(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا ابن لهيعة ، اخبرنا موسى بن وردان ، قال: سمعت سعيد بن المسيب ، يقول: سمعت عثمان يخطب على المنبر، وهو يقول: كنت ابتاع التمر من بطن من اليهود يقال لهم: بنو قينقاع، فابيعه بربح الآصع، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا عثمان، إذا اشتريت فاكتل، وإذا بعت فكل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ وَرْدَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَهُوَ يَقُولُ: كُنْتُ أَبْتَاعُ التَّمْرَ مِنْ بَطْنٍ مِنَ الْيَهُودِ يُقَالُ لَهُمْ: بَنُو قَيْنُقَاعٍ، فَأَبِيعُهُ بِرِبْحِ الْآصُعِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا عُثْمَانُ، إِذَا اشْتَرَيْتَ فَاكْتَلْ، وَإِذَا بِعْتَ فَكِلْ".
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے میں یہودیوں کے ایک خاندان اور قبیلہ سے ”جنہیں بنو قینقاع کہا جاتا تھا“، کھجوریں خریدتا تھا اور اپنا منافع رکھ کر آگے بیچ دیتا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا: ”عثمان! جب خریدا کرو تو اسے تول لیا کرو اور جب بیچا کرو تو تول کر بیچا کرو۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، فإنه من قديم حديث ابن لهيعة
(حديث مرفوع) حدثنا بشر بن شعيب بن ابي حمزة ، حدثني ابي ، عن الزهري ، حدثني عروة بن الزبير ، ان عبيد الله بن عدي بن الخيار اخبره، ان عثمان ، قال له: إن النبي صلى الله عليه وسلم، قال له:" إن الله قد بعث محمدا عليه الصلاة والسلام بالحق، فكنت ممن استجاب لله ولرسوله، وآمن بما بعث به محمدا عليه الصلاة والسلام، ثم هاجرت الهجرتين، ونلت صهر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوالله ما عصيته، ولا غششته، حتى توفاه الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُثْمَانَ ، قَالَ لَهُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ مُحَمَّدًا عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ بِالْحَقِّ، فَكُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ، وَآمَنَ بِمَا بَعَثَ بِهِ مُحَمَّدًا عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ، ثُمَّ هَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ، وَنِلْتُ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ، وَلَا غَشَشْتُهُ، حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
عبیداللہ بن عدی بن الخیار کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا:: اللہ و رسول کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں، میں بھی تھا، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان لانے والوں میں، میں بھی تھا، پھر میں نے حبشہ کی طرف دونوں مرتبہ ہجرت کی، مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف بھی حاصل ہوا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت بھی کی ہے، اللہ کی قسم! میں نے نہ کبھی ان کی نافرمانی کی اور نہ ہی دھوکہ دیا، یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو احمد محمد بن عبد الله بن الزبير ، حدثنا سفيان ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن ابي ربيعة ، عن زيد بن علي ، عن ابيه ، عن عبيد الله بن ابي رافع ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة، فقال:" هذا الموقف، وعرفة كلها موقف"، وافاض حين غابت الشمس، ثم اردف اسامة، فجعل يعنق على بعيره، والناس يضربون يمينا وشمالا، يلتفت إليهم، ويقول:" السكينة ايها الناس"، ثم اتى جمعا فصلى بهم الصلاتين: المغرب والعشاء، ثم بات حتى اصبح، ثم اتى قزح، فوقف على قزح، فقال:" هذا الموقف، وجمع كلها موقف"، ثم سار حتى اتى محسرا، فوقف عليه، فقرع ناقته، فخبت حتى جاز الوادي، ثم حبسها، ثم اردف الفضل، وسار حتى اتى الجمرة فرماها، ثم اتى المنحر، فقال:" هذا المنحر، ومنى كلها منحر"، قال: واستفتته جارية شابة من خثعم، فقالت: إن ابي شيخ كبير قد افند، وقد ادركته فريضة الله في الحج، فهل يجزئ عنه ان اؤدي عنه؟ قال:" نعم، فادي عن ابيك"، قال: وقد لوى عنق الفضل، فقال له العباس: يا رسول الله، لم لويت عنق ابن عمك؟ قال:" رايت شابا وشابة فلم آمن الشيطان عليهما"، قال: ثم جاءه رجل، فقال: يا رسول الله، حلقت قبل ان انحر؟ قال:" انحر ولا حرج"، ثم اتاه آخر، فقال: يا رسول الله، إني افضت قبل ان احلق؟ قال:" احلق، او قصر ولا حرج"، ثم اتى البيت فطاف به، ثم اتى زمزم، فقال:" يا بني عبد المطلب، سقايتكم، ولولا ان يغلبكم الناس عليها لنزعت بها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ"، وَأَفَاضَ حِينَ غَابَتْ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَرْدَفَ أُسَامَةَ، فَجَعَلَ يُعْنِقُ عَلَى بَعِيرِهِ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، ثُمَّ أَتَى جَمْعًا فَصَلَّى بِهِمْ الصَّلَاتَيْنِ: الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، ثُمَّ بَاتَ حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ أَتَى قُزَحَ، فَوَقَفَ عَلَى قُزَحَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ"، ثُمَّ سَارَ حَتَّى أَتَى مُحَسِّرًا، فَوَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَرَعَ نَاقَتَهُ، فَخَبَّتْ حَتَّى جَازَ الْوَادِيَ، ثُمَّ حَبَسَهَا، ثُمَّ أَرْدَفَ الْفَضْلَ، وَسَارَ حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا، ثُمَّ أَتَى الْمَنْحَرَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَنْحَرُ، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ"، قَالَ: وَاسْتَفْتَتْهُ جَارِيَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ قَدْ أَفْنَدَ، وَقَدْ أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ، فَهَلْ يُجْزِئُ عَنْهُ أَنْ أُؤَدِّيَ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ، فَأَدِّي عَنْ أَبِيكِ"، قَالَ: وَقَدْ لَوَى عُنُقَ الْفَضْلِ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ:" رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنْ الشَّيْطَانَ عَلَيْهِمَا"، قَالَ: ثُمَّ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ؟ قَالَ:" انْحَرْ وَلَا حَرَجَ"، ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ؟ قَالَ:" احْلِقْ، أَوْ قَصِّرْ وَلَا حَرَجَ"، ثُمَّ أَتَى الْبَيْتَ فَطَافَ بِهِ، ثُمَّ أَتَى زَمْزَمَ، فَقَالَ:" يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، سِقَايَتَكُمْ، وَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمْ النَّاسُ عَلَيْهَا لَنَزَعْتُ بِهَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا: کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اپنے پیچھے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو۔ پھر آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور رات بھر وہیں رہے صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے، وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے، اتنی دیر میں بنوخثعم کی ایک نوجوان عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں وہ تقریباً ختم ہو چکے ہیں لیکن ان پر حج بھی فرض ہے کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کر سکتی ہو“، یہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی گردن موڑ دی (کیونکہ وہ اس عورت کو دیکھنے لگے تھے)۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی گردن کس حکمت کی بنا پر موڑی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ دونوں نوجوان ہیں، مجھے ان کے بارے شیطان سے امن نہ ہوا اس لئے دونوں کا رخ پھیر دیا“، بہرحال تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں نے قربانی کرنے سے پہلے بال کٹوا لیے، اب کیا کروں؟ فرمایا: ”اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں“، ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے حلق سے پہلے طواف زیارت کر لیا، فرمایا: ”کوئی بات نہیں اب حلق یا قصر کرلو۔“ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت کے لئے حرم شریف پہنچے، طواف کیا، زمزم پیا اور فرمایا: ”بنو عبدالمطلب! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہو اگر لوگ تم پر غالب نہ آ جاتے تو میں بھی اس میں سے ڈول کھینچ کھینچ کر نکالتا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا بھی کافی ہے اور بچی کا پیشاب جس چیز پر لگ جائے اسے دھویا جائے گا“، قتادہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک ہے جب انہوں نے کھانا پینا شروع نہ کیا ہو اور جب وہ کھانا پینا شروع کر دیں تو دونوں کا پیشاب جس چیز کو لگ جائے اسے دھونا ہی پڑے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن احمد، قال: حدثني احمد بن عبدة البصري ، حدثنا المغيرة بن عبد الرحمن بن الحارث المخزومي ، حدثني ابي عبد الرحمن بن الحارث ، عن زيد بن علي بن حسين بن علي ، عن ابيه علي بن حسين ، عن عبيد الله بن ابي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم وقف بعرفة وهو مردف اسامة بن زيد، فقال:" هذا الموقف، وكل عرفة موقف"، ثم دفع يسير العنق، وجعل الناس يضربون يمينا وشمالا، وهو يلتفت، ويقول:" السكينة ايها الناس، السكينة ايها الناس"، حتى جاء المزدلفة وجمع بين الصلاتين، ثم وقف بالمزدلفة، فوقف على قزح، واردف الفضل بن عباس، وقال:" هذا الموقف، وكل المزدلفة موقف"، ثم دفع وجعل يسير العنق، والناس يضربون يمينا وشمالا، وهو يلتفت، ويقول:" السكينة، السكينة ايها الناس"، حتى جاء محسرا، فقرع راحلته، فخبت حتى خرج، ثم عاد لسيره الاول، حتى رمى الجمرة، ثم جاء المنحر، فقال:" هذا المنحر، وكل منى منحر"، ثم جاءته امراة شابة من خثعم، فقالت: إن ابي شيخ كبير، وقد افند، وادركته فريضة الله في الحج، ولا يستطيع اداءها، فيجزئ عنه ان اؤديها عنه؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم"، وجعل يصرف وجه الفضل بن العباس عنها، ثم اتاه رجل، فقال: إني رميت الجمرة، وافضت، ولبست ولم احلق؟ قال:" فلا حرج، فاحلق"، ثم اتاه رجل آخر، فقال: إني رميت، وحلقت، ولبست ولم انحر؟ فقال:" لا حرج، فانحر"، ثم افاض رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدعا بسجل من ماء زمزم، فشرب منه وتوضا، ثم قال:" انزعوا يا بني عبد المطلب، فلولا ان تغلبوا عليها لنزعت"، قال العباس: يا رسول الله، إني رايتك تصرف وجه ابن اخيك؟ قال:" إني رايت غلاما شابا، وجارية شابة، فخشيت عليهما الشيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد، قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ بِعَرَفَةَ وَهُوَ مُرْدِفٌ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَكُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ"، ثُمَّ دَفَعَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، وَجَعَلَ النَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، وَهُوَ يَلْتَفِتُ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، حَتَّى جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ وَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ، ثُمَّ وَقَفَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَوَقَفَ عَلَى قُزَحَ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ، وَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ"، ثُمَّ دَفَعَ وَجَعَلَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، وَهُوَ يَلْتَفِتُ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، حَتَّى جَاءَ مُحَسِّرًا، فَقَرَعَ رَاحِلَتَهُ، فَخَبَّتْ حَتَّى خَرَجَ، ثُمَّ عَادَ لِسَيْرِهِ الْأَوَّلِ، حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ، ثُمَّ جَاءَ الْمَنْحَرَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَنْحَرُ، وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ"، ثُمَّ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ، وَقَدْ أَفْنَدَ، وَأَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ، وَلَا يَسْتَطِيعُ أَدَاءَهَا، فَيُجْزِئُ عَنْهُ أَنْ أُؤَدِّيَهَا عَنْهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ"، وَجَعَلَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ عَنْهَا، ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنِّي رَمَيْتُ الْجَمْرَةَ، وَأَفَضْتُ، وَلَبِسْتُ وَلَمْ أَحْلِقْ؟ قَالَ:" فَلَا حَرَجَ، فَاحْلِقْ"، ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: إِنِّي رَمَيْتُ، وَحَلَقْتُ، وَلَبِسْتُ وَلَمْ أَنْحَرْ؟ فَقَالَ:" لَا حَرَجَ، فَانْحَرْ"، ثُمَّ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا بِسَجْلٍ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، فَشَرِبَ مِنْهُ وَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَالَ:" انْزِعُوا يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَوْلَا أَنْ تُغْلَبُوا عَلَيْهَا لَنَزَعْتُ"، قَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَأَيْتُكَ تَصْرِفُ وَجْهَ ابْنِ أَخِيكَ؟ قَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ غُلَامًا شَابًّا، وَجَارِيَةً شَابَّةً، فَخَشِيتُ عَلَيْهِمَا الشَّيْطَانَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اپنے پیچھے سیدنا اسامہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو، پھر آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور رات بھر وہیں رہے صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے، اتنی دیر میں بنوخثعم کی ایک نوجوان عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ تقریباً ختم ہو چکے ہیں لیکن ان پر حج بھی فرض ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کرسکتی ہو“، یہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی گردن موڑ دی (کیونکہ وہ اس عورت کو دیکھنے لگے تھے)۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، طواف زیارت کر لیا، کپڑے پہن لئے لیکن حلق نہیں کروا سکا اب کیا کروں؟ فرمایا: ”اب حلق کرلو، کوئی حرج نہیں“، ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، حلق کروا لیا، کپڑے پہن لئے؟ فرمایا: ”کوئی بات نہیں، اب قربانی کرلو۔“ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت کے لئے حرم شریف پہنچے، طواف کیا، زمزم پیا اور فرمایا: ”بنو عبدالمطلب! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہو، اگر لوگ تم پر غالب نہ آ جاتے تو میں بھی اس میں سے ڈول کھینچ کھینچ کر نکالتا۔“ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اپنے بھتیجے کی گردن کس حکمت کی بناء پر موڑی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ دونوں نوجوان ہیں، مجھے ان کے بارے شیطان سے امن نہ ہوا اس لئے دونوں کا رخ پھیر دیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا إسرائيل ، حدثنا ابو إسحاق ، عن الحارث ، عن علي ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا عوذ مريضا، قال:" اذهب الباس رب الناس، اشف انت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَوَّذَ مَرِيضًا، قَالَ:" أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تو یہ دعا کرتے کہ اے لوگوں کے رب! اس پریشانی اور تکلیف کو دور فرما، اسے شفاء عطاء فرما کیونکہ تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے علاوہ کہیں سے شفاء نہیں مل سکتی، ایسی شفاء جو بیماری کا نام ونشان بھی نہ چھوڑے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، لضعف الحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا إسرائيل ، حدثنا ابو إسحاق ، عن الحارث ، عن علي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو كنت مؤمرا احدا دون مشورة المؤمنين، لامرت ابن ام عبد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ كُنْتُ مُؤَمِّرًا أَحَدًا دُونَ مَشُورَةِ الْمُؤْمِنِينَ، لَأَمَّرْتُ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کو امیر بناتا تو ابن ام عبد یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بناتا۔“
عمرو بن سلیم کی والدہ کہتی ہیں کہ ہم میدان منیٰ میں تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دن کھانے پینے کے ہیں اس لئے ان دنوں میں کوئی شخص روزہ نہ رکھے اور اپنی سواری پر جو کہ اونٹ تھا بیٹھ کر لوگوں میں یہ اعلان کرتے رہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، والظاهر أنه سقط فى هذا الموضع عبدالله بن أبى سلمة بين يزيد بن عبدالله وبين عمرو بن سليم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جو شخص جھوٹا خواب بیان کرتا ہے اسے قیامت کے دن جَو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى