مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم
0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 1935
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ خَالِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ , سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ :" يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ، ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ، وَقَالَ مَرَّةً: دُمُوعُهُ الْحَصَى، قُلْنَا: يَا أَبَا الْعَبَّاسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ:" ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا"، فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، فَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ، أَهَجَرَ؟ قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي هَذَى اسْتَفْهِمُوهُ، فَذَهَبُوا يُعِيدُونَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ"، وَأَمَرَ بِثَلَاثٍ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: أَوْصَى بِثَلَاثٍ، قَالَ:" أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ"، وَسَكَتَ سَعِيدٌ عَنِ الثَّالِثَةِ، فَلَا أَدْرِي أَسَكَتَ عَنْهَا عَمْدًا، وَقَالَ مَرَّةً أَوْ نَسِيَهَا؟ وقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: وَإِمَّا أَنْ يَكُونَ تَرَكَهَا أَوْ نَسِيَهَا.
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جمعرات کا دن یاد کرتے ہوئے کہا: جمعرات کا دن کیا تھا؟ یہ کہہ کر وہ رو پڑے حتی کہ ان کے آنسوؤں سے وہاں پڑی کنکریاں تربتر ہوگئیں، ہم نے پوچھا: اے ابوالعباس! جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں اضافہ ہوگیا تھا، اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”میرے پاس لکھنے کا سامان لاؤ، میں تمہارے لئے ایک ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو سکوگے“، لوگوں میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یہ مناسب نہ تھا، لوگ کہنے لگے کہ کیا ہوگیا، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بہکی بہکی باتیں کر سکتے ہیں؟ جا کر دوبارہ پوچھ لو کہ آپ کی منشاء کیا ہے؟ چنانچہ لوگ واپس آئے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب مجھے چھوڑ دو، میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلاتے ہو۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی کہ ”مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو، آنے والے مہمانوں کا اسی طرح اکرام کرو جس طرح میں کرتا تھا“، اور تیسری بات پر سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے سکوت اختیار کیا، مجھے نہیں معلوم کہ وہ جان بوجھ کر خاموش ہوئے تھے یا بھول گئے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3053، م: 1637.