(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد ، عن ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن المزابنة"، قال: فكان نافع يفسرها: الثمرة تشترى بخرصها تمرا بكيل مسمى، إن زادت فلي، وإن نقصت فعلي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الْمُزَابَنَةِ"، قَالَ: فَكَانَ نَافِعٌ يُفَسِّرُهَا: الثَّمَرَةُ تُشْتَرَى بِخَرْصِهَا تَمْرًا بِكَيْلٍ مُسَمًّى، إِنْ زَادَتْ فَلِي، وَإِنْ نَقَصَتْ فَعَلَيَّ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ کی ممانعت فرمائی ہے، بیع مزابنہ کی تشریح نافع یوں کرتے ہیں کہ درختوں پر لگی ہوئی کھجور کو ایک معین اندازے سے بیچنا اور یہ کہنا کہ اگر اس سے زیادہ نکلیں تو میری اور اگر کم ہو گئیں تب بھی میری۔