(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، حدثنا ابو العالية ، عن ابن عباس : حدثني رجال مرضيون فيهم عمر ، وقال عفان مرة: شهد عندي رجال مرضيون، وارضاهم عندي عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا صلاة بعد صلاتين: بعد الصبح حتى تطلع الشمس، وبعد العصر حتى تغرب الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : حَدَّثَنِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فِيهِمْ عُمَرُ ، وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً: شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاتَيْنِ: بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے، جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے دو نمازوں کے بعد کوئی نماز نہیں ہے، فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب : ان اليهود، قالوا لعمر :" إنكم تقرءون آية، لو انزلت فينا، لاتخذنا ذلك اليوم عيدا، فقال: إني لاعلم حيث انزلت، واي يوم انزلت، واين رسول الله صلى الله عليه وسلم حين انزلت، انزلت يوم عرفة ورسول الله صلى الله عليه وسلم واقف بعرفة"، قال سفيان: واشك يوم جمعة او لا، يعني: اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا سورة المائدة آية 3.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ : أَنَّ الْيَهُودَ، قَالُوا لِعُمَرَ :" إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً، لَوْ أُنْزِلَتْ فِينَا، لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، فَقَالَ: إِنِّي لَأَعْلَمُ حَيْثُ أُنْزِلَتْ، وَأَيَّ يَوْمٍ أُنْزِلَتْ، وَأَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَتْ، أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ"، قَالَ سُفْيَانُ: وَأَشُكُّ يَوْمَ جُمُعَةٍ أَوْ لَا، يَعْنِي: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا سورة المائدة آية 3.
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا، امیر المؤمنین! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں جو اگر ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی، (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے آیت تکمیل دین کا حوالہ دیا،) اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا! مجھے علم ہے کہ یہ آیت کس دن اور کس وقت نازل ہوئی تھی، یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جمعہ کے دن عرفہ کی شام نازل ہوئی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، عن ابي موسى ، قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالبطحاء، فقال:" بم اهللت؟" قلت: بإهلال كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" هل سقت من هدي؟" قلت: لا، قال:" طف بالبيت، وبالصفا، والمروة، ثم حل"، فطفت بالبيت، وبالصفا، والمروة، ثم اتيت امراة من قومي فمشطتني، وغسلت راسي، فكنت افتي الناس بذلك بإمارة ابي بكر، وإمارة عمر، فإني لقائم في الموسم إذ جاءني رجل، فقال: إنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في شان النسك، فقلت: ايها الناس، من كنا افتيناه فتيا، فهذا امير المؤمنين قادم عليكم، فبه فاتموا، فلما قدم قلت: ما هذا الذي قد احدثت في شان النسك؟ قال: إن ناخذ بكتاب الله تعالى، فإن الله تعالى، قال: واتموا الحج والعمرة لله سورة البقرة آية 196، وإن ناخذ بسنة نبينا صلى الله عليه وسلم، فإنه لم يحل حتى نحر الهدي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ:" بِمَ أَهْلَلْتَ؟" قُلْتُ: بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هَلْ سُقْتَ مِنْ هَدْيٍ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" طُفْ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حِلَّ"، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَّطَتْنِي، وَغَسَلَتْ رَأْسِي، فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ بِإِمَارَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَإِمَارَةِ عُمَرَ، فَإِنِّي لَقَائِمٌ فِي الْمَوْسِمِ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ، فَقُلْتُ: أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فُتْيَا، فَهَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ، فَبِهِ فَأْتَمُّوا، فَلَمَّا قَدِمَ قُلْتُ: مَا هَذَا الَّذِي قَدْ أَحْدَثْتَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ؟ قَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَالَ: وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ سورة البقرة آية 196، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ.
سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں جب یمن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے احرام کی حالت میں دیکھ کر پوچھا کہ کس نیت سے احرام باندھا؟ میں نے عرض کیا یہ نیت کر کے کہ جس نیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہو، میرا بھی وہی احرام ہے، پھر پوچھا کہ قربانی کا جانور ساتھ لائے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں! فرمایا کہ پھر خانہ کعبہ کا طواف کر کے صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہو جاؤ۔ چنانچہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا، صفا مروہ کے درمیان سعی کی، پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے سر کے بالوں میں کنگھی کی اور میرا سر پانی سے دھویا، بعد میں لوگوں کو بھی حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کے دور خلافت میں یہی مسئلہ بتاتا رہا، ایک دن ایام حج میں، میں کسی جگہ کھڑا ہوا تھا کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نہیں جانتے، امیر المؤمنین نے حج کے معاملات میں کیا نئے احکام جاری کئے ہیں؟ اس پر میں نے کہا: لوگو! ہم نے جسے بھی کوئی فتویٰ دیا ہو، وہ سن لے، یہ امیر المؤمنین موجود ہیں، ان ہی کی اقتداء کرو، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے ان سے پوچھا کہ مناسک حج میں آپ نے یہ کیا نیا حکم جاری کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر ہم قرآن کریم کو لیتے ہیں تو وہ ہمیں اتمام حج و عمرہ کا حکم دیتا ہے اور اگر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوئے۔ (فائدہ: دراصل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرنے کی ممانعت کی تھی، یہاں اسی کا ذکر ہے۔)
سوید بن غفلہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں، میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے جو کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھ پر مہربان دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان . وعبد الرزاق ، انبانا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، قال: قال عمر ، قال عبد الرزاق: سمعت عمر: إن المشركين كانوا لا يفيضون من جمع حتى تشرق الشمس على ثبير، قال عبد الرزاق: وكانوا يقولون: اشرق ثبير كيما نغير يعني، فخالفهم النبي صلى الله عليه وسلم،" فدفع قبل ان تطلع الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ . وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: سَمِعْتُ عُمَرَ: إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ حَتَّى تُشْرِقَ الشَّمْسُ عَلَى ثَبِيرٍ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَكَانُوا يَقُولُونَ: أَشْرِقْ ثَبِيرُ كَيْمَا نُغِيرُ يَعْنِي، فَخَالَفَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے واپس نہیں جاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا اور مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہو گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا مالك ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن ابن عباس ، قال: قال عمر :" إن الله تعالى بعث محمدا صلى الله عليه وسلم، وانزل عليه الكتاب، فكان فيما انزل عليه آية الرجم، فقرانا بها، وعقلناها، ووعيناها، فاخشى ان يطول بالناس عهد، فيقولوا: إنا لا نجد آية الرجم، فتترك فريضة انزلها الله تعالى، وإن الرجم في كتاب الله تعالى حق على من زنى إذا احصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة، او كان الحبل، او الاعتراف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ :" إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَرَأْنَا بِهَا، وَعَقَلْنَاهَا، وَوَعَيْنَاهَا، فَأَخْشَى أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ عَهْدٌ، فَيَقُولُوا: إِنَّا لَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ، فَتُتْرَكَ فَرِيضَةٌ أَنْزَلَهَا اللَّهُ تَعَالَى، وَإِنَّ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أَحْصَنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ إِذَا قَامَتْ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، أَوْ الِاعْتِرَافُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا: ان پر کتاب نازل فرمائی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے پڑھا اور یاد کیا تھا، مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ ہمیں تو رجم سے متعلق کوئی آیت نہیں ملتی اور یوں ایک فریضہ جو اللہ نے نازل کیا ہے چھوٹ جائے، یاد رکھو! کتاب اللہ سے رجم کا ثبوت برحق ہے اس شخص کے لئے جو شادی شدہ ہو خواہ مرد ہو یا عورت جبکہ گواہ موجود ہوں، یا عورت حاملہ ہو گئی ہو یا وہ اعتراف جرم کر لے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عبد الرحمن بن عبد ، عن عمر بن الخطاب ، قال: سمعت هشام بن حكيم يقرا سورة الفرقان في الصلاة على غير ما اقرؤها، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم اقرانيها، فاخذت بثوبه، فذهبت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني سمعته يقرا سورة الفرقان على غير ما اقراتنيها، فقال:" اقرا"، فقرا القراءة التي سمعتها منه، فقال:" هكذا انزلت"، ثم قال لي:" اقرا" فقرات، فقال:" هكذا انزلت، إن هذا القرآن انزل على سبعة احرف، فاقرءوا ما تيسر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي الصَّلَاةِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا، فَأَخَذْتُ بِثَوْبِهِ، فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا، فَقَالَ:" اقْرَأْ"، فَقَرَأَ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهَا مِنْهُ، فَقَالَ:" هَكَذَا أُنْزِلَتْ"، ثُمَّ قَالَ لِي:" اقْرَأْ" فَقَرَأْتُ، فَقَالَ:" هَكَذَا أُنْزِلَتْ، إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ہشام بن حکیم کو نماز میں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے سورت فرقان خود پڑھائی ہے، میں نے اسے سورت فرقان کو ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہشام سے اس کی تلاوت کرنے کے لئے فرمایا: انہوں نے اسی طرح پڑھا جیسے میں نے انہیں سنا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے“، پھر مجھ سے کہا کہ عمر! تم بھی پڑھ کر سناؤ، چنانچہ میں نے بھی پڑھ کر سنا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس طرح بھی نازل ہوئی ہے“، اس کے بعد ارشاد فرمایا: ”بیشک اس قرآن کا نزول سات قرأتوں پر ہوا ہے، لہٰذا تمہارے لئے جو آسان ہو اس کے مطابق تلاوت کر لیا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا عبد الله بن المبارك ، عن معمر ، عن الزهري ، عن السائب بن يزيد ، عن عبد الله بن السعدي ، قال: قال لي عمر : الم احدث انك تلي من اعمال الناس اعمالا، فإذا اعطيت العمالة لم تقبلها؟ قال: نعم، قال: فما تريد إلى ذاك؟ قال: انا غني، لي اعبد ولي افراس، اريد ان يكون عملي صدقة على المسلمين، قال: لا تفعل، فإني كنت افعل مثل الذي تفعل، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطيني العطاء، فاقول: اعطه من هو افقر إليه مني، فقال:" خذه، فإما ان تموله، وإما ان تصدق به، وما آتاك الله من هذا المال، وانت غير مشرف له ولا سائله فخذه، وما لا، فلا تتبعه نفسك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّعْدِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي عُمَرُ : أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا، فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ لَمْ تَقْبَلْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَاكَ؟ قَالَ: أَنَا غَنِيٌّ، لِي أَعْبُدٌ وَلِي أَفْرَاسٌ، أُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: لَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي كُنْتُ أَفْعَلُ مِثْلَ الَّذِي تَفْعَلُ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ:" خُذْهُ، فَإِمَّا أَنْ تَمَوَّلَهُ، وَإِمَّا أَنْ تَصَدَّقَ بِهِ، وَمَا آتَاكَ اللَّهُ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ لَهُ وَلَا سَائِلِهِ فَخُذْهُ، وَمَا لَا، فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
ایک مرتبہ عبداللہ بن سعدی رحمہ اللہ خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: کیا تم وہی ہو جس کے متعلق مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں عوام الناس کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن جب تہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینے سے ناگواری کا اظہار کرتے ہو؟ عبداللہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں! ایسا ہی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ میں نے عرض کیا: میرے پاس اللہ کے فضل سے گھوڑے اور غلام سب ہی کچھ ہے اور میں مالی اعتبار سے بھی صحیح ہوں، اس لئے میری خواہش ہوتی ہے کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے ہی کاموں میں استعمال ہو جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسا مت کرو، کیونکہ ایک مرتبہ میں نے بھی یہی چاہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کر دیتا کہ یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال و دولت عطاء فرمایا، میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے لو اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کردو اور یاد رکھو! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔“