(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن سعيد بن الحويرث ، سمع ابن عباس ، يقول: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فاتى الغائط، ثم خرج فدعا بالطعام، وقال مرة: فاتي بالطعام، فقيل: يا رسول الله، الا توضا؟ قال:" لم اصل، فاتوضا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى الْغَائِطَ، ثُمَّ خَرَجَ فَدَعَا بِالطَّعَامِ، وَقَالَ مَرَّةً: فَأُتِيَ بِالطَّعَامِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تَوَضَّأُ؟ قَالَ:" لَمْ أُصَلِّ، فَأَتَوَضَّأَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء تشریف لے گئے، پھر باہر آئے، کھانا منگوایا اور کھانے لگے، کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا آپ وضو نہیں کریں گے؟ فرمایا: ”کیوں، میں کوئی نماز پڑھ رہا ہوں جو وضو کروں؟“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن ابي معبد ، عن ابن عباس ، قال:" ما كنت اعرف انقضاء صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا بالتكبير"، قال عمرو: قلت له: حدثتني، قال: لا، ما حدثتك به.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" مَا كُنْتُ أَعْرِفُ انْقِضَاءَ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بِالتَّكْبِيرِ"، قَالَ عَمْرٌو: قُلْتُ لَهُ: حَدَّثْتَنِي، قَالَ: لَا، مَا حَدَّثْتُكَ بِهِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونے کا علم تکبیر کی آواز سے ہوتا تھا۔ فائدہ: اس سے مراد اختتام نماز کے بعد جب امام سر پر ہاتھ رکھ کر اللہ اکبر یا استغفر اللہ کہتا ہے، وہ تکبیر ہے، ورنہ نماز کا اختتام تکبیر پر نہیں، سلام پر ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن ابي معبد ، عن ابن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يخلون رجل بامراة، ولا تسافر امراة إلا ومعها ذو محرم"، وجاء رجل، فقال إن امراتي خرجت إلى الحج، وإني اكتتبت في غزوة كذا وكذا، قال:" انطلق فاحجج مع امراتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ، وَلَا تُسَافِرُ امْرَأَةٌ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ"، وَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ إِنَّ امْرَأَتِي خَرَجَتْ إِلَى الْحَجِّ، وَإِنِّي اكْتَتَبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا، قَالَ:" انْطَلِقْ فَاحْجُجْ مَعَ امْرَأَتِكَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی شخص کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے، اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔“ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا کہ میری بیوی حج کے لئے جا رہی ہے جبکہ میرا نام فلاں لشکر میں جہاد کے لئے لکھ لیا گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ، جا کر اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن سليمان بن ابي مسلم خال ابن ابي نجيح , سمع سعيد بن جبير ، يقول: قال ابن عباس :" يوم الخميس، وما يوم الخميس، ثم بكى حتى بل دمعه، وقال مرة: دموعه الحصى، قلنا: يا ابا العباس، وما يوم الخميس؟ قال: اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه، فقال:" ائتوني اكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ابدا"، فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع، فقالوا: ما شانه، اهجر؟ قال سفيان: يعني هذى استفهموه، فذهبوا يعيدون عليه، فقال:" دعوني فالذي انا فيه خير مما تدعوني إليه"، وامر بثلاث، وقال سفيان مرة: اوصى بثلاث، قال:" اخرجوا المشركين من جزيرة العرب، واجيزوا الوفد بنحو ما كنت اجيزهم"، وسكت سعيد عن الثالثة، فلا ادري اسكت عنها عمدا، وقال مرة او نسيها؟ وقال سفيان مرة: وإما ان يكون تركها او نسيها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ خَالِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ , سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ :" يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ، ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ، وَقَالَ مَرَّةً: دُمُوعُهُ الْحَصَى، قُلْنَا: يَا أَبَا الْعَبَّاسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ:" ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا"، فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، فَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ، أَهَجَرَ؟ قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي هَذَى اسْتَفْهِمُوهُ، فَذَهَبُوا يُعِيدُونَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ"، وَأَمَرَ بِثَلَاثٍ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: أَوْصَى بِثَلَاثٍ، قَالَ:" أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ"، وَسَكَتَ سَعِيدٌ عَنِ الثَّالِثَةِ، فَلَا أَدْرِي أَسَكَتَ عَنْهَا عَمْدًا، وَقَالَ مَرَّةً أَوْ نَسِيَهَا؟ وقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: وَإِمَّا أَنْ يَكُونَ تَرَكَهَا أَوْ نَسِيَهَا.
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جمعرات کا دن یاد کرتے ہوئے کہا: جمعرات کا دن کیا تھا؟ یہ کہہ کر وہ رو پڑے حتی کہ ان کے آنسوؤں سے وہاں پڑی کنکریاں تربتر ہوگئیں، ہم نے پوچھا: اے ابوالعباس! جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں اضافہ ہوگیا تھا، اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”میرے پاس لکھنے کا سامان لاؤ، میں تمہارے لئے ایک ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو سکوگے“، لوگوں میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یہ مناسب نہ تھا، لوگ کہنے لگے کہ کیا ہوگیا، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بہکی بہکی باتیں کر سکتے ہیں؟ جا کر دوبارہ پوچھ لو کہ آپ کی منشاء کیا ہے؟ چنانچہ لوگ واپس آئے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب مجھے چھوڑ دو، میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلاتے ہو۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی کہ ”مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو، آنے والے مہمانوں کا اسی طرح اکرام کرو جس طرح میں کرتا تھا“، اور تیسری بات پر سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے سکوت اختیار کیا، مجھے نہیں معلوم کہ وہ جان بوجھ کر خاموش ہوئے تھے یا بھول گئے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن سليمان ، عن طاوس ، عن ابن عباس , كان الناس ينصرفون في كل وجه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا ينفر احد حتى يكون آخر عهده بالبيت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , كَانَ النَّاسُ يَنْصَرِفُونَ فِي كُلِّ وَجْهٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَنْفِرُ أَحَدٌ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگ حج کر کے جس طرح چاہتے تھے چلے جاتے تھے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”کوئی شخص بھی اس وقت تک واپس نہ جائے جب تک کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف نہ ہو۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو پتہ چلا کہ یہاں کے لوگ ایک سال یا دو تین سال کے لئے ادھار پر کھجوروں کا معاملہ کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کھجور میں بیع سلم کرے، اسے چاہئے کہ اس کی ناپ معین کرے اور اس کا وزن معین کرے اور اس کی مدت متعین کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: اخبرني عبيد الله بن ابي يزيد منذ سبعين سنة، قال: سمعت ابن عباس ، يقول:" ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم، صام يوما يتحرى فضله على الايام، غير يوم عاشوراء"، وقال سفيان مرة: اخرى إلا هذا اليوم يعني: عاشوراء، وهذا الشهر شهر , رمضان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ مُنْذُ سَبْعِينَ سَنَةً، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ:" مَا عَلِمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَامَ يَوْمًا يَتَحَرَّى فَضْلَهُ عَلَى الأَيَّامِ، غَيْرَ يَوْمِ عَاشُورَاءَ"، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: أُخْرَى إِلَّا هَذَا الْيَوْمَ يَعْنِي: عَاشُورَاءَ، وَهَذَا الشَّهْرَ شَهْرَ , رَمَضَانَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میرے علم میں نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسے دن کا روزہ رکھا ہو، جس کی فضیلت دیگر ایام پر تلاش کی ہو، سوائے یوم عاشورہ کے اور اس ماہ مقدس رمضان کے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا سفيان ، اخبرني عبيد الله ، انه سمع ابن عباس ، يقول:" انا ممن قدم النبي صلى الله عليه وسلم ليلة المزدلفة في ضعفة اهله".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ:" أَنَا مِمَّنْ قَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْمُزْدَلِفَةِ فِي ضَعَفَةِ أَهْلِهِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ یعنی عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ کی رات جلدی لے کر روانگی اختیار کی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن ابن طاوس ، عن ابيه ، عن ابن عباس , امر النبي صلى الله عليه وسلم،" ان يسجد على سبع، ونهي ان يكف شعرا او ثوبا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , أُمِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنْ يَسْجُدَ عَلَى سَبْعٍ، وَنُهِيَ أَنْ يَكُفَّ شَعْرًا أَوْ ثَوْبًا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور کپڑوں اور بالوں کو دوران نماز سمیٹنے سے منع کیا گیا ہے۔
(حديث قدسي) حدثنا سفيان ، عن عمار ، عن سالم , سئل ابن عباس ، عن رجل، قتل مؤمنا، ثم تاب، وآمن، وعمل صالحا، ثم اهتدى، قال: ويحك وانى له الهدى، سمعت نبيكم صلى الله عليه وسلم، يقول:" يجيء المقتول متعلقا بالقاتل، يقول: يا رب، سل هذا فيم قتلني"، والله لقد انزلها الله عز وجل على نبيكم صلى الله عليه وسلم وما نسخها بعد إذ انزلها، قال: ويحك وانى له الهدى.(حديث قدسي) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمَّارٍ ، عَنْ سَالِمٍ , سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ رَجُلٍ، قَتَلَ مُؤْمِنًا، ثُمَّ تَابَ، وَآمَنَ، وَعَمِلَ صَالِحًا، ثُمَّ اهْتَدَى، قَالَ: وَيْحَكَ وَأَنَّى لَهُ الْهُدَى، سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يَجِيءُ الْمَقْتُولُ مُتَعَلِّقًا بِالْقَاتِلِ، يَقُولُ: يَا رَبِّ، سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي"، وَاللَّهِ لَقَدْ أَنْزَلَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا نَسَخَهَا بَعْدَ إِذْ أَنْزَلَهَا، قَالَ: وَيْحَكَ وَأَنَّى لَهُ الْهُدَى.
حضرت سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے کسی مسلمان کو قتل کیا پھر توبہ کر کے ایمان لے آیا، نیک اعمال کئے اور راہ ہدایت پر گامزن رہا؟ فرمایا: تم پر افسوس ہے، اسے کہاں ہدایت ملے گی؟ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مقتول کو اس حال میں لایا جائے گا کہ وہ قاتل کے ساتھ لپٹا ہوا ہوگا، اور کہتا ہوگا کہ پروردگار! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا تھا؟ واللہ! اللہ نے یہ بات تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی تھی، اور اسے نازل کرنے کے بعد کبھی منسوخ نہیں فرمایا، تم پر افسوس ہے، اسے ہدایت کہاں ملے گی؟ فائدہ: یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے ہے، جہمور امت اس بات پر متفق ہے کہ قاتل اگر توبہ کرنے کے بعد ایمان اور عمل صالح سے اپنے آپ کو مزین کر لے تو اس کی توبہ قبول ہو جاتی ہے، حقوق العباد کی ادائیگی یا سزا کی صورت میں بھی بہرحال کلمہ کی برکت سے وہ جہنم سے کسی نہ کسی وقت ضرور نجات پا جائے گا۔