(حديث مرفوع) حدثنا هشام بن سعيد ، حدثنا خالد يعني الطحان ، حدثنا بيان ، عن وبرة ، عن ابن جبير يعني سعيدا ، خرج إلينا ابن عمر ونحن نرجو ان يحدثنا بحديث يعجبنا، فبدرنا إليه رجل، فقال: يا ابا عبد الرحمن، ما تقول في القتال في الفتنة، فإن الله عز وجل قال: وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة سورة البقرة آية 193، قال: ويحك! اتدري ما الفتنة؟! إنما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يقاتل المشركين، وكان الدخول في دينهم فتنة، وليس بقتالكم على الملك!!.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي الطَّحَّانَ ، حَدَّثَنَا بَيَانٌ ، عَنْ وَبَرَةَ ، عَنِ ابْنِ جُبَيْرٍ يَعْنِي سَعِيدًا ، خَرَجَ إِلَيْنَا ابْنُ عُمَرَ وَنَحْنُ نَرْجُو أَنْ يُحَدِّثَنَا بِحَدِيثٍ يُعْجِبُنَا، فَبَدَرَنَا إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا تَقُولُ فِي الْقِتَالِ فِي الْفِتْنَةِ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ سورة البقرة آية 193، قَالَ: وَيْحَكَ! أَتَدْرِي مَا الْفِتْنَةُ؟! إِنَّمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُقَاتِلُ الْمُشْرِكِينَ، وَكَانَ الدُّخُولُ فِي دِينِهِمْ فِتْنَةً، وَلَيْسَ بِقِتَالِكُمْ عَلَى الْمُلْكِ!!.
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس تشریف لائے، ہمیں امید تھی کہ وہ ہم سے عمدہ احادیث بیان کریں گے لیکن ہم سے پہلے ہی ایک آدمی (جس کا نام حکم تھا) بول پڑا اور کہنے لگا، اے ابو عبدالرحمن! فتنہ کے ایام میں قتال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان سے اس وقت تک قتال کرو، جب تک فتنہ باقی رہے، انہوں نے فرمایا: تیری ماں تجھے روئے، کیا تجھے معلوم ہے کہ فتنہ کیا چیز ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے قتال کیا کرتے تھے، اس وقت مشرکین کے دین میں داخل ہونا فتنہ تھا، ایسا نہیں تھا جیسے آج تم حکومت کی خاطر قتال کرتے ہو۔