(حديث مرفوع) حدثنا مؤمل ، حدثنا سفيان ، عن سلمة ، عن عمران السلمي ، قال: سالت ابن عباس عن النبيذ، فقال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نبيذ الجر والدباء"، فلقيت ابن عمر فسالته، فاخبرني فيما اظن: عن عمر : ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن نبيذ الجر والدباء"، شك سفيان، قال: فلقيت ابن الزبير، فسالته، فقال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نبيذ الجر والدباء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ ، عَنْ عِمْرَانَ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيذِ، فَقَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ"، فَلَقِيتُ ابْنَ عُمَرَ فَسَأَلْتُهُ، فَأَخْبَرَنِي فِيمَا أَظُنُّ: عَنْ عُمَرَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ"، شَكَّ سُفْيَانُ، قَالَ: فَلَقِيتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ".
عمران اسلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نبیذ اور کدو کی تونبی سے منع فرمایا ہے۔ پھر میں نے یہی سوال سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کی تونبی اور سبز مٹکے سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے یہی سوال سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے اور کدو کی تونبی کی نبیذ سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، مؤمل وإن كان سيء الحفظ - قد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ابي سنان بن آدم ، عن عبيد بن آدم وابي مريم ، وابي شعيب : ان عمر بن الخطاب ، كان بالجابية... فذكر فتح بيت المقدس. قال: قال ابو سلمة: فحدثني ابو سنان، عن عبيد بن آدم، قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول لكعب:" اين ترى ان اصلي؟ فقال: إن اخذت عني صليت خلف الصخرة، فكانت القدس كلها بين يديك، فقال عمر ضاهيت اليهودية، لا، ولكن اصلي حيث صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم"، فتقدم إلى القبلة فصلى، ثم جاء فبسط رداءه، فكنس الكناسة في ردائه، وكنس الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ بن آدم ، عَنْ عبيد بن آدم وأبي مريم ، وأبي شعيب : أن عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، كان بالجابية... فذكر فتح بيت المقدس. قَالَ: قَالَ أبو سلمة: فحدثني أبو سنان، عن عبيد بن آدم، قَالَ: سمعت عمر بن الخطاب يَقُولُ لِكَعْبٍ:" أَيْنَ تُرَى أَنْ أُصَلِّيَ؟ فَقَالَ: إِنْ أَخَذْتَ عَنِّي صَلَّيْتَ خَلْفَ الصَّخْرَةِ، فَكَانَتْ الْقُدْسُ كُلُّهَا بَيْنَ يَدَيْكَ، فَقَالَ عُمَرُ ضَاهَيْتَ الْيَهُودِيَّةَ، لَا، وَلَكِنْ أُصَلِّي حَيْثُ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَتَقَدَّمَ إِلَى الْقِبْلَةِ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَبَسَطَ رِدَاءَهُ، فَكَنَسَ الْكُنَاسَةَ فِي رِدَائِهِ، وَكَنَسَ النَّاسُ".
فتح بیت المقدس کے واقعے میں مختلف رواۃ ذکر کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کعب احبار سے پوچھا کہ آپ کی رائے میں مجھے کہاں نماز پڑھنی چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ اگر آپ میری رائے پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو صخرہ کے پیچھے نماز پڑھیں، اس طرح پورا بیت المقدس آپ کے سامنے ہو گا، فرمایا: تم نے بھی یہودیوں جیسی بات کہی، ایسا نہیں ہو سکتا، میں اس مقام پر نماز پڑھوں گا جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج نماز پڑھی تھی، چنانچہ انہوں نے قبلہ کی طرف بڑھ کر نماز پڑھی، پھر نماز کے بعد اپنی چادر بچھائی اور اپنی چادر میں وہاں کا سارا کوڑا کرکٹ اکٹھا کیا، لوگوں نے بھی ان کی پیروی کی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى سنان وهو عيسي بن سنان الحنفي
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا مالك يعني ابن مغول ، قال: سمعت الفضيل بن عمرو ، عن إبراهيم ، عن عمر ، قال:" سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الكلالة، فقال:" تكفيك آية الصيف"، فقال: لان اكون سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عنها احب إلي من ان يكون لي حمر النعم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ مِغْوَلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عَمْرٍو ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ:" سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَلَالَةِ، فَقَالَ:" تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ"، فَقَالَ: لَأَنْ أَكُونَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي حُمْرُ النَّعَمِ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کلالہ کے متعلق سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لئے موسم گرما میں نازل ہونے والی آیت کلالہ کافی ہے“، مجھے اس مسئلے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنا سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ پسندیدہ تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا سند رجاله ثقات إلا أن إبراهيم النخعي- لم يدرك عمر، م: 567
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر میں ناپاک ہو جاؤں تو کیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ شرمگاہ کو دھو کر نماز والا وضو کر کے سو جاؤ۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا همام ، عن قتادة ، عن قزعة ، قال: قلت لابن عمر :" يعذب الله هذا الميت ببكاء هذا الحي؟" فقال: حدثني عمر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما كذبت على عمر، ولا كذب عمر على رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ قَزَعَةَ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ :" يُعَذِّبُ اللَّهُ هَذَا الْمَيِّتَ بِبُكَاءِ هَذَا الْحَيِّ؟" فَقَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا كَذَبْتُ عَلَى عُمَرَ، وَلَا كَذَبَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ میت کو اہل محلہ کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کریں گے؟ فرمایا کہ یہ بات مجھ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کی ہے، میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی جھوٹی نسبت کی ہے اور نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا الحسن بن عبيد الله ، حدثنا إبراهيم ، عن علقمة ، عن القرثع ، عن قيس او ابن قيس رجل من جعفي، عن عمر بن الخطاب ، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا معه وابو بكر، على عبد الله بن مسعود وهو يقرا، فقام، فسمع قراءته، ثم ركع عبد الله، وسجد، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سل تعطه، سل تعطه"، قال: ثم مضى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال:" من سره ان يقرا القرآن غضا كما انزل، فليقراه من ابن ام عبد"، قال: فادلجت إلى عبد الله بن مسعود لابشره بما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فلما ضربت الباب، او قال: لما سمع صوتي، قال: ما جاء بك هذه الساعة؟ قلت: جئت لابشرك بما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قد سبقك ابو بكر، قلت: إن يفعل فإنه سباق بالخيرات، ما استبقنا خيرا قط إلا سبقنا إليها ابو بكر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ الْقَرْثَعِ ، عَنِ قَيْسٍ أَوْ ابْنِ قَيْسٍ رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ وَأَبُو بَكْرٍ، عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَهُوَ يَقْرَأُ، فَقَامَ، فَسَمِعَ قِرَاءَتَهُ، ثُمَّ رَكَعَ عَبْدُ اللَّهِ، وَسَجَدَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَلْ تُعْطَهْ، سَلْ تُعْطَهْ"، قَالَ: ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ مِنَ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ"، قَالَ: فَأَدْلَجْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ لِأُبَشِّرَهُ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا ضَرَبْتُ الْبَابَ، أَوْ قَالَ: لَمَّا سَمِعَ صَوْتِي، قَالَ: مَا جَاءَ بِكَ هَذِهِ السَّاعَةَ؟ قُلْتُ: جِئْتُ لِأُبَشِّرَكَ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَدْ سَبَقَكَ أَبُو بَكْرٍ، قُلْتُ: إِنْ يَفْعَلْ فَإِنَّهُ سَبَّاقٌ بِالْخَيْرَاتِ، مَا اسْتَبَقْنَا خَيْرًا قَطُّ إِلَّا سَبَقَنَا إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا گزر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا، میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس وقت قرآن پڑھ رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رکوع سجدہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مانگو تمہیں دیا جائے گا“، پھر واپس جاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ رات ہی کو میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چنانچہ جب میں نے ان کا دروازہ بجایا تو انہوں نے فرمایا کہ رات کے اس وقت میں خیر تو ہے؟ میں نے کہا کہ میں آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خوشخبری سنانے کے لئے آیا ہوں، انہوں نے فرمایا: کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ پر سبقت لے گئے ہیں، میں نے کہا: اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو وہ نیکیوں میں بہت زیادہ آگے بڑھنے والے ہیں، میں نے جس معاملے میں بھی ان سے مسابقت کی کوشش کی، وہ ہر اس معاملے میں مجھ سے سبقت لے گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد الجريري ، عن ابي نضرة ، عن اسير بن جابر ، قال: لما اقبل اهل اليمن جعل عمر يستقري الرفاق، فيقول: هل فيكم احد من قرن؟ حتى اتى على قرن، فقال: من انتم؟ قالوا: قرن، فوقع زمام عمر، او: زمام اويس، فناوله احدهما الآخر، فعرفه، فقال عمر: ما اسمك؟ قال: انا اويس، فقال: هل لك والدة؟ قال: نعم، قال: فهل كان بك من البياض شيء؟ قال: نعم، فدعوت الله عز وجل، فاذهبه عني إلا موضع الدرهم من سرتي لاذكر به ربي، قال له عمر: استغفر لي، قال: انت احق ان تستغفر لي، انت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر : إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن خير التابعين رجل يقال له: اويس، وله والدة، وكان به بياض، فدعا الله عز وجل فاذهبه عنه إلا موضع الدرهم في سرته"، فاستغفر له، ثم دخل في غمار الناس، فلم يدر اين وقع، قال: فقدم الكوفة، قال: وكنا نجتمع في حلقة، فنذكر الله، وكان يجلس معنا، فكان إذا ذكر هو وقع حديثه من قلوبنا موقعا لا يقع حديث غيره... فذكر الحديث.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَ أَهْلُ الْيَمَنِ جَعَلَ عُمَرُ يَسْتَقْرِي الرِّفَاقَ، فَيَقُولُ: هَلْ فِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ قَرَنٍ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى قَرَنٍ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: قَرَنٌ، فَوَقَعَ زِمَامُ عُمَرَ، أَوْ: زِمَامُ أُوَيْسٍ، فَنَاوَلَهُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ، فَعَرَفَهُ، فَقَالَ عُمَرُ: مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: أَنَا أُوَيْسٌ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ وَالِدَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ كَانَ بِكَ مِنَ الْبَيَاضِ شَيْءٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَدَعَوْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَذْهَبَهُ عَنِّي إِلَّا مَوْضِعَ الدِّرْهَمِ مِنْ سُرَّتِي لِأَذْكُرَ بِهِ رَبِّي، قَالَ لَهُ عُمَرُ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِي، أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: أُوَيْسٌ، وَلَهُ وَالِدَةٌ، وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ، فَدَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَأَذْهَبَهُ عَنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ الدِّرْهَمِ فِي سُرَّتِهِ"، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، ثُمَّ دَخَلَ فِي غِمَارِ النَّاسِ، فَلَمْ يُدْرَ أَيْنَ وَقَعَ، قَالَ: فَقَدِمَ الْكُوفَةَ، قَالَ: وَكُنَّا نَجْتَمِعُ فِي حَلْقَةٍ، فَنَذْكُرُ اللَّهَ، وَكَانَ يَجْلِسُ مَعَنَا، فَكَانَ إِذَا ذَكَرَ هُوَ وَقَعَ حَدِيثُهُ مِنْ قُلُوبِنَا مَوْقِعًا لَا يَقَعُ حَدِيثُ غَيْرِهِ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل یمن کا وفد آیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی اونٹنی کی رسی تلاش کرتے جاتے تھے اور پوچھتے جاتے تھے کہ کیا تم میں سے کوئی ”قرن“ سے بھی آیا ہے، یہاں تک کہ وہ پوچھتے پوچھتے ”قرن“ کے لوگوں کے پاس آ پہنچے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارا تعلق ”قرن“ سے ہے، اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی یا سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کے ہاتھ سے جانوروں کی لگام چھوٹ کر گر پڑی، ان میں سے ایک نے دوسرے کو اٹھا کر وہ لگام دی تو ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کا اسم گرامی کیا ہے؟ عرض کیا: اویس! فرمایا: کیا آپ کی کوئی والدہ بھی تھیں؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: کیا آپ کے جسم پر چیچک کا بھی کوئی نشان ہے؟ عرض کیا: جی ہاں! لیکن میں نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اسے ختم کر دیا، اب وہ نشان میری ناف کے پاس صرف ایک درہم کے برابر رہ گیا ہے تاکہ اسے دیکھ کر مجھے اپنے رب کی یاد آتی رہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ اللہ سے میرے لئے بخشش کی دعا کیجئے، انہوں نے عرض کیا کہ آپ صحابی رسول ہیں، آپ میرے حق میں بخشش کی دعا کیجئے، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خیرالتابعین اویس نامی ایک آدمی ہو گا، جس کی والدہ بھی ہو گی اور اس کے جسم پر چیچک کے نشانات ہوں گے، پھر جب وہ اللہ سے دعا کرے گا تو ناف کے پاس ایک درہم کے برابر جگہ کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اس بیماری کو اس سے دور فرما دیں گے، سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش کی دعا کی اور لوگوں کے ہجوم میں گھس کر غائب ہو گئے، کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ وہ کہاں چلے گئے۔ بعد میں وہ کوفہ آ گئے تھے، راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ایک حلقہ بنا کر ذکر کیا کرتے تھے، یہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے، جب یہ ذکر کرتے تھے تو ان کی بات ہمارے دلوں پر اتنا اثر کرتی تھی کہ کسی دوسرے کی بات اتنا اثر نہیں کرتی تھی۔
حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا عبد الواحد بن زياد، حدثنا الحسن بن عبيد الله، عن إبراهيم، عن علقمة، عن القرثع، عن قيس او ابن قيس، رجل من جعفي، عن عمر بن الخطاب، فذكر نحو حديث عفان.حَدَّثَنَا عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدِ بْنُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنِ الْقَرْثَعِ، عَنْ قَيْسٍ أَوْ ابْنِ قَيْسٍ، رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَفَّانَ.
گزشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے جو عبارت میں موجود ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، عن انس : ان عمر بن الخطاب لما عولت عليه حفصة، فقال: يا حفصة، اما سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" المعول عليه يعذب". قال: وعول صهيب، فقال عمر: يا صهيب، اما علمت ان المعول عليه يعذب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَمَّا عَوَّلَتْ عَلَيْهِ حَفْصَةُ، فَقَالَ: يَا حَفْصَةُ، أَمَا سَمِعْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُعَوَّلُ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ". قَالَ: وَعَوَّلَ صُهَيْبٌ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا صُهَيْبُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْمُعَوَّلَ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کا آخری وقت قریب آیا تو سیدنا حفصہ رضی اللہ عنہا رونے اور چیخنے لگیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حفصہ! کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جس پر چیخ کر رویا جاتا ہے، اسے عذاب ہوتا ہے؟ اس کے بعد سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ پر بھی ایسی ہی کیفیت طاری ہوئی تو ان سے بھی یہی فرمایا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا، آخرت میں اسے نہیں پہنایا جائے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، أم عمرو ابنة عبدالله روى لها البخاري تعليقاً والنسائي