(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا سفيان ، حدثني زبيد ، عن إبراهيم ، عن مسروق ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال" ليس منا من ضرب الخدود، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنِي زُبَيْدٌ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ" لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ، وَشَقَّ الْجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو اپنے رخساروں کو پیٹے، گریبانوں کو پھاڑے اور جاہلیت کی سی پکار لگائے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، حدثني عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن سلمة ، قال: قال عبد الله :" اوتي نبيكم صلى الله عليه وسلم مفاتيح كل شيء غير خمس: إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت إن الله عليم خبير سورة لقمان آية 34.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ :" أُوتِيَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَفَاتِيحَ كُلِّ شَيْءٍ غَيْرَ خَمْسٍ: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کی کنجیاں دے دی گئی ہیں سوائے پانچ چیزوں کے، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿إِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾ [لقمان: 34] »”قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ رحم مادر میں کیا ہے؟ کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا؟ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس علاقے میں مرے گا؟ بیشک اللہ بڑا جاننے والا باخبر ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد يحتمل التحسين
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ وہ ہر مرتبہ جھکتے اٹھتے، کھڑے اور بیٹھے ہوتے تکبیر کہتے تھے اور دائیں بائیں اس طرح سلام پھیرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک رخساروں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی اور میں نے سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف، زهير سمع من أبى إسحاق السبيعي بعد اختلاطه
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، حدثنا ابو إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن عبد الله ، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في قبة نحو من اربعين، فقال:" اترضون ان تكونوا ربع اهل الجنة؟" قلنا: نعم، قال:" اترضون ان تكونوا ثلث اهل الجنة؟" قلنا: نعم، قال:" والذي نفسي بيده، إني لارجو ان تكونوا نصف اهل الجنة، وذاك ان الجنة لا يدخلها إلا نفس مسلمة، وما انتم في الشرك إلا كالشعرة البيضاء في جلد ثور اسود، او السوداء في جلد ثور احمر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ نَحْوٌ مِنْ أَرْبَعِينَ، فَقَالَ:" أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟" قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ:" أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟" قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَذَاكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَمَا أَنْتُمْ فِي الشِّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ ثَوْرٍ أَسْوَدَ، أَوْ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ ثَوْرٍ أَحْمَرَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمے میں چالیس کے قریب افراد بیٹھے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش اور راضی ہو کہ تم تمام اہل جنت کا ایک چوتھائی حصہ ہو؟“ ہم نے عرض کیا: جی ہاں! پھر پوچھا: ”کیا ایک تہائی حصہ ہونے پر خوش ہو؟“ ہم نے پھر اثبات میں جواب دیا، فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم تمام اہل جنت کا نصف ہو گے، کیونکہ جنت میں صرف وہی شخص داخل ہو سکے گا جو مسلمان ہو اور شرک کے ساتھ تمہاری نسبت ایسی ہی ہے جیسے سیاہ بیل کی کھال میں سفید بال یا سرخ بیل کی کھال میں سیاہ بال ہوتے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، حدثنا ابو إسحاق ، عن ابي عبيدة ، عن عبد الله ، قال: مر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا اصلي، فقال:" سل تعطه يا ابن ام عبد"، فابتدر ابو بكر، وعمر رضي الله عنهما، قال عمر: ما بادرني ابو بكر إلى شيء، إلا سبقني إليه ابو بكر، فسالاه عن قوله، فقال: من دعائي الذي لا اكاد ادع: اللهم إني اسالك نعيما لا يبيد، وقرة عين لا تنفد، ومرافقة النبي صلى الله عليه وسلم محمد في اعلى الجنة، جنة الخلد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُصَلِّي، فَقَالَ:" سَلْ تُعْطَهْ يَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ"، فَابْتَدَرَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ عُمَرُ: مَا بَادَرَنِي أَبُو بَكْرٍ إِلَى شَيْءٍ، إِلَّا سَبَقَنِي إِلَيْهِ أَبُو بَكْرٍ، فَسَأَلَاهُ عَنْ قَوْلِهِ، فَقَالَ: مِنْ دُعَائِي الَّذِي لَا أَكَادُ أَدَعُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ نَعِيمًا لَا يَبِيدُ، وَقُرَّةَ عَيْنٍ لَا تَنْفَدُ، وَمُرَافَقَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ، جَنَّةِ الْخُلْدِ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دور ہی سے فرمایا: ”اے ابن ام عبد! مانگو تمہیں دیا جائے گا“، یہ خوشخبری مجھ تک پہنچانے میں حضرات شیخین کے درمیان مسابقت ہوئی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے جس معاملے میں بھی مسابقت کی وہ اس میں سبقت لے گئے، بہرحال! ان دونوں حضرات نے ان سے ان کی دعا کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں اس دعا کو کبھی ترک نہیں کرتا: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ نَعِيمًا لَا يَبِيدُ وَقُرَّةَ عَيْنٍ لَا تَنْفَدُ وَمُرَافَقَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ جَنَّةِ الْخُلْدِ»”اے اللہ! میں آپ سے ایسی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو کبھی ختم نہ ہوں، آنکھوں کی ایسی ٹھنڈک جو کبھی فنا نہ ہو، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنت الخلد میں رفاقت کا سوال کرتا ہوں۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه
(حديث مرفوع) سمعت يحيى ، قال: سمعت سليمان ، قال: سمعت زيد بن وهب ، قال: سمعت عبد الله ، قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنكم سترون بعدي اثرة، وامورا تنكرونها"، قال: قلنا: وما تامرنا؟ قال:" ادوا إليهم حقهم، وسلوا الله حقكم".(حديث مرفوع) سَمِعْت يَحْيَى ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً، وَأُمُورًا تُنْكِرُونَهَا"، قَالَ: قُلْنَا: وَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ:" أَدُّوا إِلَيْهِمْ حَقَّهُمْ، وَسَلُوا اللَّهَ حَقَّكُمْ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب تم میرے بعد ترجیحات اور ناپسندیدہ امور دیکھو گے“، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے جو شخص اس زمانے کو پائے تو کیا کرے؟ فرمایا: ”اپنے اوپر واجب ہونے والے حقوق ادا کرتے رہو اور اپنے حقوق کا اللہ سے سوال کرتے رہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، عن مجالد ، عن عامر ، عن الاسود بن يزيد ، قال: اقيمت الصلاة في المسجد، فجئنا نمشي مع عبد الله بن مسعود، فلما ركع الناس، ركع عبد الله وركعنا معه، ونحن نمشي، فمر رجل بين يديه، فقال: السلام عليك يا ابا عبد الرحمن، فقال عبد الله وهو راكع: صدق الله ورسوله، فلما انصرف، ساله بعض القوم: لم قلت حين سلم عليك الرجل صدق الله ورسوله؟ قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن من اشراط الساعة، إذا كانت التحية على المعرفة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ، فَجِئْنَا نَمْشِي مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَلَمَّا رَكَعَ النَّاسُ، رَكَعَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَكَعْنَا مَعَهُ، وَنَحْنُ نَمْشِي، فَمَرَّ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَهُوَ رَاكِعٌ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، سَأَلَهُ بَعْضُ الْقَوْمِ: لِمَ قُلْتَ حِينَ سَلَّمَ عَلَيْكَ الرَّجُلُ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، إِذَا كَانَتْ التَّحِيَّةُ عَلَى الْمَعْرِفَةِ".
اسود بن یزید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسجد میں نماز کھڑی ہو گئی، ہم لوگ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ صفوں میں شامل ہونے کے لئے چلے جا رہے تھے، جب لوگ رکوع میں گئے تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی رکوع میں چلے گئے، انہیں دیکھ کر ہم نے بھی رکوع کر لیا، اس وقت بھی ہم لوگ چل رہے تھے، ایک آدمی اسی اثنا میں سامنے سے گزرا اور کہنے لگا: السلام علیک یا ابا عبدالرحمن! انہوں نے رکوع کی حالت میں فرمایا: اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ جب فلاں شخص نے آپ کو سلام کیا تھا تو آپ نے یہ کیوں کہا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”یہ بات علامات قیامت میں سے ہے کہ سلام صرف جان پہچان کے لوگوں کو کیا جانے لگے۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف مجالد
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، اخبرنا مالك بن مغول ، عن الزبير بن عدي ، عن طلحة ، عن مرة ، عن عبد الله ، قال:" لما اسري برسول الله صلى الله عليه وسلم، انتهي به إلى سدرة المنتهى، وهي في السماء السادسة، إليها ينته ما يعرج به من الارض، فيقبض منها، وإليها ينته ما يهبط به من فوقها، فيقبض منها، قال: إذ يغشى السدرة ما يغشى سورة النجم آية 16، قال: فراش من ذهب، قال: فاعطي رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا: اعطي الصلوات الخمس، واعطي خواتيم سورة البقرة، وغفر لمن لا يشرك بالله من امته شيئا المقحمات".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ ، عَنْ طَلْحَةَ ، عَنْ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، انْتُهِيَ بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَهِيَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، إِلَيْهَا يُنْتَهَ مَا يُعْرَجُ بِهِ مِنَ الْأَرْضِ، فَيُقْبَضُ مِنْهَا، وَإِلَيْهَا يُنْتَهَ مَا يُهْبَطُ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا، فَيُقْبَضُ مِنْهَا، قَالَ: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى سورة النجم آية 16، قَالَ: فِرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: فَأُعْطِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا: أُعْطِيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لِمَنْ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ مِنْ أُمَّتِهِ شَيْئًا الْمُقْحِمَاتُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہی بھی لے جایا گیا جو کہ چھٹے آسمان میں ہے، اور زمین سے اوپر چڑھنے والی چیزوں کی آخری حد یہی ہے، یہاں سے ان چیزوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور آسمان سے اترنے والی چیزیں بھی یہیں آ کر رکتی ہیں اور یہاں سے انہیں اٹھا لیا جاتا ہے، اور فرمایا کہ ”جب سدرہ المنتہی کو ڈھانپ رہی تھی وہ چیز جو ڈھانپ رہی تھی“ اس سے مراد سونے کے پروانے ہیں، بہرحال! اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزیں عطا ہوئیں: پانچ نمازیں، سورہ بقرہ کی اختتامی آیات اور یہ خوشخبری کہ ان کی امت کے ہر اس شخص کی بخشش کر دی جائے گی جو اللہ کے ساتھ کسی اور چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”زمین میں اللہ کے کچھ فرشتے گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھے پہنچاتے ہیں۔“