(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، عن مجالد ، عن عامر ، عن الاسود بن يزيد ، قال: اقيمت الصلاة في المسجد، فجئنا نمشي مع عبد الله بن مسعود، فلما ركع الناس، ركع عبد الله وركعنا معه، ونحن نمشي، فمر رجل بين يديه، فقال: السلام عليك يا ابا عبد الرحمن، فقال عبد الله وهو راكع: صدق الله ورسوله، فلما انصرف، ساله بعض القوم: لم قلت حين سلم عليك الرجل صدق الله ورسوله؟ قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن من اشراط الساعة، إذا كانت التحية على المعرفة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ، فَجِئْنَا نَمْشِي مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَلَمَّا رَكَعَ النَّاسُ، رَكَعَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَكَعْنَا مَعَهُ، وَنَحْنُ نَمْشِي، فَمَرَّ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَهُوَ رَاكِعٌ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، سَأَلَهُ بَعْضُ الْقَوْمِ: لِمَ قُلْتَ حِينَ سَلَّمَ عَلَيْكَ الرَّجُلُ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، إِذَا كَانَتْ التَّحِيَّةُ عَلَى الْمَعْرِفَةِ".
اسود بن یزید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسجد میں نماز کھڑی ہو گئی، ہم لوگ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ صفوں میں شامل ہونے کے لئے چلے جا رہے تھے، جب لوگ رکوع میں گئے تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی رکوع میں چلے گئے، انہیں دیکھ کر ہم نے بھی رکوع کر لیا، اس وقت بھی ہم لوگ چل رہے تھے، ایک آدمی اسی اثنا میں سامنے سے گزرا اور کہنے لگا: السلام علیک یا ابا عبدالرحمن! انہوں نے رکوع کی حالت میں فرمایا: اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ جب فلاں شخص نے آپ کو سلام کیا تھا تو آپ نے یہ کیوں کہا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”یہ بات علامات قیامت میں سے ہے کہ سلام صرف جان پہچان کے لوگوں کو کیا جانے لگے۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف مجالد