سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کر لیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتا، جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عبدالله بن الهيعة - وإن كان سيء الحفظ - توبع
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا ليث ، حدثني بكير بن عبد الله ، عن بسر بن سعيد ، عن ابن الساعدي المالكي ، انه قال: استعملني عمر بن الخطاب على الصدقة، فلما فرغت منها واديتها إليه، امر لي بعمالة، فقلت له: إنما عملت لله، واجري على الله، قال: خذ ما اعطيت، فإني قد عملت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فعملني، فقلت مثل قولك، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اعطيت شيئا من غير ان تسال، فكل وتصدق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي بُكَيْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ ابْنِ السَّاعِدِيِّ الْمَالِكِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: اسْتَعْمَلَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْهَا وَأَدَّيْتُهَا إِلَيْهِ، أَمَرَ لِي بِعِمَالَةٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّمَا عَمِلْتُ لِلَّهِ، وَأَجْرِي عَلَى اللَّهِ، قَالَ: خُذْ مَا أُعْطِيتَ، فَإِنِّي قَدْ عَمِلْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَمَّلَنِي، فَقُلْتُ مِثْلَ قَوْلِكَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أُعْطِيتَ شَيْئًا مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْأَلَ، فَكُلْ وَتَصَدَّقْ".
عبداللہ بن ساعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے کسی جگہ زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا، جب میں فارغ ہو کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ مال ان کے حوالے کر دیا، تو انہوں نے مجھے تنخواہ دینے کا حکم دیا، میں نے عرض کیا کہ میں نے یہ کام اللہ کی رضا کے لئے کیا ہے اور وہی مجھے اس کا اجر دے گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں جو دیا جائے وہ لے لیا کرو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک مرتبہ میں نے بھی یہی خدمت سرانجام دی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال و دولت عطا فرمایا، میں نے تمہاری والی بات کہہ دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے کھا لیا کرو، ورنہ اسے صدقہ کر دیا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا ليث ، حدثني بكير ، عن عبد الملك بن سعيد الانصاري ، عن جابر بن عبد الله ، عن عمر بن الخطاب ، انه قال: هششت يوما فقبلت، وانا صائم، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: صنعت اليوم امرا عظيما،" قبلت وانا صائم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارايت لو تمضمضت بماء وانت صائم؟ فقلت: لا باس بذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ففيم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي بُكَيْرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنَّهُ قَالَ: هَشَشْتُ يَوْمًا فَقَبَّلْتُ، وَأَنَا صَائِمٌ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: صَنَعْتُ الْيَوْمَ أَمْرًا عَظِيمًا،" قَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ تَمَضْمَضْتَ بِمَاءٍ وَأَنْتَ صَائِمٌ؟ فَقُلْتُ: لَا بَأْسَ بِذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَفِيمَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں بہت خوش تھا، خوشی سے سرشار ہو کر میں نے روزہ کی حالت میں ہی اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، اس کے بعد احساس ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے، میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دے دیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بتاؤ! اگر تم روزے کی حالت میں کلی کر لو تو کیا ہو گا؟“ میں نے عرض کیا: اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے، فرمایا: ”پھر اس میں کہاں سے ہو گا؟“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کر لیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عبدالله بن الهيعة قد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابن يعمر ، قال: قلت لابن عمر: إنا نسافر في الآفاق، فنلقى قوما يقولون: لا قدر، فقال ابن عمر : إذا لقيتموهم فاخبروهم ان عبد الله بن عمر منهم بريء، وانهم منه برآء، ثلاثا، ثم انشا يحدث: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء رجل فذكر من هيئته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ادنه، فدنا، فقال: ادنه، فدنا، فقال: ادنه، فدنا، حتى كاد ركبتاه تمسان ركبتيه، فقال: يا رسول الله، اخبرني ما الإيمان؟ او عن الإيمان، قال:" تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر" قال سفيان: اراه قال:" خيره وشره"، قال: فما الإسلام؟ قال:" إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وحج البيت، وصيام شهر رمضان، وغسل من الجنابة"، كل ذلك، قال: صدقت، صدقت. قال القوم: ما راينا رجلا اشد توقيرا لرسول الله صلى الله عليه وسلم من هذا، كانه يعلم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: يا رسول الله، اخبرني عن الإحسان، قال:" ان تعبد الله، او تعبده كانك تراه، فإن لا تراه، فإنه يراك"، كل ذلك نقول: ما راينا رجلا اشد توقيرا لرسول الله من هذا، فيقول: صدقت صدقت، قال: اخبرني عن الساعة، قال:" ما المسئول عنها باعلم بها من السائل"، قال: فقال: صدقت، قال ذلك مرارا، ما راينا رجلا اشد توقيرا لرسول الله صلى الله عليه وسلم من هذا، ثم ولى، قال سفيان: فبلغني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" التمسوه" فلم يجدوه، قال:" هذا جبريل جاءكم يعلمكم دينكم، ما اتاني في صورة إلا عرفته، غير هذه الصورة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنِ ابْنِ يَعْمَرَ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: إِنَّا نُسَافِرُ فِي الْآفَاقِ، فَنَلْقَى قَوْمًا يَقُولُونَ: لَا قَدَرَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : إِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَأَخْبِرُوهُمْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مِنْهُمْ بَرِيءٌ، وَأَنَّهُمْ مِنْهُ بُرَآءُ، ثَلَاثًا، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَذَكَرَ مِنْ هَيْئَتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ادْنُهْ، فَدَنَا، فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا، فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا، حَتَّى كَادَ رُكْبَتَاهُ تَمَسَّانِ رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي مَا الْإِيمَانُ؟ أَوْ عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ:" تُؤْمِنُ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ" قَالَ سُفْيَانُ: أُرَاهُ قَالَ:" خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ: فَمَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ:" إِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَحَجُّ الْبَيْتِ، وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَغُسْلٌ مِنَ الْجَنَابَةِ"، كُلُّ ذَلِكَ، قَالَ: صَدَقْتَ، صَدَقْتَ. قَالَ الْقَوْمُ: مَا رَأَيْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِيرًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا، كَأَنَّهُ يُعَلِّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، أَوْ تَعْبُدَهُ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَا تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، كُلُّ ذَلِكَ نَقُولُ: مَا رَأَيْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِيرًا لِرَسُولِ اللَّهِ مِنْ هَذَا، فَيَقُولُ: صَدَقْتَ صَدَقْتَ، قَالَ: أَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ بِهَا مِنَ السَّائِلِ"، قَالَ: فَقَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ ذَلِكَ مِرَارًا، مَا رَأَيْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِيرًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا، ثُمَّ وَلَّى، قَالَ سُفْيَانُ: فَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْتَمِسُوهُ" فَلَمْ يَجِدُوهُ، قَالَ:" هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ، مَا أَتَانِي فِي صُورَةٍ إِلَّا عَرَفْتُهُ، غَيْرَ هَذِهِ الصُّورَةِ".
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ ہم لوگ دنیا میں مختلف جگہوں کے سفر پر آتے جاتے رہتے ہیں، ہماری ملاقات بعض ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے جو تقدیر کے منکر ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر تم سے بری ہے اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، پھر انہوں نے اس کا حلیہ بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اسے قریب ہونے کے لئے کہا: چنانچہ وہ اتنا قریب ہوا کہ اس کے گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ کے گھٹنوں سے چھونے لگے، اس نے کہا: یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، جنت و جہنم، قیامت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور تقدیر پر یقین رکھو“، اس نے پھر پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو رمضان کے روزے رکھو اور حج بیت اللہ کرو اور غسل جنابت کرو۔ اس نے پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لئے اس کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کر سکتے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے (اس لئے یہ تصور ہی کر لیا کرو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے)“، اس کے ہر سوال پر ہم یہی کہتے تھے کہ اس سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و توقیر کرنے والا ہم نے کوئی نہیں دیکھا اور وہ باربار کہتا جا رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ اس نے پھر پوچھا: کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: ”جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بےخبر ہیں،“ جب وہ آدمی چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذرا اس آدمی کو بلا کر لانا“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں نکلے تو انہیں وہ نہ ملا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے، اس سے پہلے وہ جس صورت میں بھی آتے تھے میں انہیں پہچان لیتا تھا لیکن اس مرتبہ نہیں پہچان سکا۔“
حدثنا ابو احمد ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابن يعمر ، قال: سالت ابن عمر، او: ساله رجل: إنا نسير في هذه الارض فنلقى قوما يقولون: لا قدر، فقال ابن عمر : إذا لقيت اولئك، فاخبرهم ان عبد الله بن عمر منهم بريء، وهم منه برآء، قالها ثلاث مرات، ثم انشا يحدثنا، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء رجل، فقال: يا رسول الله، ادنو؟ فقال:" ادنه، فدنا رتوة، ثم قال: يا رسول الله، ادنو؟ فقال: ادنه، فدنا رتوة، ثم قال: يا رسول الله، ادنو؟ فقال: ادنه، فدنا رتوة"، حتى كادت ان تمس ركبتاه ركبة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ما الإيمان؟ فذكر معناه.حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنِ ابْنِ يَعْمَرَ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، أَوْ: سَأَلَهُ رَجُلٌ: إِنَّا نَسِيرُ فِي هَذِهِ الْأَرْضِ فَنَلْقَى قَوْمًا يَقُولُونَ: لَا قَدَرَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : إِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مِنْهُمْ بَرِيءٌ، وَهُمْ مِنْهُ بُرَآءُ، قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَدْنُو؟ فَقَالَ:" ادْنُهْ، فَدَنَا رَتْوَةً، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَدْنُو؟ فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا رَتْوَةً، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَدْنُو؟ فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا رَتْوَةً"، حَتَّى كَادَتْ أَنْ تَمَسَّ رُكْبَتَاهُ رُكْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِيمَانُ؟ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا کہ ہم لوگ دنیا میں مختلف جگہوں کے سفر پر آتے جاتے رہتے ہیں، ہماری ملاقات بعض ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے جو تقدیر کے منکر ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر تم سے بری ہے اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، پھر انہوں نے اس کا حلیہ بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اسے قریب ہونے کے لئے کہا: چنانچہ وہ اتنا قریب ہوا کہ اس کے گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ کے گھٹنوں سے چھونے لگے، اس نے کہا: یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص کسی مجاہد کے سر پر سایہ کرے، اللہ قیامت کے دن اس پر سایہ کرے گا، جو شخص مجاہد کو سامان جہاد مہیا کرے یہاں تک کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے، اس کے لئے اس مجاہد کے برابر اجر لکھا جاتا رہے گا اور جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد تعمیر کرے جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے، اللہ جنت میں اس کا گھر تعمیر کرے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عبدالله بن لهيعة قد توبع، وفي إدراك عثمان بن عبدالله بن سراقة لعمر بن الخطاب خلاف
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص سے اس کا رات والی دعاؤں کا معمول کسی وجہ سے چھوٹ جائے اور وہ اسے اگلے دن فجر اور ظہر کے درمیان کسی بھی وقت پڑھ لے تو گویا اس نے اپنا معمول رات ہی کو پورا کیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا خلف بن الوليد ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي ميسرة ، عن عمر بن الخطاب ، قال:" لما نزل تحريم الخمر، قال: اللهم بين لنا في الخمر بيانا شافيا، فنزلت هذه الآية التي في سورة البقرة: يسالونك عن الخمر والميسر قل فيهما إثم كبير سورة البقرة آية 219، قال: فدعي عمر، فقرئت عليه، فقال: اللهم بين لنا في الخمر بيانا شافيا، فنزلت الآية التي في سورة النساء: يايها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وانتم سكارى سورة النساء آية 43، فكان منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اقام الصلاة نادى: ان لا يقربن الصلاة سكران، فدعي عمر، فقرئت عليه، فقال: اللهم بين لنا في الخمر بيانا شافيا، فنزلت الآية التي في المائدة، فدعي عمر، فقرئت عليه، فلما بلغ: فهل انتم منتهون سورة المائدة آية 91 قال: فقال عمر: انتهينا، انتهينا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ:" لَمَّا نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، قَالَ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شَافِيًا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ الَّتِي فِي سُورَةِ الْبَقَرَةِ: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ سورة البقرة آية 219، قَالَ: فَدُعِيَ عُمَرُ، فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شَافِيًا، فَنَزَلَتْ الْآيَةُ الَّتِي فِي سُورَةِ النِّسَاءِ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى سورة النساء آية 43، فَكَانَ مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَقَامَ الصَّلَاةَ نَادَى: أَنْ لَا يَقْرَبَنَّ الصَّلَاةَ سَكْرَانُ، فَدُعِيَ عُمَرُ، فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شَافِيًا، فَنَزَلَتْ الْآيَةُ الَّتِي فِي الْمَائِدَةِ، فَدُعِيَ عُمَرُ، فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ، فَلَمَّا بَلَغَ: فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ سورة المائدة آية 91 قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: انْتَهَيْنَا، انْتَهَيْنَا".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حرمت شراب کا حکم نازل ہونا شروع ہوا تو انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے میں کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، چنانچہ سورت بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی۔ «يسألونك عن الخمر والميسر قل فيهما اثم كبير»”اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! یہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے پوچھتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ ان کا گناہ بہت بڑا ہے۔“ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت سنائی گئی، انہوں نے پھر وہی دعا کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، اس پر سورت نساء کی یہ آیت نازل ہوئی۔ «يا ايها الذين آمنوا لاتقربوا الصلاة وانتم سكاري»”اے ایمان والو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔“ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مؤذن جب اقامت کہتا تو یہ نداء بھی لگاتا کہ نشے میں مدہوش کوئی شخص نماز کے قریب نہ آئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی، لیکن انہوں نے پھر وہی دعا کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، اس پر سورت مائدہ کی آیت نازل ہوئی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر اس کی تلاوت بھی سنائی گئی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم «فهل انتم منتهون» پر پہنچے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم باز آ گئے، ہم باز آ گئے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن ابي وائل ، عن صبي بن معبد : انه كان نصرانيا تغلبيا، فاسلم، فسال: اي العمل افضل؟ فقيل له: الجهاد في سبيل الله عز وجل، فاراد ان يجاهد، فقيل له: احججت؟ قال: لا، فقيل له: حج واعتمر، ثم جاهد، فاهل بهما جميعا، فوافق زيد بن صوحان، وسلمان بن ربيعة، فقالا: هو اضل من ناقته، او: ما هو باهدى من جمله، فانطلق إلى عمر ، فاخبره بقولهما، فقال:" هديت لسنة نبيك صلى الله عليه وسلم، او لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ صُبَيِّ بْنِ مَعْبَدٍ : أَنَّهُ كَانَ نَصْرَانِيًّا تَغْلِبِيًّا، فَأَسْلَمَ، فَسَأَلَ: أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقِيلَ لَهُ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَرَادَ أَنْ يُجَاهِدَ، فَقِيلَ لَهُ: أَحَجَجْتَ؟ قَالَ: لَا، فَقِيلَ لَهُ: حُجَّ وَاعْتَمِرْ، ثُمَّ جَاهِدْ، فَأَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا، فَوَافَقَ زَيْدَ بْنَ صُوحَانَ، وَسَلْمَانَ بْنَ رَبِيعَةَ، فَقَالَا: هُوَ أَضَلُّ مِنْ نَاقَتِهِ، أَوْ: مَا هُوَ بِأَهْدَى مِنْ جَمَلِهِ، فَانْطَلَقَ إِلَى عُمَرَ ، فَأَخْبَرَهُ بِقَوْلِهِمَا، فَقَالَ:" هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابووائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک دیہاتی قبیلہ بنو تغلب کے عیسائی آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا، انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ لوگوں نے بتایا، اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، چنانچہ انہوں نے جہاد کا ارادہ کر لیا، اسی اثناء میں کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے حج کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں! اس نے کہا: آپ پہلے حج اور عمرہ کر لیں، پھر جہاد میں شرکت کریں۔ چنانچہ وہ حج کی نیت سے روانہ ہو گئے اور میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی نے یہ بات سن لی جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہو گئی۔