(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا حميد ، عن انس ، قال: قال عمر :" وافقت ربي في ثلاث، او وافقني ربي في ثلاث، قلت: يا رسول الله، لو اتخذت من مقام إبراهيم مصلى؟ فانزل الله: واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125، قلت: يا رسول الله، إنه يدخل عليك البر والفاجر، فلو امرت امهات المؤمنين بالحجاب، فانزل الله آية الحجاب، وبلغني معاتبة النبي عليه السلام بعض نسائه، قال: فاستقريت امهات المؤمنين، فدخلت عليهن، فجعلت استقريهن واحدة واحدة: والله لئن انتهيتن، وإلا ليبدلن الله رسوله خيرا منكن، قال: فاتيت على بعض نسائه، قالت: يا عمر، اما في رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يعظ نساءه حتى تكون انت تعظهن؟ فانزل الله عز وجل: عسى ربه إن طلقكن ان يبدله ازواجا خيرا منكن سورة التحريم آية 5".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ :" وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، أو وَافَقَنِي رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ اتَّخَذْتَ مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَلَوْ أَمَرْتَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِالْحِجَابِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ، وَبَلَغَنِي مُعَاتَبَةُ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام بَعْضَ نِسَائِهِ، قَالَ: فَاسْتَقْرَيْتُ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِنَّ، فَجَعَلْتُ أَسْتَقْرِيهِنَّ وَاحِدَةً وَاحِدَةً: وَاللَّهِ لَئِنْ انْتَهَيْتُنَّ، وَإِلَّا لَيُبَدِّلَنَّ اللَّهُ رَسُولَهُ خَيْرًا مِنْكُنَّ، قَالَ: فَأَتَيْتُ عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ، قَالَتْ: يَا عُمَرُ، أَمَا فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَعِظُ نِسَاءَهُ حَتَّى تَكُونَ أَنْتَ تَعِظُهُنَّ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ سورة التحريم آية 5".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے۔ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنا لیتے، اس پر یہ آیت نازل ہو گئی کہ مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنالو۔ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، اگر آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دے دیں تو بہتر ہے؟ اس پر اللہ نے آیت حجاب نازل فرما دی۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات سے ناراضگی کا مجھے پتہ چلا، میں ان میں سے ہر ایک کے پاس فرداً فرداً گیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ باز آ جاؤ ورنہ ہو سکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں عطاء کر دے، حتیٰ کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ محترمہ کے پاس گیا تو وہ کہنے لگیں عمر! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں جو تم ان کی بیویوں کو نصیحت کرنے آ گئے ہو؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل فرما دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، حدثني ابو ذبيان ، سمعت عبد الله بن الزبير ، يقول: لا تلبسوا نساءكم الحرير، فإني سمعت عمر يحدث، يقول: عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" من لبس الحرير في الدنيا، لم يلبسه في الآخرة". وقال عبد الله بن الزبير: من عنده ومن لم يلبسه في الآخرة لم يدخل الجنة، قال الله تعالى: ولباسهم فيها حرير سورة الحج آية 23.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي أَبُو ذِبْيَانَ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ ، يَقُولُ: لَا تُلْبِسُوا نِسَاءَكُمْ الْحَرِيرَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يُحَدِّثُ، يَقُولُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ". وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ: مِنْ عِنْدِهِ وَمَنْ لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ لَمْ يَدْخُلْ الْجَنَّةَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ سورة الحج آية 23.
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اپنی عورتوں کو بھی ریشمی کپڑے مت پہنایا کرو کیونکہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے، وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا“، اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے فرمایا کہ جو آخرت میں بھی ریشم نہ پہن سکے وہ جنت میں ہی داخل نہ ہو گا، کیونکہ قرآن میں آتا ہے کہ اہل جنت کا لباس ریشم کا ہو گا۔ (فائدہ: یہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا اپنا اجتہاد تھا، جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ ریشمی کپڑے کی ممانعت مرد کے لئے ہے، عورت کے لئے نہیں۔)
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن إسماعيل ، حدثنا عامر ، وحدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد ، عن رجل ، عن الشعبي ، قال: مر عمر بطلحة، فذكر معناه، قال: مر عمر بطلحة، فرآه مهتما، قال: لعلك ساءك إمارة ابن عمك، قال: يعني ابا بكر، فقال: لا، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إني لاعلم كلمة لا يقولها الرجل عند موته إلا كانت له نورا في صحيفته، او: وجد لها روحا عند الموت"، قال عمر: انا اخبرك بها، هي الكلمة التي اراد بها عمه: شهادة ان لا إله إلا الله، قال: فكانما كشف عني غطاء، قال: صدقت، لو علم كلمة هي افضل منها، لامره بها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ ، وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: مَرَّ عُمَرُ بِطَلْحَةَ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، قَالَ: مَرَّ عُمَرُ بِطَلْحَةَ، فَرَآهُ مُهْتَمًّا، قَالَ: لَعَلَّكَ سَاءَكَ إِمَارَةُ ابْنِ عَمِّكَ، قَالَ: يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ: لَا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا الرَّجُلُ عِنْدَ مَوْتِهِ إِلَّا كَانَتْ لَهُ نُورًا فِي صَحِيفَتِهِ، أَوْ: وَجَدَ لَهَا رَوْحًا عِنْدَ الْمَوْتِ"، قَالَ عُمَرُ: أَنَا أُخْبِرُكَ بِهَا، هِيَ الْكَلِمَةُ الَّتِي أَرَادَ بِهَا عَمَّهُ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: فَكَأَنَّمَا كُشِفَ عَنِّي غِطَاءٌ، قَالَ: صَدَقْتَ، لَوْ عَلِمَ كَلِمَةً هِيَ أَفْضَلُ مِنْهَا، لَأَمَرَهُ بِهَا.
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو انہیں پریشان حال دیکھا، وہ کہنے لگے کہ شاید آپ کو اپنے چچازاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی؟ انہوں نے فرمایا: اللہ کی پناہ! مجھے تو کسی صورت ایسا نہیں کرنا چاہیے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو اس کے لئے روح نکلنے میں سہولت پیدا ہو جائے اور قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو، (مجھے افسوس ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ میں وہ کلمہ جانتا ہوں، (سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے الحمدللہ کہہ کر پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے؟) فرمایا: وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی لا الہ الا اللہ، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا: آپ نے میرے اوپر سے پردہ ہٹا دیا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے افضل بھی کوئی کلمہ جانتے ہوتے تو اپنے چچا کو اس کا حکم دیتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه، عامر بن شراحيل الشعبي لم يدرك عمر، وقد تقدم موصولاً برقم: 187
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن جريج ، حدثني سليمان بن عتيق ، عن عبد الله بن بابيه ، عن يعلى بن امية ، قال: طفت مع عمر بن الخطاب ،" فلما كنت عند الركن الذي يلي الباب مما يلي الحجر، اخذت بيده ليستلم، فقال: اما طفت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلت: بلى، قال: فهل رايته يستلمه؟ قلت: لا، قال: فانفذ عنك، فإن لك في رسول الله اسوة حسنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَتِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَ: طُفْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ،" فَلَمَّا كُنْتُ عِنْدَ الرُّكْنِ الَّذِي يَلِي الْبَابَ مِمَّا يَلِي الْحَجَرَ، أَخَذْتُ بِيَدِهِ لِيَسْتَلِمَ، فَقَالَ: أَمَا طُفْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَهَلْ رَأَيْتَهُ يَسْتَلِمُهُ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَانْفُذْ عَنْكَ، فَإِنَّ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةً حَسَنَةً".
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کر لیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا: تو کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ میں نے کہا: نہیں! فرمایا: پھر اسے چھوڑ دو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ موجود ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يحيى ، عن الاعمش ، حدثنا شقيق ، حدثني الصبي بن معبد ، وكان رجلا من بني تغلب، قال: كنت نصرانيا فاسلمت، فاجتهدت فلم آل، فاهللت بحجة وعمرة، فمررت بالعذيب على سلمان بن ربيعة، وزيد بن صوحان، فقال احدهما: ابهما جميعا؟ فقال له صاحبه: دعه، فلهو اضل من بعيره، قال: فكانما بعيري على عنقي، فاتيت عمر، فذكرت ذلك له، فقال لي عمر : إنهما لم يقولا شيئا،" هديت لسنة نبيك صلى الله عليه وسلم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، حَدَّثَنَا شَقِيقٌ ، حَدَّثَنِي الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، وَكَانَ رَجُلًا مِنْ بَنِي تَغْلِبَ، قَالَ: كُنْتُ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ، فَاجْتَهَدْتُ فَلَمْ آلُ، فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، فَمَرَرْتُ بِالْعُذَيْبِ عَلَى سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَزَيْدِ بْنِ صُوحَانَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: أَبِهِمَا جَمِيعًا؟ فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ: دَعْهُ، فَلَهُوَ أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِهِ، قَالَ: فَكَأَنَّمَا بَعِيرِي عَلَى عُنُقِي، فَأَتَيْتُ عُمَرَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لِي عُمَرُ : إِنَّهُمَا لَمْ يَقُولَا شَيْئًا،" هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابووائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد قبیلہ بنو تغلب کے آدمی تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کر لیا اور محنت کرنے میں کوئی کمی نہ کی۔ پھر میں نے میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے پاس سے مقام عذیب میں میرا گزر ہوا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی کہتے ہیں کہ اس جملے سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرا اونٹ میری گردن پر ہے، میں جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں، آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہو گئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، حدثني نافع ، عن ابن عمر ، عن عمر ، انه قال: يا رسول الله، إني نذرت في الجاهلية ان اعتكف في المسجد الحرام ليلة، فقال له:" فاوف بنذرك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَذَرْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ لَيْلَةً، فَقَالَ لَهُ:" فَأَوْفِ بِنَذْرِكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں ذکر کیا یا رسول اللہ! میں نے زمانہ جاہلیت میں یہ منت مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا، اب کیا کروں؟ فرمایا: اپنی منت پوری کرو۔
حدثنا عبد الرزاق، انبانا سفيان، عن منصور، عن ابي وائل، عن صبي بن معبد التغلبي، قال: كنت حديث عهد بنصرانية، فاردت الجهاد او الحج، فاتيت رجلا من قومي يقال له: هديم، فسالته، فامرني بالحج، فقرنت بين الحج والعمرة.. فذكره.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُور، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ صُبَيِّ بْنِ مَعْبَدٍ التَّغْلِبِيِّ، قَالَ: كُنْتُ حَدِيثَ عَهْدٍ بِنَصْرَانِيَّةٍ، فَأَرَدْتُ الْجِهَادَ أَوْ الْحَجَّ، فَأَتَيْتُ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي يُقَالُ لَهُ: هُدَيْمٌ، فَسَأَلْتُهُ، فَأَمَرَنِي بِالْحَجِّ، فَقَرَنْتُ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ.. فَذَكَرَهُ.
صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں نے نیا نیا عیسائیت کو خیرباد کہا تھا، میں نے ارادہ کیا کہ جہاد یا حج پر روانہ ہو جاؤں، چنانچہ میں نے اپنے ایک ہم قوم سے جس کا نام ”ہدیم“ تھا مشورہ کیا تو اس نے مجھے حج کرنے کو کہا، میں نے حج اور عمرہ دونوں کی نیت کر لی، اس کے بعد انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سفر کی نماز میں دو رکعتیں ہیں، عیدین میں سے ہر ایک کی دو دو رکعتیں اور جمعہ کی بھی دو رکعتیں ہیں اور یہ ساری نمازیں مکمل ہیں، ان میں سے قصر کوئی بھی نہیں ہے جیسا کہ لسان نبوت سے ادا ہو چکا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، رواية عبدالرحمن بن أبى ليلى عن عمر مرسلة، لكنه بين الواسطة بينهما عند غير الإمام أحمد، وهو كعب بن عجرة، فصح الاسناد بذكر كعب
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا هشام بن سعد ، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، عن عمر : انه وجد فرسا كان حمل عليها في سبيل الله تباع في السوق، فاراد ان يشتريها، فسال النبي صلى الله عليه وسلم، فنهاه، وقال:" لا تعودن في صدقتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ : أَنَّهُ وَجَدَ فَرَسًا كَانَ حَمَلَ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ تُبَاعُ فِي السُّوقِ، فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا، فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَاهُ، وَقَالَ:" لَا تَعُودَنَّ فِي صَدَقَتِكَ".
اسلم رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، بعد میں دیکھا کہ وہی گھوڑا بازار میں بک رہا ہے، انہوں نے سوچا کہ اسے خرید لیتا ہوں، چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کر دیا اور فرمایا کہ اسے مت خریدو اور اپنے صدقے سے رجوع مت کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وإسناده حسن، خ: 1490، م: 1620
(حديث موقوف) حدثنا وكيع ، عن ابن ابي خالد ، عن قيس ، قال: رايت عمر وبيده عسيب نخل، وهو يجلس الناس يقول:" اسمعوا لقول خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء مولى لابي بكر يقال له: شديد بصحيفة، فقراها على الناس، فقال: يقول ابو بكر:" اسمعوا واطيعوا لما في هذه الصحيفة، فوالله ما الوتكم". قال قيس: فرايت عمر بعد ذلك على المنبر.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ وَبِيَدِهِ عَسِيبُ نَخْلٍ، وَهُوَ يُجْلِسُ النَّاسَ يَقُولُ:" اسْمَعُوا لِقَوْلِ خَلِيفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ مَوْلًى لِأَبِي بَكْرٍ يُقَالُ لَهُ: شَدِيدٌ بِصَحِيفَةٍ، فَقَرَأَهَا عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: يَقُولُ أَبُو بَكْرٍ:" اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لِمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، فَوَاللَّهِ مَا أَلَوْتُكُمْ". قَالَ قَيْسٌ: فَرَأَيْتُ عُمَرَ بَعْدَ ذَلِكَ عَلَى الْمِنْبَرِ.
قیس کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ اس حال میں دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی اور وہ لوگوں کو بٹھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات توجہ سے سنو، اتنی دیر میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا آزاد کردہ غلام جس کا نام ”شدید“ تھا ایک کاغذ لے کر آ گیا اور اس نے لوگوں کو وہ پڑھ کر سنایا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کاغذ میں جس شخص کا نام درج ہے (وہ میرے بعد خلیفہ ہو گا اس لئے) تم اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا، بخدا! میں نے اس سلسلے میں مکمل احتیاط اور کوشش کر لی ہے، قیس کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر جلوہ افروز دیکھا (جس کا مطلب یہ تھا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کاغذ میں ان ہی کا نام لکھوایا تھا)۔