(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن ابن ابي ليلى ، عن ابن عمر ، قال: كنا في سرية، ففررنا، فاردنا ان نركب البحر، ثم اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا: يا رسول الله، نحن الفرارون، فقال:" لا، بل انتم، او انتم العكارون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كُنَّا فِي سَرِيَّةٍ، فَفَرَرْنَا، فَأَرَدْنَا أَنْ نَرْكَبَ الْبَحْرَ، ثُمَّ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَحْنُ الْفَرَّارُونَ، فَقَالَ:" لَا، بَلْ أَنْتُمْ، أَوْ أَنْتُمْ الْعَكَّارُونَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی جہاد میں شریک تھے، ہم لوگ دوران جنگ گھبرا کر بھاگنے لگے، پہلے ہمارا ارادہ بنا کہ بحری سفر پر چلے جاتے ہیں پھر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے، اور ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم فرار ہو کر بھاگنے والے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم پلٹ کر حملہ کر نے والے ہو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد وابن أبى ليلى .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منت ماننے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے کوئی بھلائی تو ملتی نہیں البتہ بخیل آدمی سے اسی طرح مال نکلوایا جاتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن سعد بن عبيدة ، قال: كنت عند ابن عمر، فقمت وتركت رجلا عنده من كندة، فاتيت سعيد بن المسيب، قال: فجاء الكندي فزعا، فقال: جاء ابن عمر رجل، فقال: احلف بالكعبة؟ فقال: لا، ولكن احلف برب الكعبة، فإن عمر كان يحلف بابيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تحلف بابيك، فإنه من حلف بغير الله فقد اشرك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَقُمْتُ وَتَرَكْتُ رَجُلًا عِنْدَهُ مِنْ كِنْدَةَ، فَأَتَيْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: فَجَاءَ الْكِنْدِيُّ فَزِعًا، فَقَالَ: جَاءَ ابْنَ عُمَرَ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَحْلِفُ بِالْكَعْبَةِ؟ فَقَالَ: لَا، وَلَكِنْ احْلِفْ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ، فَإِنَّ عُمَرَ كَانَ يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَحْلِفْ بِأَبِيكَ، فَإِنَّهُ مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ".
سعد بن عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تھوڑی دیر بعد میں وہاں سے اٹھا اور جا کر سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے پاس بیٹھ گیا، اتنی دیر میں میرا کندی ساتھی آیا، اس کے چہرے کا رنگ متغیر اور پیلا زرد ہو رہا تھا اس نے آتے ہی کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا اے ابوعبدالرحمن! اگر میں خانہ کعبہ کی قسم کھاؤں تو کیا مجھ پر گناہ ہو گا؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں، لیکن اگر تم خانۂ کعبہ کی قسم ہی کھانا چاہتے ہو تو رب کعبہ کی قسم کھاؤ، کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے باپ کی قسم کھایا کرتے تھے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے باپ کی قسم نہ کھایا کرو کیونکہ غیر اللہ کی قسم کھانے والا شرک کرتا ہے۔“
(حديث مرفوع) قرات على ابي قرة موسى بن طارق ، قال: قال موسى بن عقبة : وقال نافع : كان عبد الله إذا صدر من الحج او العمرة اناخ بالبطحاء التي بذي الحليفة، وان عبد الله حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" يعرس بها حتى يصلي صلاة الصبح".(حديث مرفوع) قَرَأْتُ عَلَى أَبِي قُرَّةَ مُوسَى بْنِ طَارِقٍ ، قَالَ: قَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ : وَقَالَ نَافِعٌ : كَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا صَدَرَ مِنَ الْحَجِّ أَوْ الْعُمْرَةِ أَنَاخَ بِالْبَطْحَاءِ الَّتِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُعَرِّسُ بِهَا حَتَّى يُصَلِّيَ صَلَاةَ الصُّبْحِ".
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ سے واپس آتے تو ذوالحلیفہ میں جو وادی بطحاء ہے، وہاں اپنی اونٹنی کو بٹھاتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی رات یہیں پر گزارا کرتے تھے تا آنکہ فجر کی نماز پڑھ لیتے۔
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال قال موسى ، واخبرني سالم ، ان عبد الله بن عمر اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" اتى في معرسه، فقيل له: إنك في بطحاء مباركة".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ قَالَ مُوسَى ، وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَتَى فِي مُعَرَّسِهِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ فِي بَطْحَاءَ مُبَارَكَةٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑاؤ میں ایک فرشتہ آیا اور کہنے لگا کہ آپ مبارک بطحاء میں ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1535، م: 1346، وهو متصل بالذي قبله .
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وقال: حدثنا قال: وقال: حدثنا نافع ، ان عبد الله بن عمر اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" صلى عند المسجد الصغير الذي دون المسجد الذي يشرف على الروحاء".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَقَالَ: حَدَّثَنَا قَالَ: وَقَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى عِنْدَ الْمَسْجِدِ الصَّغِيرِ الَّذِي دُونَ الْمَسْجِدِ الَّذِي يُشْرِفُ عَلَى الرَّوْحَاءِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چھوٹی مسجد میں نماز پڑھی، جو روحاء کے اوپر بنی ہوئی مسجد کے علاوہ ہے۔
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وقال قال: وقال نافع : إن عبد الله بن عمر حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" ينزل تحت سرحة ضخمة دون الرويثة عن يمين الطريق، في مكان بطح سهل، حين يفضي من الاكمة، دون بريد الرويثة بميلين، وقد انكسر اعلاها، وهي قائمة على ساق".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَقَالَ قَالَ: وَقَالَ نَافِعٌ : إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يَنْزِلُ تَحْتَ سَرْحَةِ ضخمة دون الرُّوَيْثَةِ عَنْ يَمِينِ الطَّرِيقِ، فِي مَكَانٍ بَطْحٍ سَهْلٍ، حِينَ يُفْضِي مِنَ الْأَكَمَةِ، دُونَ بَرِيدِ الرُّوَيْثَةِ بِمِيلَيْنِ، وَقَدْ انْكَسَرَ أَعْلَاهَا، وَهِيَ قَائِمَةٌ عَلَى سَاقٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم راستے کی دائیں جانب ٹیلے کی طرف جاتے ہوئے ایک کشادہ اور نرم زمین میں پہاڑ کی چونچ سے ہٹ کر ایک موٹے سے صحن کے نیچے پڑاؤ کرتے تھے، جو ایک دوسری چونچ سے دومیل کے فاصلے پر ہے، اس کا نچلا حصہ اب جھڑ چکا ہے اور وہ اپنی جڑوں پر قائم ہے۔
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال وقال نافع : إن عبد الله بن عمر حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" صلى من وراء العرج"، وانت ذاهب على راس خمسة اميال من العرج، في مسجد إلى هضبة، عند ذلك المسجد قبران او ثلاثة، على القبور رضم من حجارة، على يمين الطريق، عند سلامات الطريق، بين اولئك السلامات، كان عبد الله يروح من العرج بعد ان تميل الشمس بالهاجرة، فيصلي الظهر في ذلك المسجد.(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ وَقَالَ نَافِعٌ : إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى مِنْ وَرَاءِ الْعَرْجِ"، وَأَنْتَ ذَاهِبٌ عَلَى رَأْسِ خَمْسَةِ أَمْيَالٍ مِنَ الْعَرْجِ، فِي مَسْجِدٍ إِلَى هَضْبَةٍ، عِنْدَ ذَلِكَ الْمَسْجِدِ قَبْرَانِ أَوْ ثَلَاثَةٌ، عَلَى الْقُبُورِ رَضْمٌ مِنْ حِجَارَةٍ، عَلَى يَمِينِ الطَّرِيقِ، عِنْدَ سَلَامَاتِ الطَّرِيقِ، بَيْنَ أُولَئِكَ السَّلَامَاتِ، كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَرُوحُ مِنَ الْعَرْجِ بَعْدَ أَنْ تَمِيلَ الشَّمْسُ بِالْهَاجِرَةِ، فَيُصَلِّي الظُّهْرَ فِي ذَلِكَ الْمَسْجِدِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ”عرج“ سے آگے ایک بڑے پہاڑ کی مسجد میں نماز پڑھی ہے عرج کی طرف جاتے ہوئے یہ مسجد پانچ میل کے فاصلے پر واقع ہے، اور اس مسجد کے قریب دو یا تین قبریں بھی ہیں، اور ان قبروں پر بہت سے پتھر پڑے ہوئے ہیں، یہ جگہ راستے کے دائیں ہاتھ آئی ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما دوپہر کے وقت زوال آفتاب کے بعد ”عرج“ سے روانہ ہوتے تھے اور اس مسجد میں پہنچ کر ظہر کی نماز پڑھتے تھے۔
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال وقال نافع : إن عبد الله بن عمر حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نزل تحت سرحة، وقال غير ابي قرة:" سرحات" عن يسار الطريق، في مسيل دون هرشا، ذلك المسيل لاصق على هرشا، وقال غيره: لاصق بكراع هرشا، بينه وبين الطريق قريب من غلوة سهم".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ وَقَالَ نَافِعٌ : إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَزَلَ تَحْتَ سَرْحَةٍ، وَقَالَ غَيْرُ أَبِي قُرَّةَ:" سَرَحَاتٍ" عَنْ يَسَارِ الطَّرِيقِ، فِي مَسِيلٍ دُونَ هَرْشَا، ذَلِكَ الْمَسِيلُ لَاصِقٌ عَلَى هَرْشَا، وَقَالَ غَيْرُهُ: لَاصِقٌ بِكَرَاعِ هَرْشَا، بَيْنَهُ وَبَيْنَ الطَّرِيقِ قَرِيبٌ مِنْ غَلْوَةِ سَهْمٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ”ہرشی“ کے پیچھے پانی کی ایک نالی کے پاس جو راستے کی بائیں جانب آتی ہے، ایک کشادہ جگہ پر بھی رکے ہیں وہ نالی ”ہرشی“ سے ملی ہوئی ہے، بعض ”کراع ہرشا“ سے متصل بتاتے ہیں، اس کے اور راستے کے درمیان ایک تیر پھینکنے کی مسافت ہے۔
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال وقال نافع : إن عبد الله بن عمر حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" ينزل بذي طوى، يبيت به حتى يصلي صلاة الصبح حين قدم إلى مكة"، ومصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك على اكمة غليظة، ليس في المسجد الذي بني ثم، ولكن اسفل من ذلك، على اكمة خشنة غليظة.(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ وَقَالَ نَافِعٌ : إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يَنْزِلُ بِذِي طُوًى، يَبِيتُ بِهِ حَتَّى يُصَلِّيَ صَلَاةَ الصُّبْحِ حِينَ قَدِمَ إِلَى مَكَّةَ"، وَمُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ عَلَى أَكَمَةٍ غَلِيظَةٍ، لَيْسَ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي بُنِيَ ثَمَّ، وَلَكِنْ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ، عَلَى أَكَمَةٍ خَشِنَةٍ غَلِيظَةٍ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ آتے ہوئے ”ذی طویٰ“ میں بھی پڑاؤ کرتے تھے، رات وہیں گزارتے اور فجر کی نماز بھی وہیں ادا فرماتے، اس مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے نماز ایک موٹے سے ٹیلے پر تھی، اس مسجد میں نہیں جو وہاں اب بنا دی گئی ہے، بلکہ اس سے نیچے ایک کھردرے اور موٹے ٹیلے پر تھی۔