سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے پورا مہینہ یہ اندازہ لگایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے کی دو رکعتوں (سنتوں) میں سورہ کافروں اور سورہ اخلاص پڑھتے رہے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو احمد الزبيري ، حدثنا ابو إسرائيل ، عن فضيل ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: اخر رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة العشاء حتى نام الناس، وتهجد المتهجدون، واستيقظ المستيقظ، فخرج فاقيمت الصلاة، وقال:" لولا ان اشق على امتي، لاخرتها إلى هذا الوقت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا أبو إِسْرَائِيلُ ، عَنْ فُضَيلٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: أَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعِشَاءِ حَتَّى نَامَ النَّاسُ، وَتَهَجَّدَ الْمُتَهَجِّدُونَ، وَاسْتَيْقَظَ الْمُسْتَيْقِظُ، فَخَرَجَ فَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، وَقَالَ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي، لَأَخَّرْتُهَا إِلَى هَذَا الْوَقْتِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں اتنی تاخیر کر دی کہ سونے والے سو گئے اور تہجد پڑھنے والوں نے تہجد پڑھ لی اور جاگنے والے جاگتے رہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت پر تکلیف کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں عشاء کی نماز اسی وقت تک مؤخر کر دیتا۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک ریشمی جو ڑا دیا اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو کتان کا جوڑا عطاء فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اس کا جو حصہ زمین پر لگے کا وہ جہنم میں ہو گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد ، حدثنا عبيد الله بن إياد بن لقيط ، حدثنا إياد ، عن عبد الرحمن بن نعم او نعيم الاعرجي شك ابو الوليد، قال: سال رجل ابن عمر عن المتعة وانا عنده متعة النساء، فقال: والله ما كنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم زانين ولا مسافحين!! ثم قال: والله لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ليكونن قبل يوم القيامة: المسيح الدجال، وكذابون ثلاثون او اكثر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ ، حَدَّثَنَا إِيَادٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نُعْمٍ أَوْ نُعَيْمٍ الْأَعْرَجِيِّ شَكَّ أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْمُتْعَةِ وَأَنَا عِنْدَهُ مُتْعَةِ النِّسَاءِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا كُنَّا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَانِينَ وَلَا مُسَافِحِينَ!! ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَيَكُونَنَّ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ: الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ، وَكَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ أَوْ أَكْثَرُ".
عبدالرحمن اعرجی سے منقول ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے میری موجودگی میں عورتوں سے متعہ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں کوئی بدکاری یا شہوت رانی نہیں کیا کرتے تھے، پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے قیامت سے پہلے مسیح دجال اور تیس یا زیادہ کذاب ضرور آئیں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عبد الرحمن بن نعيم الأعرجي مجهول.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عامر ، حدثنا خارجة بن عبد الله الانصاري ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" اللهم اعز الإسلام باحب هذين الرجلين إليك، بابي جهل او بعمر بن الخطاب"، فكان احبهما إلى الله عمر بن الخطاب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ، بِأَبِي جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ"، فَكَانَ أَحَبُّهُمَا إِلَى اللَّهِ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء اسلام میں یہ دعاء فرمائی تھی کہ اے اللہ! اسلام کو ان دو آدمیوں ابوجہل یا عمربن خطاب میں سے اس شخص کے ذریعے غلبہ عطاء فرما جو تیری نگاہوں میں زیادہ محبوب ہو (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا) معلوم ہوا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اللہ کی نگاہوں میں زیادہ محبوب تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عامر ، حدثنا خارجة بن عبد الله الانصاري ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إن الله عز وجل جعل الحق على قلب عمر ولسانه"، قال: وقال ابن عمر: ما نزل بالناس امر قط فقالوا فيه، وقال فيه عمر بن الخطاب، او قال عمر، إلا نزل القرآن على نحو مما قال عمر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى قَلْبِ عُمَرَ وَلِسَانِهِ"، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ فَقَالُوا فِيهِ، وَقَالَ فِيهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، أَوْ قَالَ عُمَرُ، إِلَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَى نَحْوٍ مِمَّا قَالَ عُمَرُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ نے عمر کے قلب و زبان پر حق کو جاری فرما دیا ہے“، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا اور لوگوں کی رائے کچھ ہوتی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کچھ، تو قرآن کریم اسی کے قریب قریب نازل ہوتا جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے ہوتی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد قابل للتحسين.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا همام ، حدثنا مطر ، عن سالم ، عن ابيه ، قال: سافرت مع النبي صلى الله عليه وسلم ومع عمر، فكانا" لا يزيدان على ركعتين، وكنا ضلالا فهدانا الله به، فبه نقتدي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا مَطَرٌ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَافَرْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَ عُمَرَ، فَكَانَا" لَا يَزِيدَانِ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، وَكُنَّا ضُلَّالًا فَهَدَانَا اللَّهُ بِهِ، فَبِهِ نَقْتَدِي".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر کیا ہے، یہ دونوں سفر میں دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے، ہم پہلے گمراہ تھے پھر اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں ہدایت عطاء فرمائی، اب ہم ان ہی کی اقتداء کریں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجين بن المثنى ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: رمقت النبي صلى الله عليه وسلم اربعا وعشرين مرة، او خمسا وعشرين مرة،" يقرا في الركعتين قبل الفجر وبعد المغرب قل يا ايها الكافرون، وقل هو الله احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: رَمَقْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ مَرَّةً، أَوْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ مَرَّةً،" يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے چوبیس یا پچیس دن تک یہ اندازہ لگایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے کی اور مغرب کے بعد کی دو رکعتوں (سنتوں) میں سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھتے رہے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا صالح بن ابي الاخضر ، حدثنا ابن شهاب ، عن سالم ، قال: كان عبد الله بن عمر يفتي بالذي انزل الله عز وجل من الرخصة بالتمتع، وسن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه، فيقول ناس لابن عمر: كيف تخالف اباك وقد نهى عن ذلك؟! فيقول لهم عبد الله: ويلكم! الا تتقون الله؟! إن كان عمر نهى عن ذلك، فيبتغي فيه الخير يلتمس به تمام العمرة، فلم تحرمون ذلك وقد احله الله، وعمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم؟! افرسول الله صلى الله عليه وسلم احق ان تتبعوا سنته ام سنة عمر؟! إن عمر لم يقل لكم إن العمرة في اشهر الحج حرام، ولكنه قال: إن" اتم العمرة ان تفردوها من اشهر الحج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُفْتِي بِالَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الرُّخْصَةِ بِالتَّمَتُّعِ، وَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ، فَيَقُولُ نَاسٌ لِابْنِ عُمَرَ: كَيْفَ تُخَالِفُ أَبَاكَ وَقَدْ نَهَى عَنْ ذَلِكَ؟! فَيَقُولُ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ: وَيْلَكُمْ! أَلَا تَتَّقُونَ اللَّهَ؟! إِنْ كَانَ عُمَرُ نَهَى عَنْ ذَلِكَ، فَيَبْتَغِي فِيهِ الْخَيْرَ يَلْتَمِسُ بِهِ تَمَامَ الْعُمْرَةِ، فَلِمَ تُحَرِّمُونَ ذَلِكَ وَقَدْ أَحَلَّهُ اللَّهُ، وَعَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! أَفَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ أَنْ تَتَّبِعُوا سُنَّتَهُ أَمْ سُنَّةَ عُمَرَ؟! إِنَّ عُمَرَ لَمْ يَقُلْ لَكُمْ إِنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ حَرَامٌ، وَلَكِنَّهُ قَالَ: إِنَّ" أَتَمَّ الْعُمْرَةِ أَنْ تُفْرِدُوهَا مِنْ أَشْهُرِ الْحَجِّ".
سالم کہتے ہیں کہ حج تمتع کے سلسلے میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما وہی رخصت دیتے تھے، جو اللہ نے قرآن میں نازل کی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے، کچھ لوگ ان سے کہتے کہ آپ کے والد صاحب تو اس سے منع کرتے تھے، آپ ان کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ وہ انہیں جواب دیتے کہ تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟ اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے روکا تھا، تو ان کے پیش نظر بھی خیر تھی کہ لوگ اتمام عمرہ کریں، جب اللہ نے اسے حلال قرار دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیا ہے تو تم اسے خود پر حرام کیوں کرتے ہو؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنا زیادہ بہتر ہے یا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ اشہر حج میں عمرہ کرنا ہی حرام ہے، انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ عمرہ کا اتمام یہ ہے کہ تم اشہر حج کے علاوہ کسی اور مہینے میں الگ سے اس کے لئے سفر کر کے آؤ۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة لضعف صالح بن أبى الأخضر.