(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عيسى بن حفص ، حدثني ابي ، انه قال:" كنت مع ابن عمر في سفر، فصلى الظهر والعصر ركعتين ركعتين، ثم قام إلى طنفسة له، فراى ناسا يسبحون بعدها، فقال: ما يصنع هؤلاء؟ قلت: يسبحون، قال، لو كنت مصليا قبلها او بعدها لاتممتها، صحبت النبي صلى الله عليه وسلم حتى قبض، فكان لا يزيد على ركعتين، وابا بكر رضي الله عنه حتى قبض، فكان لا يزيد عليهما، وعمر، وعثمان كذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عِيسَى بْنِ حَفْصٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، أَنَّهُ قَالَ:" كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ، فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ إِلَى طِنْفِسَةٍ له، فَرَأَى نَاسًا يُسَبِّحُونَ بَعْدَهَا، فَقَالَ: مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟ قُلْتُ: يُسَبِّحُونَ، قَالَ، لَوْ كُنْتُ مُصَلِّيًا قَبْلَهَا أَوْ بَعْدَهَا لَأَتْمَمْتُهَا، صَحِبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قُبِضَ، فَكَانَ لَا يَزِيدُ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، وَأَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى قُبِضَ، فَكَانَ لَا يَزِيدُ عَلَيْهِمَا، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَذَلِكَ".
حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ سفر پر تھا، انہوں نے ظہر اور عصر کی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھی، پھر اپنی چٹائی پر کھڑے ہوئے، تو کچھ لوگوں کو فرض نماز کے بعد نوافل پڑھتے ہوئے دیکھا، انہوں نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے بتایا کہ نوافل پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نفل پڑھتا تو اپنی فرض نماز مکمل نہ کر لیتا (قصر کیوں کرتا؟) میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک ان کی رفاقت کا شرف حاصل کیا ہے، وہ دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، اسی طرح ابوبکر عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن ابي ذئب ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" جمع بين المغرب والعشاء بجمع بإقامة، ولم يسبح بينهما، ولا على اثر واحدة منهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ بِإِقَامَةٍ، وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا، وَلَا عَلَى أَثَرِ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز ایک ہی اقامت سے پڑھی اور ان کے درمیان یا ان کے بعد نوافل نہیں پڑھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن التيمي ، عن طاوس ، سمع ابن عمر ، سئل عن نبيذ الجر:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نبيذ الجر؟ فقال: نعم"، وقال طاوس: والله إني سمعته منه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ التَّيْمِيِّ ، عَنْ طَاوُسٍ ، سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ ، سُئِلَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ؟ فَقَالَ: نَعَمْ"، وقَالَ طَاوُسٌ: وَاللَّهِ إِنِّي سَمِعْتُهُ مِنْهُ.
طاؤس کہتے ہیں کہ کسی شخص نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نبیذ سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں طاؤس کہتے ہیں، بخدا! یہ بات میں نے خود سنی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثني عبد الله بن دينار ، سمعت ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" مثل الذي يجر إزاره، او ثوبه شك يحيى من الخيلاء، لا ينظر الله إليه يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَثَلُ الَّذِي يَجُرُّ إِزَارَهُ، أَوْ ثَوْبَهُ شَكَّ يَحْيَى مِنَ الْخُيَلَاءِ، لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے گھسیٹتا ہوا چلتا ہے (کپڑے زمین پر گھستے جاتے ہیں) اللہ قیامت کے دن اس پر نظر رحم نہ فرمائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 5783 ، م : 2085 .
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثنا عبد الله بن دينار ، سمعت ابن عمر ، قال: سال عمر رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" تصيبني الجنابة من الليل؟ فامره ان يغسل ذكره وليتوضا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ: سَأَلَ عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ مِنَ اللَّيْلِ؟ فَأَمَرَهُ أَنْ يَغْسِلَ ذَكَرَهُ وَلْيَتَوَضَّأْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مجھے رات کو جنابت لاحق ہو جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ شرمگاہ کو دھو کروضو کر لیا کریں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، وابن جعفر ، قال: حدثنا شعبة، حدثني عمرو بن مرة ، عن زاذان ، قال: قلت لابن عمر : اخبرني ما نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الاوعية؟ وفسره لنا بلغتنا، فإن لنا لغة سوى لغتكم، قال:" نهى عن الحنتم، وهو الجر، ونهى عن المزفت، وهو المقير، ونهى عن الدباء، وهو القرع، ونهى عن النقير، وهي النخلة تنقر نقرا، وتنسج نسجا"، قال: ففيم تامرنا ان نشرب فيه؟ قال: الاسقية، قال محمد: وامر ان ننبذ في الاسقية.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، وَابْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ زَاذَانَ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ : أَخْبِرْنِي مَا نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَوْعِيَةِ؟ وَفَسِّرْهُ لَنَا بِلُغَتِنَا، فَإِنَّ لَنَا لُغَةً سِوَى لُغَتِكُمْ، قَالَ:" نَهَى عَنِ الْحَنْتَمِ، وَهُوَ الْجَرُّ، وَنَهَى عَنِ الْمُزَفَّتِ، وَهُوَ الْمُقَيَّرُ، وَنَهَى عَنِ الدُّبَّاءِ، وَهُوَ الْقَرْعُ، وَنَهَى عَنِ النَّقِيرِ، وَهِيَ النَّخْلَةُ تُنْقَرُ نَقْرًا، وَتُنْسَجُ نَسْجًا"، قَالَ: فَفِيمَ تَأْمُرُنَا أَنْ نَشْرَبَ فِيهِ؟ قَالَ: الْأَسْقِيَةُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَمَرَ أَنْ نَنْبِذَ فِي الْأَسْقِيَةِ.
زاذان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا ہے، مجھے وہ بھی بتائیے اور ہماری زبان میں اس کی وضاحت بھی کیجئے کیونکہ ہماری زبان اور آپ کی زبان میں فرق ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے «حنتم» سے منع کیا ہے جس کا معنی مٹکا ہے، «مزفت» سے بھی منع کیا ہے، جو لُک کے برتن کو کہتے ہیں۔ «دباء» سے بھی منع کیا ہے جس کا معنی کدو ہے اور «نقير» سے بھی منع کیا ہے جس کا معنی ہے کھجور کی وہ لکڑی جسے اندر سے کھوکھلا کر لیا جائے۔ راوی نے پوچھا کہ پھر آپ ہمیں کس برتن میں پانی پینے کا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: مشکیزوں میں۔ بقول راوی محمد کے انہوں نے ہمیں مشکیزوں میں نبیذ بنانے کا حکم دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثني ابن دينار ، سمعت ابن عمر يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" ينصب للغادر لواء يوم القيامة، يقال: هذه غدرة فلان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي ابْنُ دِينَارٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُنْصَبُ لِلْغَادِرِ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے دن ہر دھوکے باز کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کا دھوکہ ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 6178 ، م : 1735 .
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثني ابن دينار ، سمعت ابن عمر ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يلبس المحرم ثوبا مسه زعفران او ورس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي ابْنُ دِينَارٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْبَسَ الْمُحْرِمُ ثَوْبًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ أَوْ وَرْسٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کو ایسے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ہے، جس پر زعفران اور ورس لگی ہوئی ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن إسماعيل ، اخبرني وبرة ، قال: اتى رجل ابن عمر، فقال: ايصلح ان اطوف بالبيت وانا محرم؟ قال: ما يمنعك من ذلك؟! قال: إن فلانا ينهانا عن ذلك حتى يرجع الناس من الموقف، ورايته كانه مالت به الدنيا، وانت اعجب إلينا منه، قال ابن عمر :" حج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فطاف بالبيت، وسعى بين الصفا والمروة"، وسنة الله تعالى ورسوله احق ان تتبع من سنة ابن فلان، إن كنت صادقا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، أَخْبَرَنِي وَبَرَةُ ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: أَيَصْلُحُ أَنْ أَطُوفَ بِالْبَيْتِ وَأَنَا مُحْرِمٌ؟ قَالَ: مَا يَمْنَعُكَ مِنْ ذَلِكَ؟! قَالَ: إِنَّ فُلَانًا يَنْهَانَا عَنْ ذَلِكَ حَتَّى يَرْجِعَ النَّاسُ مِنَ الْمَوْقِفِ، وَرَأَيْتُهُ كَأَنَّهُ مَالَتْ بِهِ الدُّنْيَا، وَأَنْتَ أَعْجَبُ إِلَيْنَا مِنْهُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ :" حَجّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ، وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ"، وَسُنَّةُ اللَّهِ تَعَالَى وَرَسُولِهِ أَحَقُّ أَنْ تُتَّبَعَ مِنْ سُنَّةِ ابْنِ فُلَانٍ، إِنْ كُنْتَ صَادِقًا.
وبرہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ اگر میں نے حج کا احرام باندھ رکھا ہو تو کیا میں بیت اللہ کا طواف کر سکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ اس میں کیا حرج ہے؟ وہ شخص کہنے لگا کہ اصل میں فلاں صاحب اس سے منع کرتے ہیں، جب تک کہ لوگ ”موقف“ سے واپس نہ آ جائیں اور میں دیکھتا ہوں کہ دنیا ان پر ٹوٹی پڑی ہے، لیکن ہمیں آپ زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف بھی کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی بھی کی اور اللہ اور اس کے رسول کی سنت کی پیروی کرنا فلاں کے بیٹے کی سنت کی پیروی سے زیادہ حق رکھتی ہے، بشرطیکہ تم اس کے متعلق اپنی بات میں سچے ہو۔