مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 2122
Save to word اعراب
حدثنا عبد الوهاب ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن مقسم ، عن ابن عباس ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله , ورواه عبد الكريم ابو امية , مثله بإسناده.حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ , وَرَوَاهُ عَبْدُ الْكَرِيمِ أَبُو أُمَيَّةَ , مِثْلَهُ بِإِسْنَادِهِ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: هو مكرر ماقبله
حدیث نمبر: 2123
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثني يزيد ، اخبرنا هشام ، عن يحيى ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، لعن المخنثين من الرجال، والمترجلات من النساء، وقال:" اخرجوهم من بيوتكم" , فاخرج النبي صلى الله عليه وسلم، فلانا , واخرج عمر فلانا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنِي يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، لَعَنَ الْمُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ، وَالْمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاء، وَقَال:" أَخْرِجُوهُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ" , فَأَخْرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فُلَانًا , وَأَخْرَجَ عُمَرُ فُلَانًا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو ہیجڑے بن جاتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مرد بن جاتی ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال دیا کرو، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے شخص کو نکالا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی نکالا تھا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5886.
حدیث نمبر: 2124
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حدثنا يزيد ، اخبرنا ابو عوانة ، حدثنا بكير بن الاخنس ، عن مجاهد ، عن ابن عباس ،" ان الله عز وجل فرض الصلاة على لسان نبيكم: على المقيم اربعا، وعلى المسافر ركعتين، وعلى الخائف ركعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ الْأَخْنَسِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ،" أنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ الصَّلَاةَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّكُمْ: عَلَى الْمُقِيمِ أَرْبَعًا، وَعَلَى الْمُسَافِرِ رَكْعَتَيْنِ، وَعَلَى الْخَائِفِ رَكْعَةً".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تم پر نماز کو فرض قرار دیا ہے، مقیم پر چار رکعتیں، مسافر پر دو رکعتیں اور نماز خوف پڑھنے والے پر ایک رکعت۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 687.
حدیث نمبر: 2125
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثني يزيد يعني ابن هارون ، اخبرنا شريك بن عبد الله ، عن ابي إسحاق ، عن التميمي ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امرت بالسواك , حتى ظننت او حسبت ان سينزل علي فيه قرآن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنِي يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ التَّمِيمِيِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ بِالسِّوَاكِ , حَتَّى ظَنَنْتُ أَوْ حَسِبْتُ أَنْ سَيَنْزِلُ عَلَيَّ فِيهِ قُرْآنٌ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے مسواک کا حکم اس تاکید کے ساتھ دیا گیا کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں اس بارے میں مجھ پر قرآن کی کوئی آیت نازل نہ ہو جائے (اور میری امت اس حکم کو پورا نہ کر سکے)۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، التميمي مجهول وشريك ابن عبداللذه سيئ الحفظ، ولكنه توبع.
حدیث نمبر: 2126
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا همام بن يحيى ، حدثنا عطاء ، عن ابن عباس ، قال:" دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم الكعبة، وفيها ست سوار، فقام عند كل سارية ولم يصل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَعْبَةَ، وَفِيهَا سِتُّ سَوَارٍ، فَقَامَ عِنْدَ كُلِّ سَارِيَةٍ وَلَمْ يُصَلِّ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے، خانہ کعبہ میں اس وقت چھ ستون تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر ستون کے پاس کھڑے ہوئے، لیکن نماز نہیں پڑھی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1331.
حدیث نمبر: 2127
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن يوسف بن مهران ، عن ابن عباس ، قال: لما مات عثمان بن مظعون، قالت امراة: هنيئا لك الجنة عثمان بن مظعون , فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إليها نظر غضبان، فقال:" وما يدريك؟" , قالت: يا رسول الله , فارسك وصاحبك , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والله , إني رسول الله , وما ادري ما يفعل بي" , فاشفق الناس على عثمان، فلما ماتت زينب , ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الحقي بسلفنا الصالح الخير عثمان بن مظعون" , فبكت النساء، فجعل عمر يضربهن بسوطه، فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، وقال:" مهلا يا عمر" , ثم قال:" ابكين , وإياكن ونعيق الشيطان" , ثم قال:" إنه مهما كان من العين والقلب، فمن الله عز وجل، ومن الرحمة، وما كان من اليد واللسان، فمن الشيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، قَالَتْ امْرَأَةٌ: هَنِيئًا لَكَ الْجَنَّةُ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ , فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهَا نَظَرَ غَضْبَانَ، فَقَالَ:" وَمَا يُدْرِيكِ؟" , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَارِسُكَ وَصَاحِبُكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:" وَاللَّهِ , إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ , وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي" , فَأَشْفَقَ النَّاسُ عَلَى عُثْمَانَ، فَلَمَّا مَاتَتْ زَيْنَبُ , ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْحَقِي بِسَلَفِنَا الصَّالِحِ الْخَيْرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ" , فَبَكَتْ النِّسَاءُ، فَجَعَلَ عُمَرُ يَضْرِبُهُنَّ بِسَوْطِهِ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، وَقَالَ:" مَهْلًا يَا عُمَرُ" , ثُمَّ قَالَ:" ابْكِينَ , وَإِيَّاكُنَّ وَنَعِيقَ الشَّيْطَانِ" , ثُمَّ قَالَ:" إِنَّهُ مَهْمَا كَانَ مِنَ الْعَيْنِ وَالْقَلْبِ، فَمِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمِنْ الرَّحْمَةِ، وَمَا كَانَ مِنَ الْيَدِ وَاللِّسَانِ، فَمِنْ الشَّيْطَانِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ایک خاتون کہنے لگی کہ عثمان! تمہیں جنت مبارک ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کی طرف غصے بھری نگاہوں سے دیکھا اور فرمایا: تمہیں کیسے پتہ چلا؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آپ کے شہسوار اور ساتھی تھے (اس لئے مرنے کے بعد جنت ہی میں جائیں گے)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واللہ! مجھے اللہ کا پیغمبر ہونے کے باوجود معلوم نہیں ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوگا، یہ سن کر لوگ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے بارے ڈر گئے لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے آگے جانے والے بہترین ساتھی عثمان بن مظعون سے جا ملو (جس سے ان کا جنتی ہونا ثابت ہوگیا)۔ اس پر عورتیں رونے لگیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انہیں کوڑوں سے مارنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: عمر! رک جاؤ، پھر خواتین سے فرمایا کہ تمہیں رونے کی اجازت ہے لیکن شیطان کی چیخ و پکار سے اپنے آپ کو بچاؤ، پھر فرمایا کہ جب تک یہ آنکھ اور دل کا معاملہ رہے تو اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور باعث رحمت ہوتا ہے اور جب ہاتھ اور زبان تک نوبت پہنچ جائے تو یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، على بن زيد ضعيف، يوسف بن مهران، لين الحديث.
حدیث نمبر: 2128
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن زيد ، عن عمرو بن دينار ، عن طاوس ، عن ابن عباس ، قال: وقت رسول الله صلى الله عليه وسلم لاهل المدينة ذا الحليفة، ولاهل الشام الجحفة، ولاهل اليمن يلملم، ولاهل نجد قرنا، وقال:" هن وقت لاهلهن ولمن مر بهن من غير اهلهن يريد الحج والعمرة، فمن كان منزله من وراء الميقات , فإهلاله من حيث ينشئ , وكذلك فكذلك، حتى اهل مكة إهلالهم من حيث ينشئون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنًا، وَقَالَ:" هُنَّ وَقْتٌ لِأَهْلِهِنَّ وَلِمَنْ مَرَّ بِهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ يُرِيدُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَمَنْ كَانَ مَنْزِلُهُ مِنْ وَرَاءِ الْمِيقَاتِ , فَإِهْلَالُهُ مِنْ حَيْثُ يُنْشِئُ , وَكَذَلِكَ فكذلك، حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ إِهْلَالُهُمْ مِنْ حَيْثُ يُنْشِئُونَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لئے ذو الحلیفہ، اہل شام کے لئے جحفہ، اہل یمن کے لئے یلملم اور اہل نجد کے لئے قرن کو میقات مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جگہیں یہاں رہنے والوں کے لئے بھی میقات ہیں اور یہاں سے گزرنے والوں کے لئے بھی - جو حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں - اور جس کا گھر میقات سے پیچھے ہو تو وہ جہاں سے ابتدا کرے، وہیں سے احرام باندھ لے، حتی کہ اہل مکہ کا حرام وہاں سے ہوگا جہاں سے وہ ابتدا کریں گے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1526، م: 1181 .
حدیث نمبر: 2129
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا جرير بن حازم ، عن يعلى بن حكيم ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لماعز بن مالك، حين اتاه، فاقر عنده بالزنا، قال:" لعلك قبلت او لمست؟" , قال: لا , قال:" فنكتها؟" , قال: نعم , فامر به فرجم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، حِينَ أَتَاهُ، فَأَقَرَّ عِنْدَهُ بِالزِّنَا، قال:" لَعَلَّكَ قَبَّلْتَ أَوْ لَمَسْتَ؟" , قَالَ: لَا , قَالَ:" فَنِكْتَهَا؟" , قَالَ: نَعَمْ , فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب سیدنا ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اعتراف جرم کے لئے حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: شاید تم نے اسے بوسہ دیا ہوگا؟ یا تم نے اسے صرف چھوا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اس سے جماع کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر انہیں سنگسار کر دیا گیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6824.
حدیث نمبر: 2130
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، حدثنا صالح بن رستم ابو عامر ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، عن ابن عباس ، قال: اقيمت صلاة الصبح، فقام رجل يصلي الركعتين، فجذب رسول الله صلى الله عليه وسلم بثوبه، فقال:" اتصلي الصبح اربعا؟!".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ رُسْتُمَ أَبُو عَامِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: أُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ، فَقَامَ رَجُلٌ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ، فَجَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَوْبِهِ، فَقَالَ:" أَتُصَلِّي الصُّبْحَ أَرْبَعًا؟!".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ فجر کی نماز کے لئے اقامت ہوئی تو ایک آدمی دو رکعتیں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کپڑے سے پکڑ کر کھینچا اور فرمایا: کیا تم فجر کی چار رکعتیں پڑھو گے؟

حكم دارالسلام: إسناده حسن.
حدیث نمبر: 2131
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا عباد بن منصور ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: لما نزلت والذين يرمون المحصنات ثم لم ياتوا باربعة شهداء فاجلدوهم ثمانين جلدة ولا تقبلوا لهم شهادة ابدا سورة النور آية 4 , قال سعد بن عبادة، وهو سيد الانصار: اهكذا نزلت يا رسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا معشر الانصار، الا تسمعون إلى ما يقول سيدكم؟" , قالوا: يا رسول الله، لا تلمه، فإنه رجل غيور، والله ما تزوج امراة قط إلا بكرا، وما طلق امراة له قط، فاجترا رجل منا على ان يتزوجها من شدة غيرته , فقال سعد: والله يا رسول الله , إني لاعلم انها حق، وانها من الله تعالى، ولكني قد تعجبت اني لو وجدت لكاعا قد تفخذها رجل لم يكن لي ان اهيجه ولا احركه، حتى آتي باربعة شهداء، فوالله لا آتي بهم حتى يقضي حاجته , قال: فما لبثوا إلا يسيرا، حتى جاء هلال بن امية، وهو احد الثلاثة الذين تيب عليهم، فجاء من ارضه عشاء، فوجد عند اهله رجلا، فراى بعينيه، وسمع باذنيه، فلم يهجه، حتى اصبح، فغدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني جئت اهلي عشاء، فوجدت عندها رجلا، فرايت بعيني، وسمعت باذني , فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ما جاء به، واشتد عليه، واجتمعت الانصار، فقالوا: قد ابتلينا بما قال سعد بن عبادة، الآن يضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم هلال بن امية، ويبطل شهادته في المسلمين , فقال هلال: والله إني لارجو ان يجعل الله لي منها مخرجا، فقال هلال: يا رسول الله، إني قد ارى ما اشتد عليك مما جئت به، والله يعلم إني لصادق , فوالله إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد ان يامر بضربه إذ انزل الله على رسول الله صلى الله عليه وسلم الوحي، وكان إذا نزل عليه الوحي عرفوا ذلك في تربد جلده، يعني، فامسكوا عنه حتى فرغ من الوحي، فنزلت والذين يرمون ازواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا انفسهم فشهادة احدهم سورة النور آية 6 , الآية كلها، فسري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ابشر يا هلال، قد جعل الله لك فرجا ومخرجا" , فقال هلال: قد كنت ارجو ذاك من ربي عز وجل , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارسلوا إليها" , فارسلوا إليها، فجاءت، فتلاها رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهما، وذكرهما، واخبرهما ان عذاب الآخرة اشد من عذاب الدنيا، فقال هلال: والله يا رسول الله، لقد صدقت عليها , فقالت: كذب , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لاعنوا بينهما" , فقيل لهلال: اشهد , فشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين، فلما كان في الخامسة، قيل: يا هلال , اتق الله، فإن عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، وإن هذه الموجبة التي توجب عليك العذاب , فقال: لا , والله لا يعذبني الله عليها، كما لم يجلدني عليها , فشهد في الخامسة، ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين , ثم قيل لها: اشهدي اربع شهادات بالله، إنه لمن الكاذبين , فلما كانت الخامسة، قيل لها: اتق الله، فإن عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، وإن هذه الموجبة التي توجب عليك العذاب , فتلكات ساعة، ثم قالت: والله لا افضح قومي , فشهدت في الخامسة: ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما، وقضى انه لا يدعى ولدها لاب، ولا ترمى هي به ولا يرمى ولدها، ومن رماها او رمى ولدها، فعليه الحد، وقضى ان لا بيت لها عليه، ولا قوت من اجل انهما يتفرقان من غير طلاق، ولا متوفى عنها، وقال:" إن جاءت به اصيهب، اريسح، حمش الساقين، فهو لهلال، وإن جاءت به اورق جعدا، جماليا، خدلج الساقين، سابغ الاليتين، فهو للذي رميت به" , فجاءت به اورق، جعدا، جماليا، خدلج الساقين، سابغ الاليتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لولا الايمان، لكان لي ولها شان" , قال عكرمة: فكان بعد ذلك اميرا على مصر، وكان يدعى لامه، وما يدعى لاب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا سورة النور آية 4 , قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَهُوَ سَيِّدُ الْأَنْصَارِ: أَهَكَذَا نَزَلَتْ يَا رَسُولَ اللَّه؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَا تَسْمَعُونَ إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ؟" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا تَلُمْهُ، فَإِنَّهُ رَجُلٌ غَيُورٌ، وَاللَّهِ مَا تَزَوَّجَ امْرَأَةً قَطُّ إِلَّا بِكْرًا، وَمَا طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ قَطُّ، فَاجْتَرَأَ رَجُلٌ مِنَّا عَلَى أَنْ يَتَزَوَّجَهَا مِنْ شِدَّةِ غَيْرَتِهِ , فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّهَا حَقٌّ، وَأَنَّهَا مِنَ اللَّهِ تَعَالَى، وَلَكِنِّي قَدْ تَعَجَّبْتُ أَنِّي لَوْ وَجَدْتُ لَكَاعًا قد تَفَخَّذَهَا رَجُلٌ لَمْ يَكُنْ لِي أَنْ أَهِيجَهُ وَلَا أُحَرِّكَهُ، حَتَّى آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ، فَوَاللَّهِ لَا آتِي بِهِمْ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ , قَالَ: فَمَا لَبِثُوا إِلَّا يَسِيرًا، حَتَّى جَاءَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ، وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ، فَجَاءَ مِنْ أَرْضِهِ عِشَاءً، فَوَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ رَجُلًا، فَرَأَى بِعَيْنَيْهِ، وَسَمِعَ بِأُذُنَيْهِ، فَلَمْ يَهِجْهُ، حَتَّى أَصْبَحَ، فَغَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي جِئْتُ أَهْلِي عِشَاءً، فَوَجَدْتُ عِنْدَهَا رَجُلًا، فَرَأَيْتُ بِعَيْنَيَّ، وَسَمِعْتُ بِأُذُنَيَّ , فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا جَاءَ بِهِ، وَاشْتَدَّ عَلَيْه، وَاجْتَمَعَتْ الْأَنْصَارُ، فَقَالُوا: قَدْ ابْتُلِينَا بِمَا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، الْآنَ يَضْرِبُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ، وَيُبْطِلُ شَهَادَتَهُ فِي الْمُسْلِمِينَ , فَقَالَ هِلَالٌ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِي مِنْهَا مَخْرَجًا، فَقَالَ هِلَالٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ أَرَى مَا اشْتَدَّ عَلَيْكَ مِمَّا جِئْتُ بِهِ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَصَادِقٌ , فوَاللَّهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ أَنْ يَأْمُرَ بِضَرْبِهِ إِذْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيَ، وَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ عَرَفُوا ذَلِكَ فِي تَرَبُّدِ جِلْدِهِ، يَعْنِي، فَأَمْسَكُوا عَنْهُ حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْوَحْي، فَنَزَلَتْ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ سورة النور آية 6 , الْآيَةَ كلها، فَسُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَبْشِرْ يَا هِلَالُ، قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَكَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا" , فَقَالَ هِلَالٌ: قَدْ كُنْتُ أَرْجُو ذَاكَ مِنْ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْسِلُوا إِلَيْهَا" , فَأَرْسَلُوا إِلَيْهَا، فَجَاءَتْ، فتلاَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمَا، وَذَكَّرَهُمَا، وَأَخْبَرَهُمَا أَنَّ عَذَابَ الْآخِرَةِ أَشَدُّ مِنْ عَذَابِ الدُّنْيَا، فَقَالَ هِلَالٌ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ صَدَقْتُ عَلَيْهَا , فَقَالَتْ: كَذَبَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَاعِنُوا بَيْنَهُمَا" , فَقِيلَ لِهِلَالٍ: اشْهَدْ , فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ، فَلَمَّا كَانَ فِي الْخَامِسَةِ، قِيلَ: يَا هِلَالُ , اتَّقِ اللَّهَ، فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، وَإِنَّ هَذِهِ الْمُوجِبَةُ الَّتِي تُوجِبُ عَلَيْكَ الْعَذَابَ , فَقَالَ: لا , وَاللَّهِ لَا يُعَذِّبُنِي اللَّهُ عَلَيْهَا، كَمَا لَمْ يَجْلِدْنِي عَلَيْهَا , فَشَهِدَ فِي الْخَامِسَةِ، أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِين , ثُمَّ قِيلَ لَهَا: اشْهَدِي أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ، إِنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ , فَلَمَّا كَانَتْ الْخَامِسَةُ، قِيلَ لَهَا: اتَّقِ اللَّهَ، فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، وَإِنَّ هَذِهِ الْمُوجِبَةُ الَّتِي تُوجِبُ عَلَيْكِ الْعَذَابَ , فَتَلَكَّأَتْ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ لَا أَفْضَحُ قَوْمِي , فَشَهِدَتْ فِي الْخَامِسَةِ: أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، وَقَضَى أَنَّهُ لَا يُدْعَى وَلَدُهَا لِأَبٍ، وَلَا تُرْمَى هِيَ بِهِ وَلَا يُرْمَى وَلَدُهَا، وَمَنْ رَمَاهَا أَوْ رَمَى وَلَدَهَا، فَعَلَيْهِ الْحَدُّ، وَقَضَى أَنْ لَا بَيْتَ لَهَا عَلَيْهِ، وَلَا قُوتَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُمَا يَتَفَرَّقَانِ مِنْ غَيْرِ طَلَاقٍ، وَلَا مُتَوَفًّى عَنْهَا، وَقَالَ:" إِنْ جَاءَتْ بِهِ أُصَيْهِبَ، أُرَيْسِحَ، حَمْشَ السَّاقَيْنِ، فَهُوَ لِهِلَالٍ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعْدًا، جُمَالِيًّا، خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ، سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ، فَهُوَ لِلَّذِي رُمِيَتْ بِهِ" , فَجَاءَتْ بِهِ أَوْرَقَ، جَعْدًا، جُمَالِيًّا، خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ، سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْلَا الْأَيْمَانُ، لَكَانَ لِي وَلَهَا شَانٌ" , قَالَ عِكْرِمَةُ: فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَمِيرًا عَلَى مِصْرٍ، وَكَانَ يُدْعَى لِأُمِّهِ، وَمَا يُدْعَى لِأَب.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: «﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا﴾ [النور: 4] » جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور اس پر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے مارو اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو، تو سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ - جو انصار کے سردار تھے - کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حکم آپ پر اسی طرح نازل ہوا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے گروہ انصار! سنتے ہو کہ تمہارے سردار کیا کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کی بات کا برا نہ منائیے کیونکہ یہ بہت باغیرت آدمی ہیں، واللہ انہوں نے ہمیشہ صرف کنواری عورت سے ہی شادی کی ہے، اور جب کبھی انہوں نے اپنی کسی بیوی کو طلاق دی ہے تو کسی دوسرے آدمی کو ان کی اس مطلقہ بیوی سے بھی - ان کی شدت غیرت کی وجہ سے - شادی کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! مجھے اس بات کا یقین ہے کہ یہ حکم برحق ہے اور اللہ ہی کی طرف سے آیا ہے، لیکن مجھے اس بات پر تعجب ہو رہا ہے کہ اگر میں کسی کمینی عورت کو اس حال میں دیکھوں کہ اسے کسی آدمی نے اپنی رانوں کے درمیان دبوچ رکھا ہو اور میں اس پر غصہ میں بھی نہ آؤں اور اسے چھیڑوں بھی نہیں، پہلے جا کر چار گواہ لے کر آؤں، واللہ! میں تو جب تک گواہ لے کر آؤں گا اس وقت تک وہ اپنا کام پورا کر چکا ہوگا۔ ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ تھوڑی دیر بعد سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ آگئے، یہ سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ ان تین میں سے ایک ہیں جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے اور بعد میں ان کی توبہ قبول ہو گئی تھی، یہ عشاء کے وقت اپنی زمین سے واپس آئے، تو اپنی بیوی کے پاس ایک اجنبی آدمی کو دیکھا، انہوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے ان کی باتیں سنیں لیکن تحمل کا مظاہر کیا، صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں رات کو اپنی بیوی کے پاس آیا تو اس کے پاس ایک اجنبی آدمی کو پایا، میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات بڑی شاق گزری اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناگواری کا اظہار فرمایا، انصار بھی اکٹھے ہو گئے اور کہنے لگے کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے جو کہا تھا، ہم اسی میں مبتلا ہو گئے، اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کو سزا دیں گے اور مسلمانوں میں ان کی گواہی کو ناقابل اعتبار قرار دے دیں گے، لیکن سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ واللہ! مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لئے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ضرور بنائے گا، پھر سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں نے جو مسئلہ آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے، وہ آپ پر شاق گزرا ہے، اللہ جانتا ہے کہ میں اپنی بات میں سچا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان پر سزا جاری کرنے کا حکم دینے والے ہی تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوگیا، اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ متغیر ہونے سے اسے پہچان لیتے تھے، اور اپنے آپ کو روک لیتے تھے، تاآنکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے فراغت ہو جاتی، چنانچہ اس موقع پر یہ آیت لعان نازل ہوئی: «﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ . . .﴾ [النور: 6] » جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کا الزام لگائیں اور ان کے پاس سوائے ان کی اپنی ذات کے کوئی اور گواہ نہ ہو تو . . .۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سے نزول وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو فرمایا: ہلال! تمہیں خوشخبری ہو کہ اللہ نے تمہارے لئے کشادگی اور نکلنے کا راستہ پیدا فرما دیا، انہوں نے عرض کیا کہ مجھے اپنے پروردگار سے یہی امید تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی بیوی کو بلاؤ، چنانچہ لوگ اسے بلا لائے، جب وہ آگئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے سامنے مذکورہ آیات کی تلاوت فرمائی اور انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کا عذاب دنیا کی سزا سے زیادہ سخت ہے۔ سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! میں اس پر الزام لگانے میں سچا ہوں، جبکہ ان کی بیوی نے تکذیب کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں کے درمیان لعان کرا دو (جس کا طریقہ یہ ہے کہ) سیدنا ہلال رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ گواہی دیجئے، انہوں نے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دی کہ وہ اپنے دعوی میں سچے ہیں، جب پانچویں مرتبہ کہنے کی باری آئی تو ان سے کہا گیا کہ ہلال! اللہ سے ڈرو، دنیا کی سزا آخرت کی سزا سے ہلکی ہے اور یہ پانچویں مرتبہ کی قسم تم پر سزا کو ثابت کر سکتی ہے، انہوں نے کہا: اللہ نے جس طرح مجھے کوڑے نہیں پڑنے دیئے، وہ مجھے سزا بھی نہیں دے گا، اور انہوں نے پانچویں مرتبہ یہ قسم کھا لی کہ اگر وہ جھوٹے ہوں تو ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر ان کی بیوی سے اسی طرح چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر اس بات پر گواہی دینے کے لئے کہا گیا کہ ان کا شوہر اپنے الزام میں جھوٹا ہے، جب پانچویں قسم کی باری آئی تو اس سے کہا گیا کہ اللہ سے ڈرو، دنیا کی سزا آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت ہلکی ہے اور یہ پانچویں مرتبہ کی قسم تجھ پر سزا بھی ثابت کر سکتی ہے، یہ سن کر وہ ایک لمحے کے لئے ہچکچائی، پھر کہنے لگی: واللہ! میں اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی، اور پانچویں مرتبہ یہ قسم کھا لی کہ اگر اس کا شوہر سچا ہو تو بیوی پر اللہ کا غضب نازل ہو، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور یہ فیصلہ فرما دیا کہ اس عورت کی اولاد کو باپ کی طرف منسوب نہ کیا جائے، نہ اس عورت کو اس کے شوہر کی طرف منسوب کیا جائے، اور نہ اس کی اولاد پر کوئی تہمت لگائی جائے، جو شخص اس پر یا اس کی اولاد پر کوئی تہمت لگائے گا، اسے سزا دی جائے گی، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ اس عورت کی رہائش بھی اس کے شوہر کے ذمے نہیں ہے اور نان نفقہ بھی، کیونکہ ان دونوں کے درمیان طلاق یا وفات کے بغیر جدائی ہوئی تھی، اور فرمایا کہ اگر اس عورت کے یہاں پیدا ہونے والا بچہ سرخ و سفید رنگ کا ہو، ہلکے سرین والا اور پتلی پنڈلیوں والا ہو تو وہ ہلال کا ہوگا، اور اگر گندمی رنگ کا ہو، گھنگھریالے بالوں والا، بھری ہوئی پنڈلیوں اور بھرے ہوئے سیرین والا ہو تو یہ اس شخص کا ہوگا جس کی طرف اس عورت کو متہم کیا گیا ہے، چنانچہ اس عورت کے یہاں جو بچہ پیدا ہوا اس کا رنگ گندمی، بال گھنگھریالے، بھری ہوئی پنڈلیاں اور بھرے ہوئے سیرین تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو فرمایا کہ اگر قسم کا پاس لحاظ نہ ہوتا تو میرا اور اس عورت کا معاملہ ہی دوسرا ہوتا۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ بعد میں بڑا ہو کر وہ بچہ مصر کا گورنر بنا، لیکن اسے اس کی ماں کی طرف ہی منسوب کیا جاتا تھا، باپ کی طرف نہیں۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، عباد بن منصور - وإن كان فيه ضعف من جهة حفظه - قد توبع على بعضه .

Previous    33    34    35    36    37    38    39    40    41    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.