(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، قال: حدثنا زهير ، حدثنا عمارة بن غزية ، عن يحيى بن راشد ، قال: خرجنا حجاجا، عشرة من اهل الشام حتى اتينا مكة، فذكر الحديث، قال: فاتيناه فخرج إلينا، يعني ابن عمر ، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من حالت شفاعته دون حد من حدود الله عز وجل، فقد ضاد الله في امره، ومن مات وعليه دين، فليس بالدينار ولا بالدرهم، ولكنها الحسنات والسيئات، ومن خاصم في باطل وهو يعلمه، لم يزل في سخط الله حتى ينزع، ومن قال في مؤمن ما ليس فيه، اسكنه الله ردغة الخبال حتى يخرج مما قال".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ رَاشِدٍ ، قَالَ: خَرَجْنَا حُجَّاجًا، عَشَرَةً مِنْ أَهْلِ الشَّاَمِ حَتَّى أَتَيْنَا مَكَّةَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَأَتَيْنَاهُ فَخَرَجَ إِلَيْنَا، يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَدْ ضَادَّ اللَّهَ فِي أَمْرِهِ، وَمَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَلَيْسَ بِالدِّينَارِ وَلَا بِالدِّرْهَمِ، وَلَكِنَّهَا الْحَسَنَاتُ وَالسَّيِّئَاتُ، وَمَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ وَهُوَ يَعْلَمُهُ، لَمْ يَزَلْ فِي سَخَطِ اللَّهِ حَتَّى يَنْزِعَ، وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ، أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ".
یحییٰ بن راشد کہتے ہیں کہ ہم دس آدمی اہل شام میں سے حج کے اراداے سے نکلے اور مکہ مکرمہ پہنچے، پھر ہم سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس گئے، وہ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص کی سفارش اللہ کی مقرر کردہ کسی سزا کے درمیان حائل ہو جائے تو گویا اس نے اللہ کے ساتھ ضد کی، جو شخص مقروض ہو کر مر گیا تو اس کا قرض درہم و دینار سے نہیں، نیکیوں اور گناہوں سے ادا کیا جائے گا، جو شخص غلطی پر ہو کر جھگڑا کرتا ہے اور وہ اپنے آپ کو غلطی پر سمجھتا بھی ہے تو وہ اس وقت تک اللہ کی ناراضگی میں رہتا ہے جب تک اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹ جاتا، اور جو شخص کسی مسلمان کے متعلق کوئی ایسی بات کہتا ہے جو اس میں نہیں ہے، اللہ اسے اہل جہنم کی پیپ کے مقام پر ٹھہرائے گا یہاں تک کہ وہ بات کہنے سے باز آ جائے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صحیح حکمران وقت کی اطاعت سے ہاتھ کھینچتا ہے، قیامت کے دن اس کی کوئی حجت قبول نہ ہو گی اور جو شخص جماعت کو چھوڑ کر مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں کی مثال ان سو اونٹوں کی سی ہے جن میں سے ایک بھی سواری کے قابل نہ ہو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ،عبدالرحمن بن عبدالله-وإن كان في حديثه ضعف - قد توبع .
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قرا هذه الآية: يوم يقوم الناس لرب العالمين سورة المطففين آية 6 قال:" يقومون حتى يبلغ الرشح آذانهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ سورة المطففين آية 6 قَالَ:" يَقُومُونَ حَتَّى يَبْلُغَ الرَّشْحُ آذَانَهُمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت «يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ»”جب لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے“ کی تفسیر میں فرمایا کہ اس وقت لوگ اپنے پسینے میں نصف کان تک ڈوبے ہوئے کھڑے ہوں گے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں جب میں کنوارا نوجوان تھا، تو رات کو مسجد نبوی میں سو جایا کرتا تھا، اس وقت مسجد میں کتے آیا جایا کرتے تھے اور لوگ اس کے بعد زمین پر معمولی سا چھڑکاؤ بھی نہ کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وهذا إسناد ضعيف لضعف صالح بن أبي صالح الأخضر ، وقوله : كنت أعزب شابا أبيت في المسجد ، أخرجه بنحوه مطولا : خ : 1121 ، و م : 2479 .
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا ابو طعمة ، قال ابن لهيعة: لا اعرف إيش اسمه، قال: سمعت عبد الله بن عمر ، يقول: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المربد، فخرجت معه، فكنت عن يمينه، واقبل ابو بكر فتاخرت له، فكان عن يمينه، وكنت عن يساره، ثم اقبل عمر، فتنحيت له، فكان عن يساره، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم المربد، فإذا بازقاق على المربد فيها خمر، قال ابن عمر: فدعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدية، قال: وما عرفت المدية إلا يومئذ، فامر بالزقاق فشقت، ثم قال:" لعنت الخمر، وشاربها، وساقيها، وبائعها، ومبتاعها، وحاملها، والمحمولة إليه، وعاصرها، ومعتصرها، وآكل ثمنها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو طُعْمَةَ ، قَالَ ابْنُ لَهِيعَةَ: لَا أَعْرِفُ إِيشْ اسْمُهُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمِرْبَدِ، فَخَرَجْتُ مَعَهُ، فَكُنْتُ عَنْ يَمِينِهِ، وَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ فَتَأَخَّرْتُ لَهُ، فَكَانَ عَنْ يَمِينِهِ، وَكُنْتُ عَنْ يَسَارِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عُمَرُ، فَتَنَحَّيْتُ لَهُ، فَكَانَ عَنْ يَسَارِهِ، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِرْبَدَ، فَإِذَا بِأَزْقَاقٍ عَلَى الْمِرْبَدِ فِيهَا خَمْرٌ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُدْيَةِ، قَالَ: وَمَا عَرَفْتُ الْمُدْيَةَ إِلَّا يَوْمَئِذٍ، فَأَمَرَ بِالزِّقَاقِ فَشُقَّتْ، ثُمَّ قَالَ:" لُعِنَتْ الْخَمْرُ، وَشَارِبُهَا، وَسَاقِيهَا، وَبَائِعُهَا، وَمُبْتَاعُهَا، وَحَامِلُهَا، وَالْمَحْمُولَةُ إِلَيْهِ، وَعَاصِرُهَا، وَمُعْتَصِرُهَا، وَآكِلُ ثَمَنِهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اونٹوں کے باڑے کی طرف تشریف لے گئے، میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا گیا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب تھا، تھوڑی دیر بعد سامنے سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آتے ہوئے دکھائی دئیے، میں اپنی جگہ سے ہٹ گیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف آ گئے اور میں بائیں جانب، اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آ گئے، میں پھر اپنی جگہ سے ہٹ گیا اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب آ گئے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اونٹوں کے باڑے میں پہنچے تو وہاں کچھ مشکیزے نظر آئے جن میں شراب تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چھری منگوائی، مجھے چھری نامی کسی چیز کا اسی دن پتہ چلا، بہرحال! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان مشکیزوں کو چاک کر دیا گیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شراب پر، اس کے پینے اور پلانے والے پر، اس کے بیچنے اور خریدنے والے پر، اس کے اٹھانے اور اٹھوانے والے پر، اس کے نچوڑنے اور نچڑوانے والے پر، اور اس کی قیمت کھانے پر لعنت ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن ، عبدالله بن لهيعة - وإن كان ضعيفا - قد روى عنه أيضا ابن وهب وسماعه منه قبل احتراق كتبه ، والمرفوع منه صحيح بطرقه وشواهده .
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا ابو طعمة ، انه قال: كنت عند ابن عمر، إذ جاءه رجل، فقال: يا ابا عبد الرحمن، إني اقوى على الصيام في السفر، فقال ابن عمر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من لم يقبل رخصة الله، كان عليه من الإثم مثل جبال عرفة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو طُعْمَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنِّي أَقْوَى عَلَى الصِّيَامِ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ لَمْ يَقْبَلْ رُخْصَةَ اللَّهِ، كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ جِبَالِ عَرَفَةَ".
ابوطعمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا، اے ابو عبدالرحمن! میں سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی طرف سے دی جانے والی رخصت کو قبول نہیں کرتا، اس پر عرفہ کے پہاڑوں کے برابر گناہ ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا ابو الزبير ، سالت جابرا ، عن إمساك الكلب، فقال: اخبرني ابن عمر ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من امسكه، نقص من اجره كل يوم قيراطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، سَأَلْتُ جَابِرًا ، عَنْ إِمْسَاكِ الْكَلْبِ، فَقَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عُمَرَ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ أَمْسَكَهُ، نَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ".
ابوزبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کتے رکھنے کا مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کتا رکھتا ہے اس کے ثواب میں روزانہ دو قیراط کمی ہوتی رہتی ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ، لضعف ابن لهيعة ، وقد سلف بإسناد صحيح برقم: 4479 بلفظ: «من اقتنى كلبا ليس بضار ولا كلب ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان» .
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا جعفر بن ربيعة ، عن عبد الرحمن بن رافع الحضرمي ، قال:" رايت ابن عمر في المصلى في الفطر، وإلى جنبه ابن له، فقال لابنه: هل تدري كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع في هذا اليوم؟ قال: لا ادري، قال ابن عمر : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي قبل الخطبة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ الْحَضْرَمِيِّ ، قَالَ:" رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي الْمُصَلَّى فِي الْفِطْرِ، وَإِلَى جَنْبِهِ ابْنٌ لَهُ، فَقَالَ لِابْنِهِ: هَلْ تَدْرِي كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ فِي هَذَا الْيَوْمِ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي، قَالَ ابْنُ عُمَرَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي قَبْلَ الْخُطْبَةِ".
عبدالرحمن بن رافع حضرمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو عیدالفطر کے دن عیدگاہ میں دیکھا، ان کی ایک جانب ان کا ایک بیٹا تھا، وہ اپنے بیٹے سے کہنے لگے کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آج کے دن کیا کرتے تھے؟ اس نے کہا: مجھے معلوم نہیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے پہلے نماز پڑھتے تھے۔