(حديث مرفوع) قال: قرات على عبد الرحمن : مالك ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" مثل صاحب القرآن كمثل صاحب الإبل المعقلة، إن عاهد عليها امسكها، وإن اطلقها ذهبت".(حديث مرفوع) قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ، إِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَكَهَا، وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حامل قرآن کی مثال بندھے ہوئے اونٹ کے مالک کی طرح ہے، جسے اس کا مالک اگر باندھ کر رکھے تو وہ اس کے قابو میں رہتا ہے اور اگر کھلاچھوڑ دے تو وہ نکل جاتا ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بلال رات ہی کو اذان دے دیتے ہیں اس لئے جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں تم کھاتے پیتے رہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا إسرائيل ، عن ثوير ، عن ابن عمر ، رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إن ادنى اهل الجنة منزلة الذي ينظر إلى جنانه ونعيمه وخدمه وسرره من مسيرة الف سنة، وإن اكرمهم على الله من ينظر إلى وجهه غدوة وعشية"، ثم تلا هذه الآية: وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة سورة القيامة آية 22 - 23.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ ثُوَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً الَّذِي يَنْظُرُ إِلَى جِنَانِهِ وَنَعِيمِهِ وَخَدَمِهِ وَسُرُرِهِ مِنْ مَسِيرَةِ أَلْفِ سَنَةٍ، وَإِنَّ أَكْرَمَهُمْ عَلَى اللَّهِ مَنْ يَنْظُرُ إِلَى وَجْهِهِ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً"، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ سورة القيامة آية 22 - 23.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں سب سے کم درجے کا آدمی ایک ہزار سال کے فاصلے پر پھیلی ہوئی مملکت میں اپنے باغات، نعمتوں، تختوں اور خادموں کو بھی دیکھتا ہو گا جب کہ سب سے افضل درجے کا جنتی روزانہ صبح و شام اللہ تعالیٰ کا دیدار کر نے والا ہو گا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے۔“[القيامة]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، ثويربن أبي فاختة ضعفه غير واحد من الأئمة ، وقال الدارقطني وعلي ابن الجنيد : متروك .
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ايوب ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر رضي الله تعالى عنهما، رفع الحديث في قوله تعالى يوم يقوم الناس لرب العالمين سورة المطففين آية 6، قال:" يقومون يوم القيامة في الرشح إلى انصاف آذانهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا، رَفَعَ الْحَدِيثَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ سورة المطففين آية 6، قَالَ:" يَقُومُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الرَّشْحِ إِلَى أَنْصَافِ آذَانِهِمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت ”جب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے“ کی تفسیر میں فرمایا کہ اس وقت لوگ اپنے پسینے میں نصف کان تک ڈوبے ہوئے کھڑے ہوں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي ، عن ايوب ، عن نافع ، ان ابن عمر كان يكري ارضه على عهد ابي بكر، وعمر، وعثمان، وبعض عمل معاوية، قال: ولو شئت، قلت: على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا كان في آخر إمارة معاوية، بلغه عن رافع بن خديج حديث، فذهب وانا معه، فساله عنه؟ فقال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كراء المزارع"، فترك ان يكريها، فكان إذا سئل بعد ذلك، يقول: زعم ابن خديج ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن كراء المزارع.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُكْرِي أَرْضَهُ عَلَى عَهْدِ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَبَعْضَ عَمَلِ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: وَلَوْ شِئْتُ، قُلْتُ: عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ إِمَارَةِ مُعَاوِيَةَ، بَلَغَهُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ، فَذَهَبَ وَأَنَا مَعَهُ، فَسَأَلَهُ عَنْهُ؟ فَقَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ"، فَتَرَكَ أَنْ يُكْرِيَهَا، فَكَانَ إِذَا سُئِلَ بَعْدَ ذَلِكَ، يَقُولُ: زَعَمَ ابْنُ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ.
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خلفاء ثلاثہ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلاف میں اپنی زمین کرائے پر دیا کرتے تھے، اگر میں چاہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت کا بھی ذکر کر سکتا ہوں، لیکن سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں انہیں پتہ چلا کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ زمین کو کرائے پر دینے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت روایت کرتے ہیں، تو وہ ان کے پاس آئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا انہوں نے سیدنا رافع رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، یہ سن کر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ کام چھوڑ دیا اور بعد میں جب کوئی ان سے پوچھتا تو وہ فرما دیتے کہ رافع بن خدیج کا یہ خیال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد ، عن ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن المزابنة"، قال: فكان نافع يفسرها: الثمرة تشترى بخرصها تمرا بكيل مسمى، إن زادت فلي، وإن نقصت فعلي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الْمُزَابَنَةِ"، قَالَ: فَكَانَ نَافِعٌ يُفَسِّرُهَا: الثَّمَرَةُ تُشْتَرَى بِخَرْصِهَا تَمْرًا بِكَيْلٍ مُسَمًّى، إِنْ زَادَتْ فَلِي، وَإِنْ نَقَصَتْ فَعَلَيَّ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ کی ممانعت فرمائی ہے، بیع مزابنہ کی تشریح نافع یوں کرتے ہیں کہ درختوں پر لگی ہوئی کھجور کو ایک معین اندازے سے بیچنا اور یہ کہنا کہ اگر اس سے زیادہ نکلیں تو میری اور اگر کم ہو گئیں تب بھی میری۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد ، عن ايوب ، عن نافع ، ان ابن عمر طلق امراته وهي حائض، فسال عمر النبي صلى الله عليه وسلم،" فامره ان يراجعها، ثم يمهلها حتى تحيض حيضة اخرى، ثم يمهلها حتى تطهر، ثم يطلقها قبل ان يمسها، فتلك العدة التي امر الله ان تطلق لها النساء"، وكان ابن عمر إذا سئل عن الرجل يطلق امراته وهي حائض، يقول: إما انت طلقتها واحدة او اثنتين، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم امره ان يراجعها، ثم يمهلها حتى تحيض حيضة اخرى، ثم يمهلها حتى تطهر، ثم يطلقها إن لم يرد إمساكها، وإما انت طلقتها ثلاثا، فقد عصيت الله تعالى فيما امرك به من طلاق امراتك، وبانت منك، وبنت منها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ يُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ"، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، يَقُولُ: إِمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا وَاحِدَةً أَوْ اثْنَتَيْنِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ يُطَلِّقَهَا إِنْ لَمْ يُرِدْ إِمْسَاكَهَا، وَإِمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا، فَقَدْ عَصَيْتَ اللَّهَ تَعَالَى فِيمَا أَمَرَكَ بِهِ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِكَ، وَبَانَتْ مِنْكَ، وَبِنْتَ مِنْهَا.
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو ”ایام“ کی حالت میں ایک طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ رجوع کر لیں اور دوبارہ ”ایام“ آنے تک انتظار کریں اور ان سے ”پاکیزگی“ حاصل ہونے تک رکے رہیں، پھر اپنی بیوی کے ”قریب“جانے سے پہلے اسے طلاق دے دیں یہی وہ طریقہ ہے جس کے مطابق اللہ نے مردوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کی رخصت دی ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ معمول تھا کہ جب ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جاتا جو ”ایام“ کی حالت میں بیوی کو طلاق دے دے تو وہ فرماتے کہ تم نے تو اسے ایک یا دو طلاقیں کیوں نہیں دیں، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں اور دوسرے ایام اور ان کے بعد طہر ہونے تک انتظار کریں، پھر اس کے قریب جانے سے پہلے اسے طلاق دے دیں، جب کہ تم تو اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے آئے ہو، تم نے اللہ کے اس حکم کی نافرمانی کی جو اس نے تمہیں اپنی بیوی کو طلاق دینے سے متعلق بتایا ہے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہو چکی اور تم اس سے جدا ہو چکے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب ، عن ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، انه كان لا يدع الحج والعمرة، وان عبد الله بن عبد الله دخل عليه، فقال: إني لا آمن ان يكون العام بين الناس قتال، فلو اقمت، فقال: قد" حج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحال كفار قريش بينه وبين البيت، فإن يحل بيني وبينه، افعل كما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال الله تبارك وتعالى: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21، ثم قال: اشهدكم اني قد اوجبت عمرة، ثم سار حتى إذا كان بالبيداء، قال: والله ما ارى سبيلهما إلا واحدا، اشهدكم اني قد اوجبت مع عمرتي حجا، ثم طاف لهما طوافا واحدا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ لَا يَدَعُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ دَخَلَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: إِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَكُونَ الْعَامَ بَيْنَ النَّاسِ قِتَالٌ، فَلَوْ أَقَمْتَ، فَقَالَ: قَدْ" حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، فَإِنْ يُحَلْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، أَفْعَلْ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21، ثُمَّ قَالَ: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً، ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْبَيْدَاءِ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَى سَبِيلَهُمَا إِلَّا وَاحِدًا، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ مَعَ عُمْرَتِي حَجًّا، ثُمَّ طَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا.
نافع رحمہ اللہ کہتے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما حج اور عمرہ کبھی ترک نہیں فرماتے تھے ایک مرتبہ ان کے پاس ان کے صاحبزداے عبداللہ آئے اور کہنے لگے کہ مجھے اندیشہ ہے اس سال لوگوں کے درمیان قتل و قتال ہو گا، اگر آپ اس سال ٹھہر جاتے اور حج کے لئے نہ جاتے تو بہتر ہوتا؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی حج کے لئے روانہ ہوئے تھے اور کفار قریش ان کے اور حرم شریف کے درمیان حائل ہو گئے تھے، اس لئے اگر میرے سامنے بھی کوئی رکاوٹ پیش آ گئی تو میں وہی کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی کہ ”تمہارے لئے پیغمبر اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے“ اور فرمایا: ”میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں عمرہ کی نیت کر چکا ہوں۔“ اس کے بعد وہ روانہ ہو گئے چلتے چلتے جب مقام بیداء پر پہنچے تو فرمانے لگے کہ حج اور عمرہ دونوں کا معاملہ ایک ہی جیسا تو ہے میں تمہیں گواہ بناتاہوں کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج کی بھی نیت کر لی ہے، چنانچہ وہ مکہ مکرمہ پہنچے اور دونوں کی طرف سے ایک ہی طواف کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب ، عن ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رجل: يا رسول الله، من اين تامرنا ان نهل؟ قال:" يهل اهل المدينة من ذي الحليفة، واهل الشام من الجحفة، واهل نجد من قرن"، قال: ويقولون: واهل اليمن من يلملم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مِنْ أَيْنَ تَأْمُرُنَا أَنْ نُهِلَّ؟ قَالَ:" يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَهْلُ الشاَمِ مِنَ الْجُحْفَةِ، وَأَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ"، قَالَ: وَيَقُولُونَ: وَأَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ ہمیں کہاں سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لئے جحفہ، اور اہل نجد کے لئے قرن میقات ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بعد میں لوگوں نے یہ نے یہ بھی کہا کہ اہل یمن کی میقات یلملم ہے لیکن مجھے یہ یاد نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب ، عن ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: نادى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ما نقتل من الدواب إذا احرمنا؟ قال:" خمس لا جناح على من قتلهن في قتلهن: الحدية، والغراب، والفارة، والكلب العقور، والعقرب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: نَادَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا نَقْتُلُ مِنَ الدَّوَابِّ إِذَا أَحْرَمْنَا؟ قَالَ:" خَمْسٌ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ قَتَلَهُنَّ فِي قَتْلِهِنَّ: الحُدَيَّة، وَالْغُرَابُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ، وَالْعَقْرَبُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال پوچھا: یا رسول اللہ! احرام باندھنے کے بعد ہم کون سے جانور قتل کر سکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ قسم کے جانوروں کو قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بچھو، چوہے، چیل، کوے اور باؤلے کتے۔