(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن ابيه ، عن عطاء ، عن كثير بن جمهان ، قال: رايت ابن عمر يمشي في الوادي بين الصفا، والمروة ولا يسعى، فقلت له، فقال:" إن اسع، فقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسعى، وإن امش فقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي، وانا شيخ كبير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ جُمْهَانَ ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَمْشِي فِي الْوَادِي بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ وَلَا يَسْعَى، فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ:" إِنْ أَسْعَ، فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْعَى، وَإِنْ أَمْشِ فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي، وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ".
کثیر بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو صفا مروہ کے درمیان عام رفتار سے چلتے ہوئے دیکھا تو ان سے پوچھا کہ آپ عام رفتار سے چل رہے ہیں؟ فرمایا: اگر میں عام رفتار سے چلوں تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس طرح چلتے ہوئے دیکھا ہے اور اگر تیزی سے چلوں تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح بھی دیکھا ہے اور میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ، عطاء السائب قد اختلط ، وكثير بن جمهان لم يوثقه غير ابن حبان .
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن فراس ، عن ابي صالح ، عن زاذان ، ان ابن عمر اعتق عبدا له، فقال: ما لي من اجره وتناول شيئا من الارض ما يزن هذه، او مثل هذه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من لطم غلامه، او ضربه، فكفارته عتقه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ زَاذَانَ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَعْتَقَ عَبْدًا لَهُ، فَقَالَ: مَا لِي مِنْ أَجْرِهِ وَتَنَاوَلَ شَيْئًا مِنَ الْأَرْض مَا يَزِنُ هَذِهِ، أَوْ مِثْلَ هَذِهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ لَطَمَ غُلَامَهُ، أَوْ ضَرَبَهُ، فَكَفَّارَتُهُ عِتْقُهُ".
زاذان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے کسی غلام کو بلا کر اسے آزاد کر دیا اور زمین سے کوئی تنکا وغیرہ اٹھا کر فرمایا کہ مجھے اس تنکے کے برابر بھی اسے آزاد کر نے پر ثواب نہیں ملے گا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے غلام کو تھپڑ مارے، اس کا کفارہ یہی ہے کہ اسے آزاد کر دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن فراس ، اخبرني ابو صالح ، عن زاذان ، قال: كنت عند ابن عمر ، فدعا غلاما له فاعتقه، ثم قال: ما لي فيه من اجر ما يسوى هذا، او يزن هذا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من ضرب عبدا له حدا لم ياته، او ظلمه، او لطمه شك عبد الرحمن فإن كفارته ان يعتقه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو صَالِحٍ ، عَنْ زَاذَانَ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ ، فَدَعَا غُلَامًا لَهُ فَأَعْتَقَهُ، ثُمَّ قَالَ: مَا لِي فِيهِ مِنْ أَجْرٍ مَا يَسْوَى هَذَا، أَوْ يَزِنُ هَذَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ ضَرَبَ عَبْدًا لَهُ حَدًّا لَمْ يَأْتِهِ، أَوْ ظَلَمَهُ، أَوْ لَطَمَهُ شَكَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَإِنَّ كَفَّارَتَهُ أَنْ يُعْتِقَهُ".
زاذان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے کسی غلام کو بلا کر اسے آزاد کر دیا اور زمین سے کوئی تنکا وغیرہ اٹھا کر فرمایا کہ مجھے اس تنکے کے برابر بھی اسے آزاد کر نے پر ثواب نہیں ملے گا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے غلام کو تھپڑ مارے، اس کا کفارہ یہی ہے کہ اسے آزاد کر دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، وبهز ، قالا: حدثنا شعبة ، عن انس بن سيرين ، قال بهز في حديثه: اخبرني انس بن سيرين، سمعت ابن عمر ، يقول: إنه طلق امراته وهي حائض، فسال عمر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" مره فليراجعها، فإذا طهرت فليطلقها"، قال بهز: اتحتسب؟.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، وَبَهْزٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، قَالَ بَهْزٌ فِي حَدِيثِهِ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، فَإِذَا طَهُرَتْ فَلْيُطَلِّقْهَا"، قَالَ بَهْزٌ: أَتُحْتَسَبُ؟.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ”ایام“ کی حالت میں طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا: اسے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے، جب وہ پاک ہو جائے تو ان ایام طہارت میں اسے طلاق دے دے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 5252 ، م : 1471 .
(حديث مرفوع) حدثنا روح بن عبادة ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني ابو الزبير ، انه سمع عبد الرحمن بن ايمن يسال ابن عمر، وابو الزبير يسمع، فقال ابن عمر :" قرا النبي صلى الله عليه وسلم يايها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن سورة الطلاق آية 1 في قبل عدتهن.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَيْمَنَ يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ يَسْمَعُ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ :" قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ سورة الطلاق آية 1 فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ.
عبدالرحمن بن ایمن رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایام کی حالت میں طلاق کا مسئلہ پوچھا، ابو الزبیر یہ باتیں سن رہے تھے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ احزاب کی یہ آیت اس طرح بھی پڑھی ہے، اے نبی! جب آپ لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت کے آغاز میں طلاق دو (ایام طہر میں طلاق دینا مراد ہے نہ کہ ایام حیض میں)۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا محمد بن ابي حفصة ، حدثنا ابن شهاب ، عن سالم ، عن ابيه ، انه طلق امراته وهي حائض، فذكر ذلك إلى عمر، فانطلق عمر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليمسكها حتى تحيض غير هذه الحيضة، ثم تطهر، فإن بدا له ان يطلقها، فليطلقها كما امره الله عز وجل، وإن بدا له ان يمسكها، فليمسكها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ إِلَى عُمَرَ، فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَحِيضَ غَيْرَ هَذِهِ الْحَيْضَةِ، ثُمَّ تَطْهُرَ، فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا، فَلْيُطَلِّقْهَا كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُمْسِكَهَا، فَلْيُمْسِكْهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو اس کے ”ایام“کی حالت میں طلاق دے دی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی یہ بات بتا دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے مطلع کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے چاہیے کہ اسے اپنے پاس ہی رکھے، یہاں تک کہ ان ایام کے علاوہ اسے ایام کا دوسرا دور آ جائے اور وہ اس سے بھی پاک ہو جائے، پھر اگر اسے طلاق دینے کی رائے ہو تو حکم الہٰی کے مطابق اسے طلاق دے دے اور اگر اپنے پاس رکھنے کی رائے ہو تو اپنے پاس رہنے دے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، م : 1471 ، محمد بن أبي حفصة - وإن كان مختلفاً فيه - متابع ، وقد روى له البخاري و مسلم في المتابعات .
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني اخدع في البيع، فقال:" إذا بعت، فقل: لا خلابة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُخْدَعُ فِي الْبَيْعِ، فَقَالَ:" إِذَا بِعْتَ، فَقُلْ: لَا خِلَابَةَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا، یا رسول اللہ! خرید و فروخت میں لوگ مجھے دھوکہ دے دیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یوں کہہ لیا کرو کہ اس بیع میں کوئی دھوکہ نہیں ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا حنظلة ، سمعت سالما ، وسئل عن رجل طلق امراته وهي حائض، فقال: لا يجوز، طلق ابن عمر امراته وهي حائض،" فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يراجعها"، فراجعها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ ، سَمِعْتُ سَالِمًا ، وَسُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: لَا يَجُوزُ، طَلَّقَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ،" فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَاجِعَهَا"، فَرَاجَعَهَا.
سالم رحمہ اللہ سے ایک مرتبہ کسی شخص نے پوچھا جو ایام کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے، تو انہوں نے فرمایا کہ یہ جائز نہیں ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے بیوی کو ایام کی حالت میں طلاق دے دی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کر لینے کا حکم دیا تھا چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا حنظلة ، سمعت طاوسا ، قال: سمعت عبد الله بن عمر ، يقول: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" لا تبيعوا الثمر حتى يبدو صلاحه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ ، سَمِعْتُ طَاوُسًا ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَا تَبِيعُوا الثَّمَرَ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہمارے درمیان کھڑے ہو کر فرمایا کہ جب تک پھل پک نہ جائے، اس وقت اسے مت بیچو، جب تک ان کا پکنا واضح نہ ہو جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا مالك ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ما شجرة لا يسقط ورقها، وهي مثل المؤمن؟"، او قال:" المسلم؟"، قال: فوقع الناس في شجر البوادي، قال ابن عمر: ووقع في نفسي انها النخلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هي النخلة"، قال: فذكرت ذلك لعمر، فقال: لان تكون قلتها، كان احب إلي من كذا وكذا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا شَجَرَةٌ لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا، وَهِيَ مِثْلُ الْمُؤْمِنِ؟"، أَوْ قَالَ:" الْمُسْلِمِ؟"، قَالَ: فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هِيَ النَّخْلَةُ"، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعُمَرَ، فَقَالَ: لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا، كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ كَذَا وَكَذَا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک درخت ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اور وہ مسلمان کی طرح ہوتا ہے بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ لوگوں کے ذہن میں جنگل کے مختلف درختوں کی طرف گئے، میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہو سکتا ہے، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے، میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس بات کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے فرمایا: اس موقع پر تمہارا بولنا میرے نزدیک فلاں فلاں چیز سے بھی زیادہ پسندیدہ تھا۔“