(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا القاسم يعني ابن الفضل ، حدثنا عمرو بن مرة ، عن سالم بن ابي الجعد ، قال: دعا عثمان ناسا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيهم عمار بن ياسر، فقال: إني سائلكم، وإني احب ان تصدقوني، نشدتكم الله: اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يؤثر قريشا على سائر الناس، ويؤثر بني هاشم على سائر قريش؟ فسكت القوم، فقال عثمان: لو ان بيدي مفاتيح الجنة لاعطيتها بني امية حتى يدخلوا من عند آخرهم، فبعث إلى طلحة، والزبير، فقال عثمان: الا احدثكما عنه، يعني عمارا؟ اقبلت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم آخذا بيدي نتمشى في البطحاء، حتى اتى على ابيه وامه وعليه يعذبون، فقال ابو عمار: يا رسول الله، الدهر هكذا؟ فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" اصبر"، ثم قال:" اللهم اغفر لآل ياسر، وقد فعلت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، قَالَ: دَعَا عُثْمَانُ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهِمْ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ، فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكُمْ، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ تَصْدُقُونِي، نَشَدْتُكُمْ اللَّهَ: أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْثِرُ قُرَيْشًا عَلَى سَائِرِ النَّاسِ، وَيُؤْثِرُ بَنِي هَاشِمٍ عَلَى سَائِرِ قُرَيْشٍ؟ فَسَكَتَ الْقَوْمُ، فَقَالَ عُثْمَانُ: لَوْ أَنَّ بِيَدِي مَفَاتِيحَ الْجَنَّةِ لَأَعْطَيْتُهَا بَنِي أُمَيَّةَ حَتَّى يَدْخُلُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ، فَبَعَثَ إِلَى طَلْحَةَ، وَالزُّبَيْرِ، فَقَالَ عُثْمَانُ: أَلَا أُحَدِّثُكُمَا عَنْهُ، يَعْنِي عَمَّارًا؟ أَقْبَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِذًا بِيَدِي نَتَمَشَّى فِي الْبَطْحَاءِ، حَتَّى أَتَى عَلَى أَبِيهِ وَأُمِّهِ وَعَلَيْهِ يُعَذَّبُونَ، فَقَالَ أَبُو عَمَّارٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الدَّهْرَ هَكَذَا؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اصْبِرْ"، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِآلِ يَاسِرٍ، وَقَدْ فَعَلْتُ".
سالم بن ابی الجعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلایاجن میں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے اور فرمایا کہ میں آپ لوگوں سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے چند باتوں کی تصدیق کروانا چاہتا ہوں، میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگ نہیں جانتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگوں کی نسبت قریش کو ترجیح دیتے تھے اور بنو ہاشم کو تمام قریش پر؟ لوگ خاموش رہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میرے ہاتھ میں جنت کی چابیاں ہوں تو میں وہ بنو امیہ کو دے دوں تاکہ وہ سب کے سب جنت میں داخل ہو جائیں (قرابت داروں سے تعلق ہونا ایک فطری چیز ہے، یہ دراصل اس سوال کا جواب تھا جو لوگ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اقرباء پروری کے سلسلے میں کرتے تھے) اس کے بعد انہوں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں آپ کو ان کی یعنی سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کی کچھ باتیں بتاؤں؟ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چلتا چلتا وادی بطحاء میں پہنچا، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے والدین کے پاس جا پہنچے، وہاں انہیں مختلف سزائیں دی جا رہی تھیں، عمار کے والد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم ہمیشہ اسی طرح رہیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: صبر کرو، پھر دعاء فرمائی اے اللہ! آل یاسر کی مغفرت فرما، میں بھی اب صبر کر رہا ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، سالم بن أبى الجعد لم يدرك عثمان. ولقوله : (اللهم اغفر لآل ياسر...) شاهد صحيح من حديث جابر
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حريث بن السائب ، قال: سمعت الحسن ، يقول: حدثني حمران ، عن عثمان بن عفان ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" كل شيء سوى ظل بيت، وجلف الخبز، وثوب يواري عورته، والماء، فما فضل عن هذا فليس لابن آدم فيه حق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حُرَيْثُ بْنُ السَّائِبِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي حُمْرَانُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كُلُّ شَيْءٍ سِوَى ظِلِّ بَيْتٍ، وَجِلْفِ الْخُبْزِ، وَثَوْبٍ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، وَالْمَاءِ، فَمَا فَضَلَ عَنْ هَذَا فَلَيْسَ لِابْنِ آدَمَ فِيهِ حَقٌّ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”گھر کے سائے، خشک روٹی کے ٹکڑے، شرمگاہ کو چھپانے کی بقدر کپڑے اور پانی کے علاوہ جتنی بھی چیزیں ہیں ان میں سے کسی ایک میں بھی انسان کا استحقاق نہیں ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن بكر ، حدثنا حميد الطويل ، عن شيخ من ثقيف ذكره حميد بصلاح، ذكر ان عمه اخبره: انه راى عثمان بن عفان جلس على الباب الثاني من مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدعا بكتف فتعرقها، ثم قام فصلى، ولم يتوضا، ثم قال:" جلست مجلس النبي صلى الله عليه وسلم، واكلت ما اكل النبي صلى الله عليه وسلم، وصنعت ما صنع النبي صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ ، عَنْ شَيْخٍ مِنْ ثَقِيفٍ ذَكَرَهُ حُمَيْدٌ بِصَلَاحٍ، ذَكَرَ أَنَّ عَمَّهُ أخْبَرَهُ: أَنَّهُ رَأَى عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ جَلَسَ عَلَى الْبَابِ الثَّانِي مِنْ مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا بِكَتِفٍ فَتَعَرَّقَهَا، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى، وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، ثُمَّ قَالَ:" جَلَسْتُ مَجْلِسَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكَلْتُ مَا أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَنَعْتُ مَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ایک مرتبہ ایک شخص نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مسجد کے باب ثانی کے پاس بیٹھا ہوا دیکھا، انہوں نے شانے کا گوشت منگوایا اور اس کی ہڈی سے گوشت اتار کر کھانے لگے، پھر یوں ہی کھڑے ہو کر تازہ وضو کئے بغیر نماز پڑھ لی اور فرمایا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح بیٹھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کھایا، وہی کھایا اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، وہی میں نے بھی کیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الشيخ من ثقيف وعمه
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا زهرة بن معبد ، عن ابي صالح مولى عثمان، انه حدثه، قال: سمعت عثمان بمنى، يقول: يا ايها الناس، إني احدثكم حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" رباط يوم في سبيل الله، افضل من الف يوم فيما سواه، فليرابط امرؤ كيف شاء"، هل بلغت؟ قالوا: نعم، قال: اللهم اشهد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بِمِنًى، يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاهُ، فَلْيُرَابِطْ امْرُؤٌ كَيْفَ شَاءَ"، هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ.
ایک مرتبہ ایام حج میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ کے میدان میں فرمایا: لوگو! میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے کہ اللہ کی راہ میں ایک دن کی چوکیداری عام حالات میں ایک ہزار دن سے افضل ہے، اس لئے جو شخص جس طرح چاہے، اس میں حصہ لے، یہ کہہ کر آپ نے فرمایا: کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! فرمایا: اے اللہ تو گواہ رہ۔
ایک مرتبہ ایام حج میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں قصر کی بجائے پوری چار رکعتیں پڑھا دیں، لوگوں کو اس پر تعجب ہوا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! میں مکہ مکرمہ میں آ کر مقیم ہو گیا تھا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی شہر میں مقیم ہو جائے، وہ مقیم والی نماز پڑھے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عكرمة بن إبراهيم وعبدالرحمن بن أبى ذباب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا عبد الله بن لهيعة ، حدثنا موسى بن وردان ، قال: سمعت سعيد بن المسيب ، يقول: سمعت عثمان يخطب على المنبر، وهو يقول: كنت ابتاع التمر من بطن من اليهود يقال لهم: بنو قينقاع، فابيعه بربح، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا عثمان، إذا اشتريت فاكتل، وإذا بعت فكل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ وَرْدَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَهُوَ يَقُولُ: كُنْتُ أَبْتَاعُ التَّمْرَ مِنْ بَطْنٍ مِنَ الْيَهُودِ يُقَالُ لَهُمْ: بَنُو قَيْنُقَاعَ، فَأَبِيعُهُ بِرِبْحٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا عُثْمَانُ، إِذَا اشْتَرَيْتَ فَاكْتَلْ، وَإِذَا بِعْتَ فَكِلْ".
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے میں یہودیوں کے ایک خاندان اور قبیلہ سے جنہیں بنو قینقاع کہا جاتا تھا، کھجوریں خریدتا تھا اور اپنا منافع رکھ کر آگے بیچ دیتا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا: عثمان! جب خریدا کرو تو اسے تول لیا کرو اور جب بیچا کرو تو تول کر بیچا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، فإنه من قديم حديث ابن لهيعة
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص یہ دعا پڑھ لیا کرے اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی «بسم الله الذى لا يضر مع اسمه شيء فى الارض ولا فى السماء وهو السميع العليم» ۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب الخفاف ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن مسلم بن يسار ، عن حمران بن ابان ، ان عثمان بن عفان ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إني لاعلم كلمة لا يقولها عبد حقا من قلبه، إلا حرم على النار" فقال له عمر بن الخطاب : انا احدثك ما هي؟ هي كلمة الإخلاص التي اعز الله تبارك وتعالى بها محمدا صلى الله عليه وسلم واصحابه، وهي كلمة التقوى التي الاص عليها نبي الله صلى الله عليه وسلم عمه ابا طالب عند الموت: شهادة ان لا إله إلا الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الْخَفَّافُ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا عَبْدٌ حَقًّا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حُرِّمَ عَلَى النَّارِ" فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : أَنَا أُحَدِّثُكَ مَا هِيَ؟ هِيَ كَلِمَةُ الْإِخْلَاصِ الَّتِي أَعَزَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِهَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ، وَهِيَ كَلِمَةُ التَّقْوَى الَّتِي أَلَاصَ عَلَيْهَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمَّهُ أَبَا طَالِبٍ عِنْدَ الْمَوْتِ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ جو بندہ بھی اسے دل سے حق سمجھ کر کہے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ میں آپ کو بتاؤں، وہ کلمہ کون سا ہے؟ وہ کلمہ اخلاص ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبر اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر لازم کیا تھا، یہ وہی کلمہ تقویٰ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کے سامنے ان کی موت کے وقت بار بار پیش کیا تھا، یعنی اللہ کی وحدانیت کی گواہی۔
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے مباشرت کرے لیکن انزال نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جس طرح نماز کے لئے وضو کرتا ہے، ایسا ہی وضو کر لے اور اپنی شرمگاہ کو دھو لے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی فرماتے ہوئے سنا ہے، راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہی سوال سیدنا علی، سیدنا زبیر، سیدنا طلحہ اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے پوچھا: تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 179، م: 347، وهذا الحديث منسوخ بحديث أبى بن كعب وأبي هريرة وعائشة