محمد بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے سے ایک جنازہ گذرا، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیٹھے رہے، سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گذرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے تھے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہنے لگے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف. فإن محمد بن سيرين لم يسمع من ابن عباس ولا من الحسن بن علي.
محمد کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے سے ایک جنازہ گذرا، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیٹھے رہے، سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گذرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے تھے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہنے لگے تھے۔
(حديث مرفوع) انبانا وكيع ، حدثنا ثابت بن عمارة ، عن ربيعة بن شيبان ، قال: قلت للحسين بن علي رضي الله: عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: صعدت معه غرفة الصدقة، فاخذت تمرة، فلكتها في في، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" القها، فإنها لا تحل لنا الصدقة".(حديث مرفوع) أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عُمَارَةَ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ شَيْبَانَ ، قَالَ: قُلْتُ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ: عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: صَعِدْتُ مَعَهُ غُرْفَةَ الصَّدَقَةِ، فَأَخَذْتُ تَمْرَةً، فَلُكْتُهَا فِي فِيَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلْقِهَا، فَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ".
ربیعہ بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات یاد ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں اس بالاخانے پر چڑھ گیا جہاں صدقہ کے اموال پڑے تھے، میں نے ایک کھجور پکڑ کر اسے اپنے منہ میں چبانا شروع کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے نکال دو، کیونکہ ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ہے۔“
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بیکار کاموں میں کم از کم گفتگو کرے اور انہیں چھوڑ دے۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن لشواهده، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، شعيب بن خالد لم يدرك الحسين بن علي.
محمد بن علی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک جنازہ گذرا، لوگ کھڑے ہو گئے لیکن سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کھڑے نہ ہوئے، اور فرمانے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ تو اس لئے کھڑے ہوئے تھے کہ اس یہودی کی بدبو سے - جس کا جنازہ گذر رہا تھا - تنگ آگئے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، فإن محمد بن على لم يدرك حسيناً ولا ابن عباس.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، وعباد بن عباد , قالا: انبانا هشام بن ابي هشام ، قال عباد: ابن زياد، عن امه ، عن فاطمة ابنة الحسين ، عن ابيها الحسين بن علي ، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" ما من مسلم ولا مسلمة يصاب بمصيبة، فيذكرها، وإن طال عهدها، قال عباد: قدم عهدها، فيحدث لذلك استرجاعا، إلا جدد الله له عند ذلك، فاعطاه مثل اجرها، يوم اصيب بها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، وَعَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ , قَالَا: أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي هِشَامٍ ، قَالَ عَبَّادٌ: ابْنُ زِيَادٍ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ فَاطِمَةَ ابْنَةِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَبِيهَا الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَن النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَا مِنْ مُسْلِمٍ وَلَا مُسْلِمَةٍ يُصَابُ بِمُصِيبَةٍ، فَيَذْكُرُهَا، وَإِنْ طَالَ عَهْدُهَا، قَالَ عَبَّادٌ: قَدُمَ عَهْدُهَا، فَيُحْدِثُ لِذَلِكَ اسْتِرْجَاعًا، إِلَّا جَدَّدَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ ذَلِكَ، فَأَعْطَاهُ مِثْلَ أَجْرِهَا، يَوْمَ أُصِيبَ بِهَا".
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس مسلمان مرد یا عورت کو کوئی مصیبت پہنچے - خواہ اسے گذرے ہوئے کتنا ہی لمبا عرصہ ہوچکا ہو - اور جب بھی اسے وہ یاد آئے، اس پر وہ «إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ» کہہ لیا کرے تو اللہ تعالیٰ اسے اس پر وہی ثواب عطاء فرمائیں گے جو اس مصیبت پہنچنے کے دن پر عطاء فرمایا تھا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً ، هشام بن أبى هشام متروك وأمه مجهولة .
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ کلمات سکھائے ہیں جنہیں میں وتر میں پڑھتا ہوں، اس کے بعد راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، شريك بن عبدالله سيء الحفظ. وقد تقدم الحديث برقم: 1721 فى مسند الحسن بن علي، وهو الصواب.
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اصل بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا تذکرہ ہو اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔“