(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، اخبرني عمر بن نافع ، عن ابيه ، عن ابن عمر ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن القزع"، قلت: وما القزع؟ قال: ان يحلق راس الصبي ويترك بعضه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقَزَعِ"، قُلْتُ: وَمَا الْقَزَعُ؟ قَالَ: أَنْ يُحْلَقَ رَأْسُ الصَّبِيِّ وَيُتْرَكَ بَعْضُه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا ہے۔ قزع کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے بال کٹواتے وقت کچھ بال کٹوا لئے جائیں اور کچھ چھوڑ دئیے جائیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، حدثني نافع ، عن عبد الله ، قال:" دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم البيت هو وبلال، واسامة بن زيد، وعثمان بن طلحة، فاجافوا الباب، ومكثوا ساعة، ثم خرج، فلما فتح كنت اول من دخل، فسالت بلالا: اين صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: بين العمودين المقدمين"، ونسيت ان اساله كم صلى؟.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ هُوَ وَبِلَالٌ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ، فَأَجَافُوا الْبَابَ، وَمَكَثُوا سَاعَةً، ثُمَّ خَرَجَ، فَلَمَّا فُتِحَ كُنْتُ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ، فَسَأَلْتُ بِلَالًا: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ الْمُقَدَّمَيْنِ"، وَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى؟.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بیت اللہ میں داخل ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسامہ بن زید، عثمان بن طلحہ اور بلال رضی اللہ عنہم تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دروازہ بند کر دیا، اور جب تک اللہ کو منظور تھا اس کے اندر رہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو سب سے پہلے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے میں نے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز پڑھی؟ انہوں نے بتایا کہ اگلے دو ستونوں کے درمیان، البتہ میں ان سے یہ پوچھنا بھول گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھیں؟
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، اخبرني نافع ، عن ابن عمر ، ان عمر رضي الله عنه حمل على فرس، فاعطاها عمر رسول الله صلى الله عليه وسلم ليحمل عليها رجلا، فاخبر عمر انه قد وقفها يبيعها، قال: فسال عن ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، يبتاعها؟ قال:" لا تبتعها، ولا تعد في صدقتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ، فَأَعْطَاهَا عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَحْمِلَ عَلَيْهَا رَجُلًا، فَأُخْبِرَ عُمَرُ أَنَّهُ قَدْ وَقَفَهَا يَبِيعُهَا، قَالَ: فَسَأَلَ عَنْ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَبْتَاعُهَا؟ قَالَ:" لَا تَبْتَعْهَا، وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، وہ گھوڑا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کیا تھا تاکہ وہ کسی کو سواری کے لئے دے دیں، بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ وہ گھوڑا بازار میں بک رہا ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے خریدنے کا مشورہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مت خریدو اور اپنے صدقے سے رجوع مت کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 2775 ، م : 1621 .
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم بمنى ركعتين، ومع ابي بكر، ومع عمر، وعثمان صدرا من إمارته، ثم اتم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ، وَمَعَ عُمَرَ، وعُثْمَانَ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ، ثُمَّ أَتَمَّ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھی ہیں، حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کے ساتھ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی ایام خلافت میں ان کے ساتھ بھی دو رکعتیں ہی پڑھی ہیں، بعد میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے مکمل کرنا شروع کر دیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، وإسماعيل ، قالا: حدثنا ابن عون ، قال يحيى: قال: حدثني نافع ، عن ابن عمر ، ان عمر، قال: يا رسول الله، إني اصبت ارضا بخيبر، لم اصب شيئا قط هو انفس عندي منه، فقال:" إن شئت حبست اصلها، وتصدقت بها" قال: فتصدق بها، لا يباع اصلها، ولا توهب، ولا تورث، قال: فتصدق بها في الفقراء، والضيف، والرقاب، وفي السبيل، وابن السبيل، لا جناح على من وليها ان ياكل بالمعروف، او يطعم صديقا، غير متمول فيه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَإِسْمَاعِيلُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، قَالَ يَحْيَى: قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، لَمْ أُصِبْ شَيْئًا قَطُّ هُوَ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ، فَقَالَ:" إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا، وَتَصَدَّقْتَ بِهَا" قَالَ: فَتَصَدَّقَ بِهَا، لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا، وَلَا تُوهَبُ، وَلَا تُورَثُ، قَالَ: فَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ، وَالضَّيْفِ، وَالرِّقَابِ، وَفِي السَّبِيلِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ بِالْمَعْرُوفِ، أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا، غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ (کو خیبر میں ایک زمین حصے میں ملی، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے متعلق مشورہ لینا چاہا، چنانچہ انہوں) نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میرے حصے میں خیبر کی زمین کا ایک ایسا ٹکڑا آیا ہے کہ اس سے زیادہ عمدہ مال میرے پاس کبھی نہیں آیا، (آپ مجھے اس کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں؟) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو اس کی اصل تو اپنے پاس رکھ لو اور اس کے منافع کو صدقہ کر دو“، چنانچہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے فقراء، قریبی رشتہ داروں، غلاموں، مجاہدین، مسافروں اور مہمانوں کے لئے وقف کر دیا اور فرمایا کہ اس زمین کے متولی کے لئے خود بھلے طریقے سے اس میں سے کچھ کھانے میں یا اپنے دوست کو جو اس سے اپنے مال میں اضافہ نہ کرنا چاہتا ہو، کھلانے میں کوئی حرج نہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 2737 ، م : 1632 .
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، اخبرني نافع ، عن ابن عمر ، قال:" بعثنا نبي الله صلى الله عليه وسلم في سرية، بلغت سهماننا اثني عشر بعيرا، ونفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعيرا بعيرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" بَعَثَنَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، بَلَغَتْ سُهْمَانُنَا اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنَفَّلَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعِيرًا بَعِيرًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میں روانہ فرمایا، ہمارا حصہ بارہ بارہ اونٹ بنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایک اونٹ بطور انعام کے بھی عطاء فرمایا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، اخبرني نافع عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" سبق بين الخيل المضمرة من الحفياء إلى ثنية الوداع، وما لم يضمر منها من ثنية الوداع إلى مسجد بني زريق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" سَبَّقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الْمُضَمَّرَةِ مِنَ الْحَفْيَاءِ إِلَى ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ، وَمَا لَمْ يُضَمَّرْ مِنْهَا مِنْ ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھڑ دوڑ کا مقابلہ کروا یا، ان میں سے جو گھوڑے چھریرے تھے انہیں حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک مسابقت کے لئے مقرر فرمایا اور جو چھریرے بدن کے نہ تھے، ان کی ریس ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک کروائی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 2868 ، م : 1870 .
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن محمد بن عمرو ، اخبرني يحيى بن عبد الرحمن ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" الشهر تسع وعشرون" فذكروا ذلك لعائشة ، فقالت: يرحم الله ابا عبد الرحمن، وهل، هجر رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه شهرا، فنزل لتسع وعشرين، فقيل له، فقال:" إن الشهر قد يكون تسعا وعشرين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ" فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِعَائِشَةَ ، فَقَالَتْ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَهَلْ، هَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ شَهْرًا، فَنَزَلَ لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقِيلَ لَهُ، فَقَالَ:" إِنَّ الشَّهْرَ قَدْ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مہینہ ٢٩ دن کا ہوتا ہے“، لوگوں نے یہ بات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتائی تو انہوں نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمن پر رحم فرمائے، انہیں وہم ہو گیا ہے، دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے کے لئے اپنی ازاواج مطہرات کو چھوڑ دیا تھا، ٢٩ دن ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالاخانے سے نیچے آ گئے، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ تو ٢٩ ویں دن ہی نیچے آ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض اوقات مہینہ ٢٩ دن کا بھی ہوتا ہے۔“
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح ، وهذا اسناد حسن .
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا مالك ، حدثنا الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، ان رجلا من الانصار كان يعظ اخاه في الحياء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: دعه، فإن" الحياء من الإيمان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهُ، فَإِنَّ" الْحَيَاءَ مِنَ الْإِيمَانِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک انصاری آدمی اپنے بھائی کو حیاء کے متعلق نصیحت کر رہا تھا (کہ اتنی بھی حیاء نہ کیا کرو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رہنے دو حیاء تو ایمان کا حصہ ہے۔