(حديث مرفوع) واخبرنا يعني يزيد ، قال: اخبرنا يحيى ، عن نافع ، عن ابن عمر ، كان يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اعتق نصيبا له في إنسان او مملوك، كلف عتق بقيته، فإن لم يكن له مال يعتقه به، فقد جاز ما عتق".(حديث مرفوع) وَأَخْبَرَنَا يَعْنِي يَزِيدَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، كَانَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا لَهُ فِي إِنْسَانٍ أَوْ مَمْلُوكٍ، كُلِّفَ عِتْقَ بَقِيَّتِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ يُعْتِقُهُ بِهِ، فَقَدْ جَازَ مَا عَتَقَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی غلام کو اپنے حصے کے بقدر آزاد کر دیتا ہے تو اسے اس کا بقیہ حصے آزاد کر نے کا بھی مکلف بنایا جائے گا، اگر اس کے پاس اتنا مال نہ ہو جس سے اسے آزاد کیا جا سکے تو جتنا اس نے آزاد کیا ہے اتنا ہی رہے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا يحيى بن سعيد ، عن نافع ، انه سمع ابن عمر يحدث عن الذي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي به، يقول:" لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك، والملك لا شريك لك"، وذكر نافع: ان ابن عمر كان يزيد هؤلاء الكلمات من عنده: لبيك والرغباء إليك والعمل، لبيك لبيك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ عَنِ الَّذِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي بِهِ، يَقُولُ:" لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ، وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ"، وَذَكَرَ نَافِعٌ: أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَزِيدُ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ مِنْ عِنْدِهِ: لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ، لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا، میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں آپ کا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، تمام تعریفیں اور تمام نعمتیں آپ کے لئے ہیں، حکومت بھی آپ ہی کی ہے آپ کا کوئی شریک نہیں، ابن عمر رضی اللہ عنہما اس میں یہ اضافہ فرماتے تھے کہ میں حاضر ہوں، تمام رغبتیں اور عمل آپ ہی کے لئے ہیں میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا يحيى ، عن نافع انه اخبره، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" خمس لا جناح في قتل من قتل منهن: الغراب، والفارة، والحداة، والكلب العقور، والعقرب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" خَمْسٌ لَا جُنَاحَ فِي قَتْلِ مَنْ قَتَلَ مِنْهُنَّ: الْغُرَابُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ، وَالْعَقْرَبُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ قسم کے جانوروں کو قتل کر نے میں کوئی حرج نہیں ہے، بچھو، چوہے، چیل، کوے اور باؤلے کتے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا يحيى ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: دخلت المسجد، فرايت النبي صلى الله عليه وسلم والناس حوله، فاسرعت لاسمع كلامه، فتفرق الناس قبل ان ابلغ وقال مرة: قبل ان انتهي إليهم، فسالت رجلا منهم: ماذا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: إنه" نهى عن المزفت، والدباء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ حَوْلَهُ، فَأَسْرَعْتُ لِأَسْمَعَ كَلَامَهُ، فَتَفَرَّقَ النَّاسُ قَبْلَ أَنْ أَبْلُغَ وَقَالَ مَرَّةً: قَبْلَ أَنْ أَنْتَهِيَ إِلَيْهِمْ، فَسَأَلْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ: مَاذَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِنَّهُ" نَهَى عَنِ الْمُزَفَّتِ، وَالدُّبَّاءِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ منبر پر جلوہ افروز دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی میں تیزی سے مسجد میں داخل ہوا، اور ایک جگہ جا کر بیٹھ گیا لیکن ابھی کچھ سننے کا موقعہ نہ ملا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اتر آئے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ لوگوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء اور مزفت میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا يحيى ، عن نافع ، انه اخبره، قال: اقبلنا مع ابن عمر من مكة، ونحن نسير معه، ومعه حفص بن عاصم بن عمر، ومساحق بن عمرو بن خداش، فغابت لنا الشمس، فقال احدهما: الصلاة، فلم يكلمه، ثم قال له الآخر: الصلاة، فلم يكلمه، فقال نافع: فقلت له: الصلاة، فقال: إني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا عجل به السير جمع ما بين هاتين الصلاتين"، فانا اريد ان اجمع بينهما، قال: فسرنا اميالا، ثم نزل فصلى، قال يحيى: فحدثني نافع: هذا الحديث مرة اخرى، فقال: سرنا إلى قريب من ربع الليل، ثم نزل فصلى.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ مِنْ مَكَّةَ، وَنَحْنُ نَسِيرُ مَعَهُ، وَمَعَهُ حَفْصُ بْنُ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، وَمُسَاحِقُ بْنُ عَمْرِو بْنِ خِدَاشٍ، فَغَابَتْ لَنَا الشَّمْسُ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: الصَّلَاةَ، فَلَمْ يُكَلِّمْهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ الْآخَرُ: الصَّلَاةَ، فَلَمْ يُكَلِّمْهُ، فَقَالَ نَافِعٌ: فَقُلْتُ لَهُ: الصَّلَاةَ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا عَجِلَ بِهِ السَّيْرُ جَمَعَ مَا بَيْنَ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ"، فَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَجْمَعَ بَيْنَهُمَا، قَالَ: فَسِرْنَا أَمْيَالًا، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى، قَالَ يَحْيَى: فَحَدَّثَنِي نَافِعٌ: هَذَا الْحَدِيثَ مَرَّةً أُخْرَى، فَقَالَ: سِرْنَا إِلَى قَرِيبٍ مِنْ رُبُعِ اللَّيْلِ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى.
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ہم لوگ مکہ مکرمہ سے آ رہے تھے ان کے ساتھ حفص بن عاصم اور مساحق بن عمرو بھی تھے ہم لوگ چلتے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا، ان میں سے ایک نے کہا ”نماز“ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے کوئی بات نہیں کی (پھر دوسرے نے یاد دہانی کرائی لیکن انہوں نے اسے بھی کوئی جواب نہ دیا پھر میں نے ان سے کہا ”نماز“ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ جب انہیں سفر کی جلدی ہوتی تھی تو وہ ان دونوں نمازوں کو جمع کر لیتے تھے میرا ارادہ ہے کہ میں بھی انہیں جمع کر لوں گا چنانچہ ہم نے کئی میل کا سفر طے کر لیا پھر اتر کر انہوں نے نماز پڑھی ایک دوسرے موقع پر نافع نے ربع میل کا ذکر کیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثني موسى بن عقبة ، حدثني سالم ، عن عبد الله بن عمر ، عن زيد بن حارثة الكلبي مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان عبد الله بن عمر، كان يقول:" ما كنا ندعوه إلا زيد بن محمد، حتى نزل القرآن ادعوهم لآبائهم هو اقسط عند الله سورة الاحزاب آية 5".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ الْكَلْبِيِّ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ:" مَا كُنَّا نَدْعُوهُ إِلَّا زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ، حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ پہلے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے تاآنکہ قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہو گئی کہ انہیں ان کے باپ کی طرف نسبت کر کے پکارا کرو کیونکہ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن عبيد الله ، سمعت سالم بن عبد الله يحدث، عن ابيه ، ان عمر، قال: يا رسول الله، ارايت ما نعمل فيه، امر مبتدع او مبتدا، او امر قد فرغ منه؟ قال:" امر قد فرغ منه، فاعمل يا ابن الخطاب، فإن كلا ميسر، فاما من كان من اهل السعادة، فإنه يعمل للسعادة، ومن كان من اهل الشقاء، فإنه يعمل للشقاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُمَرَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيهِ، أَمْرٌ مُبْتَدَعٌ أَوْ مُبْتَدَأٌ، أَوْ أَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ؟ قَالَ:" أَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، فَاعْمَلْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، فَإِنَّ كُلًّا مُيَسَّرٌ، فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ، فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ، فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جو عمل کرتے ہیں کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے؟ فرمایا: ”نہیں! بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے لہٰذا، اے ابن خطاب! عمل کرتے رہو کیونکہ جو شخص جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اسے اس کے اسباب مہیا کر دئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کر دیا جاتا ہے، چنانچہ اگر وہ اہل سعادت میں سے ہو تو وہ سعادت والے اعمال کرتا ہے اور اہل شقاوت میں سے ہو تو بدبختی والے اعمال کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف عاصم بن عبيدالله .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی سے ہے کہ ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کر کے آئے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، سمعت عقبة بن حريث ، سمعت ابن عمر يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا رايت ان الصبح يدركك فاوتر بواحدة"، قال: فقيل لابن عمر: ما مثنى مثنى؟ قال: تسلم في كل ركعتين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ حُرَيْثٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا رَأَيْتَ أَنَّ الصُّبْحَ يُدْرِكُكَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ"، قَالَ: فَقِيلَ لِابْنِ عُمَرَ: مَا مَثْنَى مَثْنَى؟ قَالَ: تُسَلِّمُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت پر مشتمل ہوتی ہے جب صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ان دو کے ساتھ ایک رکعت اور ملا لو“، کسی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ دو دو کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا: یہ کہ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیر دو۔