مَا أَرَادَ مُحَمَّدٌ بِقِسْمَتِهِ وَجْهَ اللَّهِ، وَلَا الدَّارَ الْآخِرَةَ، فَتَثَبَّتُّ، حَتَّى سَمِعْتُ مَا قَالَا، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ قُلْتَ لَنَا:" لَا يُبَلِّغْنِي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِي شَيْئًا"، وَإِنِّي مَرَرْتُ بِفُلَانٍ وَفُلَانٍ، وَهُمَا يَقُولَانِ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَاحْمَرَّ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَشَقَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" دَعْنَا مِنْكَ، فَقَدْ أُوذِيَ مُوسَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ صَبَرَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ”کوئی شخص مجھے میرے کسی صحابی کے متعلق آ کر خبریں نہ دیا کرے کیونکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ جب تمہارے پاس آؤں تو میرا دل ہر ایک کی طرف سے مکمل طور پر صاف ہو“، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے مال آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تقسیم فرما دیا، میں دو آدمیوں کے پاس سے گزرا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے یہ کہا کہ واللہ! یہ تقسیم ایسی ہے جس سے اللہ کی رضا یا آخرت کا گھر حاصل کرنا مقصود نہیں ہے، میں نے خوب غور سے ان کی بات سنی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے یہ فرما رکھا ہے کہ ”کوئی شخص مجھے میرے کسی صحابی کے متعلق آ کر خبریں نہ دیا کرے“، ابھی فلاں فلاں آدمی کے پاس سے میرا گزر ہوا تھا، وہ دونوں یہ کہہ رہے تھے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو گیا، پھر فرمایا: ”موسیٰ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، انہیں اس سے بھی زیادہ ستایا گیا تھا لیکن انہوں نے صبر ہی کیا تھا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة ولبعضه شواهد، الوليد مستور وزيد لا يصح حديثه.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، وحسن بن موسى ، قالا: حدثنا شيبان ، عن عاصم ، عن زر ، عن ابن مسعود ، قال: اخر رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة العشاء، ثم خرج إلى المسجد، فإذا الناس ينتظرون الصلاة، قال:" اما إنه ليس من اهل هذه الاديان احد يذكر الله هذه الساعة غيركم"، قال: وانزل هؤلاء الآيات: ليسوا سواء من اهل الكتاب حتى بلغ وما يفعلوا من خير فلن يكفروه والله عليم بالمتقين سورة آل عمران آية 113 - 115.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، وَحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: أَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعِشَاءِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ، قَالَ:" أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ هَذِهِ الْأَدْيَانِ أَحَدٌ يَذْكُرُ اللَّهَ هَذِهِ السَّاعَةَ غَيْرُكُمْ"، قَالَ: وَأَنْزَلَ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ: لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ حَتَّى بَلَغَ وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ سورة آل عمران آية 113 - 115.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشا میں کافی تاخیر کر دی، پھر جب باہر مسجد کی طرف نکلے تو لوگوں کو نماز کا منتظر پایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت روئے زمین پر کسی دین سے تعلق رکھنے والے اللہ کو یاد نہیں کر رہے سوائے تمہارے“، اور اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں: «﴿لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ . . . . . وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوهُ وَاللّٰهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ﴾ [آل عمران: 113-115] »”سب اہل کتاب برابر نہیں . . . . . اور تم جو نیکی کرو گے اس کا انکار نہیں کیا جائے گا اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا المسعودي ، حدثنا عاصم بن ابي النجود ، عن ابي وائل ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: جاء ابن النواحة، وابن اثال رسولا مسيلمة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لهما:" اتشهدان اني رسول الله؟" قالا: نشهد ان مسيلمة رسول الله!! فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" آمنت بالله ورسله، لو كنت قاتلا رسولا لقتلتكما"، قال عبد الله: قال: فمضت السنة ان الرسل لا تقتل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: جَاءَ ابْنُ النَّوَّاحَةِ، وَابْنُ أُثَالٍ رَسُولَا مُسَيْلِمَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمَا:" أَتَشْهَدَانِ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟" قَالَا: نَشْهَدُ أَنَّ مُسَيْلِمَةَ رَسُولُ اللَّهِ!! فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ، لَوْ كُنْتُ قَاتِلًا رَسُولًا لَقَتَلْتُكُمَا"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ: فَمَضَتْ السُّنَّةُ أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابن نواحہ اور ابن اثال، مسیلمہ کذاب کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قاصد بن کر آئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا تھا: ”کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟“ انہوں نے کہا کہ ہم تو مسیلمہ کو اللہ کا پیغمبر ہونے کی گواہی دیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں قاصدوں کو قتل کرتا ہوتا تو میں تم دونوں کی گردن اڑا دیتا“، اس وقت سے یہ رواج ہو گیا کہ قاصد کو قتل نہیں کیا جاتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، أبو النضر سمع من المسعودي بعد ما اختلط ، والمسعودي كان يغلط.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا المسعودي ، عن الحسن بن سعد ، عن عبد الرحمن بن عبد الله ، عن عبد الله ، انه قال: نزل النبي صلى الله عليه وسلم منزلا، فانطلق لحاجته، فجاء وقد اوقد رجل على قرية نمل، إما في الارض، وإما في شجرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايكم فعل هذا؟" فقال رجل من القوم: انا يا رسول الله، قال:" اطفها، اطفها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ قَالَ: نَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلًا، فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ، فَجَاءَ وَقَدْ أَوْقَدَ رَجُلٌ عَلَى قَرْيَةِ نَمْلٍ، إِمَّا فِي الْأَرْضِ، وَإِمَّا فِي شَجَرَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّكُمْ فَعَلَ هَذَا؟" فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" اطْفُهَا، اطْفُهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جگہ پر پڑاؤ کیا اور قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے، واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ زمین پر یا کسی درخت پر ایک شخص نے چیونٹیوں کے ایک بل کو آگ لگا رکھی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کس نے کیا ہے؟“ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے کیا ہے، فرمایا: ”اس آگ کو بجھاؤ، اس آگ کو بجھاؤ۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو النضر سمع من المسعودي بعد الاختلاط .
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا المسعودي ، عن سعيد بن عمرو بن جعدة ، عن ابي عبيدة ، عن عبد الله ، ان رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم يساله عن ليلة القدر؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايكم يذكر ليلة الصهباوات؟" فقال عبد الله: انا والله اذكرها، يا رسول الله، بابي انت وامي، وإن في يدي لتمرات اتسحر بهن، مستترا بمؤخرة رحلي من الفجر، وذلك حين طلع القمر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَعْدَةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّكُمْ يَذْكُرُ لَيْلَةَ الصَّهْبَاوَاتِ؟" فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَنَا وَاللَّهِ أَذْكُرُهَا، يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، وَإِنَّ فِي يَدَيَّ لَتَمَرَاتٍ أَتَسَحَّرُ بِهِنَّ، مُسْتَتِرًا بِمُؤْخِرَةِ رَحْلِي مِنَ الْفَجْرِ، وَذَلِكَ حِينَ طَلَعَ الْقَمَرُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے آ کر بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ شب قدر کب ہو گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے وہ رات کسے یاد ہے جو سرخ و سفید ہو رہی تھی؟“ میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے یاد ہے، میرے ہاتھ میں اس وقت کچھ کھجوریں تھیں اور میں چھپ کر اپنے کجاوے کے پچھلے حصے میں ان سے سحری کر رہا تھا، اور اس وقت چاند نکلا ہوا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه عبدالله.
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ، قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت الانصار: منا امير، ومنكم امير، قال: فاتاهم عمر، فقال: يا معشر الانصار، الستم تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم،" امر ابا بكر ان يؤم بالناس؟" فايكم تطيب نفسه ان يتقدم ابا بكر؟ فقالوا: نعوذ بالله ان نتقدم ابا بكر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ، وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، قَالَ: فَأَتَاهُمْ عُمَرُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يَؤُمَّ بِالنَّاسِ؟" فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ؟ فَقَالُوا: نَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہو گیا تو انصار کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور فرمایا: گروہ انصار! کیا آپ کے علم میں یہ بات نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی امامت کا حکم خود دیا تھا؟ آپ میں سے کون شخص اپنے دل کی بشاشت کے ساتھ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھ سکتا ہے؟ اس پر انصار کہنے لگے: اللہ کی پناہ! کہ ہم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھیں۔