(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا إسحاق بن سعيد ، عن ابيه ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:" لن يزال المرء في فسحة من دينه ما لم يصب دما حراما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" لَنْ يَزَالَ الْمَرْءُ فِي فُسْحَةٍ مِنْ دِينِهِ مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”انسان اس وقت دین کے اعتبار سے کشادگی میں رہتا ہے جب تک ناحق قتل کا ارتکاب نہ کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا إسحاق بن سعيد ، عن ابيه ، قال: دخل ابن عمر على يحيى بن سعيد، وغلام من بنيه رابط دجاجة يرميها، فمشى إلى الدجاجة فحلها، ثم اقبل بها وبالغلام، وقال ليحيى: ازجروا غلامكم هذا من ان يصبر هذا الطير على القتل، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم" ينهى ان تصبر بهمة او غيرها لقتل، وإن اردتم ذبحها فاذبحوها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: دَخَلَ ابْنُ عُمَرَ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَغُلَامٌ مِنْ بَنِيهِ رَابِطٌ دَجَاجَةً يَرْمِيهَا، فَمَشَى إِلَى الدَّجَاجَةِ فَحَلَّهَا، ثُمَّ أَقْبَلَ بِهَا وَبِالْغُلَامِ، وَقَالَ لِيَحْيَى: ازْجُرُوا غُلَامَكُمْ هَذَا مِنْ أَنْ يَصْبِرَ هَذَا الطَّيْرَ عَلَى الْقَتْلِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَنْهَى أَنْ تُصْبَرَ بَهْمَةٌ أَوْ غَيْرُهَا لِقَتْلٍ، وَإِنْ أَرَدْتُمْ ذَبْحَهَا فَاذْبَحُوهَا".
ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یحییٰ بن سعید کے یہاں تشریف لے گئے، اس وقت یحییٰ کا کوئی لڑکا ایک مرغی کو باندھ کر اس پر نشانہ بازی کر رہا تھا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مرغی کے پاس پہنچ کر اسے کھول دیا اور مرغی کے ساتھ اس لڑکے کو بھی لے آئے اور یحییٰ سے کہا کہ اپنے اس لڑکے کو کسی بھی پرندے کو اس طرح باندھ کر نشانہ بازی کرنے سے روکو کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی چوپائے یا جانور کو باندھ کر نشانہ بازی کرنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے، اگر تم اسے ذبح کرنا ہی چاہتے ہو تو صحیح طرح ذبح کرو۔
امیہ بن عبداللہ نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ قرآن کریم میں ہمیں نماز خوف اور حضر کی نماز کا تذکرہ تو ملتا ہے، لیکن سفر کی نماز کا تذکرہ نہیں ملتا (اس کے باوجود سفر میں نماز قصر کی جاتی ہے؟) انہوں نے فرمایا کہ بھتیجے! اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس وقت مبعوث فرمایا، ہم کچھ نہیں جانتے تھے، ہم تو وہ ہی کریں گے جیسے ہم نے انہیں کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا علي بن الحكم ، عن عطاء بن ابي رباح ، قال: كان رجل يمدح ابن عمر، قال: فجعل ابن عمر يقول: هكذا، يحثو في وجهه التراب، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إذا رايتم المداحين، فاحثوا في وجوههم التراب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ يَمْدَحُ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: فَجَعَلَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ: هَكَذَا، يَحْثُو فِي وَجْهِهِ التُّرَابَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا رَأَيْتُمْ الْمَدَّاحِينَ، فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمْ التُّرَابَ".
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی تعریف کی تو انہوں نے اس کے منہ میں مٹی ڈالنا شروع کر دی اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جب تم کسی کو اپنی تعریف کرتے ہوئے دیکھو تو اس کے منہ میں مٹی بھر دو۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عامر عبد الملك بن عمرو ، حدثنا زهير ، عن زيد بن اسلم ، سمعت ابن عمر ، قال: قدم رجلان من المشرق خطيبان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقاما فتكلما، ثم قعدا، وقام ثابت بن قيس خطيب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتكلم، ثم قعد، فعجب الناس من كلامهم، فقام النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا ايها الناس،" قولوا بقولكم، فإنما تشقيق الكلام من الشيطان"، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن من البيان سحرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ: قَدِمَ رَجُلَانِ مِنَ الْمَشْرِقِ خَطِيبَانِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَا فَتَكَلَّمَا، ثُمَّ قَعَدَا، وَقَامَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ خَطِيبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَكَلَّمَ، ثُمَّ قَعَدَ، فَعَجِبَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِهِمْ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ،" قُولُوا بِقَوْلِكُمْ، فَإِنَّمَا تَشْقِيقُ الْكَلَامِ مِنَ الشَّيْطَانِ"، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ دور نبوت میں مشرق کی طرف سے دو آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے، انہوں نے کھڑے ہو کر گفتگو کی، پھر وہ دونوں بیٹھ گئے (اور خطیب رسول سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور گفتگو کر کے بیٹھ گئے) لوگوں کو ان کی گفتگو پر بڑا تعجب ہوا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا: ”لوگو! اپنی بات عام الفاظ میں کہہ دیا کرو، کیونکہ کلام کے ٹکڑے کرنا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض بیان جادو کا سا اثر رکھتے ہیں۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز جمعہ پڑھ کر گھر واپس آتے تو دو رکعتیں گھر میں پڑھتے تھے اور بتاتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر ، اخبرنا مالك بن مغول ، عن جنيد ، عن ابن عمر ، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" لجهنم سبعة ابواب، باب منها لمن سل سيفه على امتي"، او قال" امة محمد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ جُنَيْدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لِجَهَنَّمَ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ، بَابٌ مِنْهَا لِمَنْ سَلَّ سَيْفَهُ عَلَى أُمَّتِي"، أَوْ قَالَ" أُمَّةِ مُحَمَّدٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جہنم کے سات دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازہ اس شخص کے لئے ہے جو میری امت پر تلوار سونتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشام بن سعيد ، حدثنا خالد يعني الطحان ، حدثنا بيان ، عن وبرة ، عن ابن جبير يعني سعيدا ، خرج إلينا ابن عمر ونحن نرجو ان يحدثنا بحديث يعجبنا، فبدرنا إليه رجل، فقال: يا ابا عبد الرحمن، ما تقول في القتال في الفتنة، فإن الله عز وجل قال: وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة سورة البقرة آية 193، قال: ويحك! اتدري ما الفتنة؟! إنما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يقاتل المشركين، وكان الدخول في دينهم فتنة، وليس بقتالكم على الملك!!.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي الطَّحَّانَ ، حَدَّثَنَا بَيَانٌ ، عَنْ وَبَرَةَ ، عَنِ ابْنِ جُبَيْرٍ يَعْنِي سَعِيدًا ، خَرَجَ إِلَيْنَا ابْنُ عُمَرَ وَنَحْنُ نَرْجُو أَنْ يُحَدِّثَنَا بِحَدِيثٍ يُعْجِبُنَا، فَبَدَرَنَا إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا تَقُولُ فِي الْقِتَالِ فِي الْفِتْنَةِ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ سورة البقرة آية 193، قَالَ: وَيْحَكَ! أَتَدْرِي مَا الْفِتْنَةُ؟! إِنَّمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُقَاتِلُ الْمُشْرِكِينَ، وَكَانَ الدُّخُولُ فِي دِينِهِمْ فِتْنَةً، وَلَيْسَ بِقِتَالِكُمْ عَلَى الْمُلْكِ!!.
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس تشریف لائے، ہمیں امید تھی کہ وہ ہم سے عمدہ احادیث بیان کریں گے لیکن ہم سے پہلے ہی ایک آدمی (جس کا نام حکم تھا) بول پڑا اور کہنے لگا، اے ابو عبدالرحمن! فتنہ کے ایام میں قتال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان سے اس وقت تک قتال کرو، جب تک فتنہ باقی رہے، انہوں نے فرمایا: تیری ماں تجھے روئے، کیا تجھے معلوم ہے کہ فتنہ کیا چیز ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے قتال کیا کرتے تھے، اس وقت مشرکین کے دین میں داخل ہونا فتنہ تھا، ایسا نہیں تھا جیسے آج تم حکومت کی خاطر قتال کرتے ہو۔