(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب ، عن ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، انه كان لا يدع الحج والعمرة، وان عبد الله بن عبد الله دخل عليه، فقال: إني لا آمن ان يكون العام بين الناس قتال، فلو اقمت، فقال: قد" حج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحال كفار قريش بينه وبين البيت، فإن يحل بيني وبينه، افعل كما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال الله تبارك وتعالى: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21، ثم قال: اشهدكم اني قد اوجبت عمرة، ثم سار حتى إذا كان بالبيداء، قال: والله ما ارى سبيلهما إلا واحدا، اشهدكم اني قد اوجبت مع عمرتي حجا، ثم طاف لهما طوافا واحدا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ لَا يَدَعُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ دَخَلَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: إِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَكُونَ الْعَامَ بَيْنَ النَّاسِ قِتَالٌ، فَلَوْ أَقَمْتَ، فَقَالَ: قَدْ" حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، فَإِنْ يُحَلْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، أَفْعَلْ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21، ثُمَّ قَالَ: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً، ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْبَيْدَاءِ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَى سَبِيلَهُمَا إِلَّا وَاحِدًا، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ مَعَ عُمْرَتِي حَجًّا، ثُمَّ طَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا.
نافع رحمہ اللہ کہتے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما حج اور عمرہ کبھی ترک نہیں فرماتے تھے ایک مرتبہ ان کے پاس ان کے صاحبزداے عبداللہ آئے اور کہنے لگے کہ مجھے اندیشہ ہے اس سال لوگوں کے درمیان قتل و قتال ہو گا، اگر آپ اس سال ٹھہر جاتے اور حج کے لئے نہ جاتے تو بہتر ہوتا؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی حج کے لئے روانہ ہوئے تھے اور کفار قریش ان کے اور حرم شریف کے درمیان حائل ہو گئے تھے، اس لئے اگر میرے سامنے بھی کوئی رکاوٹ پیش آ گئی تو میں وہی کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی کہ ”تمہارے لئے پیغمبر اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے“ اور فرمایا: ”میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں عمرہ کی نیت کر چکا ہوں۔“ اس کے بعد وہ روانہ ہو گئے چلتے چلتے جب مقام بیداء پر پہنچے تو فرمانے لگے کہ حج اور عمرہ دونوں کا معاملہ ایک ہی جیسا تو ہے میں تمہیں گواہ بناتاہوں کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج کی بھی نیت کر لی ہے، چنانچہ وہ مکہ مکرمہ پہنچے اور دونوں کی طرف سے ایک ہی طواف کیا۔