سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہو جائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! وضو کر لے اور سو جائے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، اخبرنا هشام ، عن ابيه ، عن عاصم ، عن عمر بن الخطاب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اقبل الليل، وادبر النهار، وغابت الشمس، فقد افطرت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ، وَغَابَتْ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَفْطَرْتَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب رات آ جائے اور دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو تمہیں روزہ افطار کر لینا چاہیے، (مشرق اور مغرب مراد ہے)۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو كامل ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابن شهاب . ح وحدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، المعنى، عن ابي الطفيل عامر بن واثلة : ان نافع بن عبد الحارث لقي عمر بن الخطاب بعسفان، وكان عمر استعمله على مكة، فقال له عمر: من استخلفت على اهل الوادي؟ قال: استخلفت عليهم ابن ابزى، فقال: وما ابن ابزى؟ فقال: رجل من موالينا، فقال عمر: استخلفت عليهم مولى! فقال: إنه قارئ لكتاب الله، عالم بالفرائض، قاض، فقال عمر : اما إن نبيكم صلى الله عليه وسلم، قد قال:" إن الله يرفع بهذا الكتاب اقواما، ويضع به آخرين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، الْمَعْنَى، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ : أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ لَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِعُسْفَانَ، وَكَانَ عُمَرُ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى مَكَّةَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَنْ اسْتَخْلَفْتَ عَلَى أَهْلِ الْوَادِي؟ قَالَ: اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْهِمْ ابْنَ أَبْزَى، فَقَالَ: وَمَا ابْنُ أَبْزَى؟ فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ مَوَالِينَا، فَقَالَ عُمَرُ: اسْتَخْلَفْتَ عَلَيْهِمْ مَوْلًى! فَقَالَ: إِنَّهُ قَارِئٌ لِكِتَابِ اللَّهِ، عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ، قَاضٍ، فَقَالَ عُمَرُ : أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ".
سیدنا عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عسفان نامی جگہ میں نافع بن عبدالحارث کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، سیدنا رضی اللہ عنہ نے انہیں مکہ مکرمہ کا گورنر بنا رکھا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اپنے پیچھے اپنا نائب کسے بنایا؟ انہوں نے کہا: عبدالرحمن بن ابزی کو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ابن ابزی کون ہے؟ عرض کیا، ہمارے موالی میں سے ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کہ تم ایک غلام کو اپنا نائب بنا آئے؟ عرض کیا کہ وہ قرآن کریم کا قاری ہے، علم فرائض و وراثت کو جانتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق فرما گئے ہیں کہ بیشک اللہ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو عزتیں عطا فرمائے گا اور بہت سے لوگوں نیچے کر دے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا إسماعيل بن سميع ، عن مسلم البطين ، عن ابي البختري ، قال: قال عمر لابي عبيدة بن الجراح:" ابسط يدك حتى ابايعك، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: انت امين هذه الامة، فقال ابو عبيدة: ما كنت لاتقدم بين يدي رجل امره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يؤمنا، فامنا حتى مات".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْل ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ سُمَيْعٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ لِأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ:" ابْسُطْ يَدَكَ حَتَّى أُبَايِعَكَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: أَنْتَ أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: مَا كُنْتُ لِأَتَقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ رَجُلٍ أَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَؤُمَّنَا، فَأَمَّنَا حَتَّى مَاتَ".
ابوالبختری کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اپنا ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ اس امت کے امین ہیں، انہوں نے فرمایا: میں اس شخص سے آگے نہیں بڑھ سکتا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری امامت کا حکم دیا ہو اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک ہماری امامت کرتے رہے ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، أبو البختري لم يدرك عمر
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا سفيان ، عن الاعمش ، عن شقيق بن سلمة ، عن سلمان بن ربيعة ، عن عمر ، قال: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسمة، فقلت: يا رسول الله، لغير هؤلاء احق منهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إنهم خيروني بين ان يسالوني بالفحش، او يبخلوني، فلست بباخل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةً، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَغَيْرُ هَؤُلَاءِ أَحَقُّ مِنْهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُمْ خَيَّرُونِي بَيْنَ أَنْ يَسْأَلُونِي بِالْفُحْشِ، أَوْ يُبَخِّلُونِي، فَلَسْتُ بِبَاخِلٍ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کے زیادہ حقدار تو ان لوگوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ا”نہوں نے مجھ سے غیر مناسب طریقے سے سوال کرنے یا مجھے بخیل قرار دینے میں مجھے اختیار دے دیا ہے، حالانکہ میں بخیل نہیں ہوں۔“(فائدہ: مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اہل صفہ کو کچھ نہیں دیا تو اپنے پاس کچھ بچا کر نہیں رکھا اور اگر دوسروں کو دیا ہے تو ان کی ضروریات کو سامنے رکھ کر دیا۔)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہو جائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! نماز والا وضو کر لے اور سو جائے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، عبد الله ابن عمر العمري شيخ عبدالرزاق - وإن كان ضعيفا - توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، قال: راى ابن عمر سعد بن مالك يمسح على خفيه، فقال ابن عمر: وإنكم لتفعلون هذا؟ فقال سعد: نعم، فاجتمعا عند عمر، فقال سعد: يا امير المؤمنين، افت ابن اخي في المسح على الخفين، فقال عمر :" كنا ونحن مع نبينا صلى الله عليه وسلم نمسح على خفافنا، فقال ابن عمر: وإن جاء من الغائط والبول؟ فقال عمر: نعم، وإن جاء من الغائط والبول"، قال نافع: فكان ابن عمر بعد ذلك يمسح عليهما ما لم يخلعهما، وما يوقت لذلك وقتا، فحدثت به معمرا ، فقال: حدثنيه ايوب ، عن نافع مثله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: رَأَى ابْنُ عُمَرَ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَإِنَّكُمْ لَتَفْعَلُونَ هَذَا؟ فَقَالَ سَعْدٌ: نَعَمْ، فَاجْتَمَعَا عِنْدَ عُمَرَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَفْتِ ابْنَ أَخِي فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَ عُمَرُ :" كُنَّا وَنَحْنُ مَعَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَمْسَحُ عَلَى خِفَافِنَا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَإِنْ جَاءَ مِنَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ، وَإِنْ جَاءَ مِنَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ"، قَالَ نَافِعٌ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ بَعْدَ ذَلِكَ يَمْسَحُ عَلَيْهِمَا مَا لَمْ يَخْلَعْهُمَا، وَمَا يُوَقِّتُ لِذَلِكَ وَقْتًا، فَحَدَّثْتُ بِهِ مَعْمَرًا ، فَقَالَ: حَدَّثَنِيهِ أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ مِثْلَهُ.
ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ آپ یہ بھی کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں! پھر وہ دونوں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اکٹھے ہوئے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! ذرا ہمارے بھتیجے کو موزوں پر مسح کا مسئلہ بتا دیجئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم ماضی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور اب بھی موزوں پر مسح کرتے ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اگرچہ کوئی شخص پاخانہ یا پیشاب ہی کر کے آیا ہو؟ فرمایا: ہاں! اگرچہ وہ پاخانہ یا پیشاب ہی کر کے آیا ہو، نافع کہتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی موزوں پر مسح کرنے لگے اور اس وقت تک مسح کرتے رہے جب تک موزے اتار نہ لیتے اور اس کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں فرماتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان ، قال: صرفت عند طلحة بن عبيد الله ورقا بذهب، فقال: انظرني حتى ياتينا خازننا من الغابة، قال: فسمعها عمر بن الخطاب ، فقال: لا والله، لا تفارقه حتى تستوفي منه صرفه، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" الذهب بالورق ربا، إلا هاء وهاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: صَرَفْتُ عِنْدَ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَرِقًا بِذَهَبٍ، فَقَالَ: أَنْظِرْنِي حَتَّى يَأْتِيَنَا خَازِنُنَا مِنَ الْغَابَةِ، قَالَ: فَسَمِعَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ، لَا تُفَارِقُهُ حَتَّى تَسْتَوْفِيَ مِنْهُ صَرْفَهُ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ".
سیدنا مالک بن اوس بن الحدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے سونے کے بدلے چاندی کا معاملہ طے کیا، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ذرا رکیے، ہمارا خازن ”غابہ“ سے آتا ہی ہو گا، یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں! تم اس وقت تک ان سے جدا نہ ہوناجب تک کہ ان سے اپنی چیز وصول نہ کر لو، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کی چاندی کے بدلے خرید و فروخت سود ہے الاّ یہ کہ معاملہ نقد ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، قال: لما ارتد اهل الردة في زمان ابي بكر، قال عمر : كيف تقاتل الناس يا ابا بكر وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فإذا قالوا: لا إله إلا الله، فقد عصموا مني دماءهم واموالهم، إلا بحقها، وحسابهم على الله"؟ فقال ابو بكر: والله لاقاتلن من فرق بين الصلاة والزكاة، فإن الزكاة حق المال، والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، لقاتلتهم عليها، قال عمر: فوالله ما هو إلا ان رايت ان الله قد شرح صدر ابي بكر للقتال، فعرفت انه الحق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، قَالَ: لَمَّا ارْتَدَّ أَهْلُ الرِّدَّةِ فِي زَمَانِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ عُمَرُ : كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ يَا أَبَا بَكْرٍ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقْد عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ"؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَيْهَا، قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ.
عبیداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اہل عرب میں سے جو مرتد ہو سکتے تھے، سو ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کر سکتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ لیں، جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ لے، اس نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، ہاں اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہو گا؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، بخدا! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ جو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرما دی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهو مرسل، رواية عبيدالله بن عبدالله ابن عتبة عن عمر مرسلة، وقد تقدم موصولاً برقم: 117، خ: 1399، م :20