مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ
0
28. مسنَد عبد الله بن مسعود رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
0
حدیث نمبر: 3759
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ إِسْرَائِيلَ بْنَ يُونُسَ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ هِشَامٍ مَوْلَى الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ:" لَا يُبَلِّغْنِي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِي شَيْئًا، فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَخْرُجَ إِلَيْكُمْ وَأَنَا سَلِيمُ الصَّدْرِ"، قَالَ: وَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَالٌ، فَقَسَمَهُ، قَالَ: فَمَرَرْتُ بِرَجُلَيْنِ، وَأَحَدُهُمَا يَقُولُ لِصَاحِبِهِ: وَاللَّهِ مَا أَرَادَ مُحَمَّدٌ بِقِسْمَتِهِ وَجْهَ اللَّهِ، وَلَا الدَّارَ الْآخِرَةَ، فَتَثَبَّتُّ، حَتَّى سَمِعْتُ مَا قَالَا، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ قُلْتَ لَنَا:" لَا يُبَلِّغْنِي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِي شَيْئًا"، وَإِنِّي مَرَرْتُ بِفُلَانٍ وَفُلَانٍ، وَهُمَا يَقُولَانِ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَاحْمَرَّ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَشَقَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" دَعْنَا مِنْكَ، فَقَدْ أُوذِيَ مُوسَى أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ صَبَرَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ”کوئی شخص مجھے میرے کسی صحابی کے متعلق آ کر خبریں نہ دیا کرے کیونکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ جب تمہارے پاس آؤں تو میرا دل ہر ایک کی طرف سے مکمل طور پر صاف ہو“، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے مال آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تقسیم فرما دیا، میں دو آدمیوں کے پاس سے گزرا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے یہ کہا کہ واللہ! یہ تقسیم ایسی ہے جس سے اللہ کی رضا یا آخرت کا گھر حاصل کرنا مقصود نہیں ہے، میں نے خوب غور سے ان کی بات سنی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے یہ فرما رکھا ہے کہ ”کوئی شخص مجھے میرے کسی صحابی کے متعلق آ کر خبریں نہ دیا کرے“، ابھی فلاں فلاں آدمی کے پاس سے میرا گزر ہوا تھا، وہ دونوں یہ کہہ رہے تھے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو گیا، پھر فرمایا: ”موسیٰ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، انہیں اس سے بھی زیادہ ستایا گیا تھا لیکن انہوں نے صبر ہی کیا تھا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة ولبعضه شواهد، الوليد مستور وزيد لا يصح حديثه.