(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا إسرائيل ، عن سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قال عمر : كنت في ركب اسير في غزاة مع النبي صلى الله عليه وسلم، فحلفت، فقلت: لا وابي، فنهرني رجل من خلفي، وقال:" لا تحلفوا بآبائكم"، فالتفت، فإذا انا برسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : كُنْتُ فِي رَكْبٍ أَسِيرُ فِي غَزَاةٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَلَفْتُ، فَقُلْتُ: لَا وَأَبِي، فَنَهَرَنِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي، وَقَالَ:" لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ"، فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا: «لا وابي» تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤاجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، رواية سماك عن عكرمة فيها اضطراب، خ: 6647، م: 1646
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، عن عمر ، قال: سمعني رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا احلف بابي، فقال:" إن الله ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم"، قال عمر: فوالله ما حلفت بها بعد ذاكرا، ولا آثرا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَحْلِفُ بِأَبِي، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ"، قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا حَلَفْتُ بِهَا بَعْدُ ذَاكِرًا، وَلَا آثِرًا.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے آباؤاجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے منع فرمایا ہے۔“ چنانچہ اس کے بعد میں نے جان بوجھ کر یا نقل کے طور پر بھی ایسی قسم نہیں کھائی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا التيمي ، عن ابي عثمان ، قال: كنا مع عتبة بن فرقد، فكتب إليه عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم، فكان فيما كتب إليه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يلبس الحرير في الدنيا إلا من ليس له في الآخرة منه شيء، إلا هكذا"، وقال بإصبعيه السبابة والوسطى. قال ابو عثمان: فرايت انها ازرار الطيالسة، حين راينا الطيالسة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ فِيمَا كَتَبَ إِلَيْهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا إِلَّا مَنْ لَيْسَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْهُ شَيْءٌ، إِلَّا هَكَذَا"، وَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى. قَالَ أَبُو عُثْمَانَ: فَرَأَيْتُ أَنَّهَا أَزْرَارُ الطَّيَالِسَةِ، حِينَ رَأَيْنَا الطَّيَالِسَةَ.
ابوعثمان کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک خط آ گیا، جس میں لکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں ریشمی لباس پہنتا ہے سوائے اتنی مقدار کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی بلند کر کے دکھائی، اس کا آخرت میں ریشم کے حوالے سے کوئی حصہ نہیں۔“
یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کریم میں قصر کا جو حکم ”خوف“ کی حالت میں آیا ہے، اب تو ہر طرف امن و امان ہو گیا ہے تو کیا یہ حکم ختم ہو گیا؟ (اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں اب تک یہ آیت کیوں موجود ہے؟) تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تمہیں ہوا ہے اور میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے، لہٰذا اس کے صدقے اور مہربانی کو قبول کرو۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يحيى ، عن ابن ابي عروبة ، حدثنا قتادة ، عن سعيد بن المسيب ، قال: قال عمر :" إن آخر ما نزل من القرآن آية الربا، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قبض ولم يفسرها، فدعوا الربا والريبة".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ :" إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ آيَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ وَلَمْ يُفَسِّرْهَا، فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں سب سے آخری آیت سود سے متعلق نازل ہوئی ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وصال مبارک سے قبل اس کی مکمل وضاحت کا موقع نہیں مل سکا، اس لئے سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں ذرا بھی شک ہو اسے بھی چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حسن، سعيد بن المسيب أدرك عمر ولم يسمع منه
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میت کو اس کی قبر میں اس پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن يحيى ، قال: سمعت سعيد بن المسيب : ان عمر ، قال:" إياكم ان تهلكوا عن آية الرجم، وان يقول قائل: لا نجد حدين في كتاب الله، فقد رايت النبي صلى الله عليه وسلم" قد رجم، وقد رجمنا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ يَحْيَى ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ : أَنَّ عُمَرَ ، قَالَ:" إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ، وَأَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: لَا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَدْ رَجَمَ، وَقَدْ رَجَمْنَا".
سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آیت رجم کے حوالے سے اپنے آپ کو ہلاکت میں پڑنے سے بچانا، کہیں کوئی شخص یہ نہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ میں تو ہمیں دو سزاؤں کا تذکرہ نہیں ملتا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی رجم کی سزا جاری کرتے ہوئے دیکھا ہے اور خود ہم نے بھی یہ سزا جاری کی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، سعيد بن السيب لم يسمع من عمر، خ: 2462، م: 1691