سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص سے اس کا رات والی دعاؤں کا معمول کسی وجہ سے چھوٹ جائے اور وہ اسے اگلے دن فجر اور ظہر کے درمیان کسی بھی وقت پڑھ لے تو گویا اس نے اپنا معمول رات ہی کو پورا کیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نوح قراد ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثنا سماك الحنفي ابو زميل ، حدثني ابن عباس ، حدثني عمر ، قال: لما كان يوم بدر، قال: نظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى اصحابه وهم ثلاث مائة ونيف، ونظر إلى المشركين فإذا هم الف وزيادة، فاستقبل النبي صلى الله عليه وسلم القبلة، ثم مد يده، وعليه رداؤه وإزاره، ثم قال:" اللهم اين ما وعدتني؟ اللهم انجز ما وعدتني، اللهم إن تهلك هذه العصابة من اهل الإسلام، فلا تعبد في الارض ابدا"، قال: فما زال يستغيث ربه، ويدعوه حتى سقط رداؤه، فاتاه ابو بكر، فاخذ رداءه، فرداه ثم التزمه من ورائه، ثم قال: يا نبي الله، كفاك مناشدتك ربك، فإنه سينجز لك ما وعدك، وانزل الله تعالى: إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم اني ممدكم بالف من الملائكة مردفين سورة الانفال آية 9، فلما كان يومئذ، والتقوا، فهزم الله المشركين، فقتل منهم سبعون رجلا، واسر منهم سبعون رجلا، فاستشار رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا بكر، وعليا، وعمر، فقال ابو بكر: يا نبي الله، هؤلاء بنو العم والعشيرة والإخوان، فانا ارى ان تاخذ منهم الفداء، فيكون ما اخذنا منهم قوة لنا على الكفار، وعسى الله عز وجل ان يهديهم فيكونون لنا عضدا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما ترى يا ابن الخطاب؟ فقال: قلت: والله ما ارى ما راى ابو بكر، ولكني ارى ان تمكنني من فلان قريب لعمر، فاضرب عنقه، وتمكن عليا من عقيل، فيضرب عنقه، وتمكن حمزة من فلان اخيه، فيضرب عنقه، حتى يعلم الله انه ليس في قلوبنا هوادة للمشركين، هؤلاء صناديدهم وائمتهم وقادتهم، فهوي رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال ابو بكر، ولم يهو ما قلت، فاخذ منهم الفداء، فلما كان من الغد، قال عمر: غدوت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا هو قاعد وابو بكر، وإذا هما يبكيان، فقلت: يا رسول الله، اخبرني ماذا يبكيك انت وصاحبك؟ فإن وجدت بكاء بكيت، وإن لم اجد بكاء تباكيت لبكائكما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" الذي عرض علي اصحابك من الفداء، ولقد عرض علي عذابكم ادنى من هذه الشجرة" لشجرة قريبة، وانزل الله تعالى: ما كان لنبي ان يكون له اسرى حتى يثخن في الارض إلى قوله لمسكم فيما اخذتم سورة الانفال آية 67 - 68 من الفداء، ثم احل لهم الغنائم، فلما كان يوم احد من العام المقبل، عوقبوا بما صنعوا يوم بدر من اخذهم الفداء، فقتل منهم سبعون، وفر اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم، وكسرت رباعيته، وهشمت البيضة على راسه، وسال الدم على وجهه، فانزل الله: اولما اصابتكم مصيبة قد اصبتم مثليها إلى قوله إن الله على كل شيء قدير سورة آل عمران آية 165، باخذكم الفداء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَنَيِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَإِذَا هُمْ أَلْفٌ وَزِيَادَةٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ، ثُمَّ مَدَّ يَدَهُ، وَعَلَيْهِ رِدَاؤُهُ وَإِزَارُهُ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي؟ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا"، قَالَ: فَمَا زَالَ يَسْتَغِيثُ رَبَّهُ، وَيَدْعُوهُ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ، فَرَدَّاهُ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ، فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ سورة الأنفال آية 9، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُئِذٍ، وَالْتَقَوْا، فَهَزَمَ اللَّهُ الْمُشْرِكِينَ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ، وَعَلِيًّا، وَعُمَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ وَالْإِخْوَانُ، فَأَنَا أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ، فَيَكُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْهُمْ قُوَّةً لَنَا عَلَى الْكُفَّارِ، وَعَسَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَهْدِيَهُمْ فَيَكُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ فَقَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَرَى مَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ، وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَنِي مِنْ فُلَانٍ قَرِيبٍ لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنَ حَمْزَةَ مِنْ فُلَانٍ أَخِيهِ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، حَتَّى يَعْلَمَ اللَّهُ أَنَّهُ لَيْسَ فِي قُلُوبِنَا هَوَادَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ، هَؤُلَاءِ صَنَادِيدُهُمْ وَأَئِمَّتُهُمْ وَقَادَتُهُمْ، فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ، فَأَخَذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ، قَالَ عُمَرُ: غَدَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ، وَإِذَا هُمَا يَبْكِيَانِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي مَاذَا يُبْكِيكَ أَنْتَ وَصَاحِبَكَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنَ الْفِدَاءِ، وَلَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُكُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ" لِشَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ سورة الأنفال آية 67 - 68 مِنَ الْفِدَاءِ، ثُمَّ أُحِلَّ لَهُمْ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ، عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا يَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِهِمْ الْفِدَاءَ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ، وَهُشِمَتْ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا إِلَى قَوْلِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سورة آل عمران آية 165، بِأَخْذِكُمْ الْفِدَاءَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دعا کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعا کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الٰہی! تیرا وعدہ کہاں گیا؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہو گئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔“ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستقل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی رداء مبارک گر گئی، یہ دیکھ کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چمٹ گئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے رب سے بہت دعا کر لی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کر لیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔ جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چنانچہ ان میں سے ستر قتل ہو گئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لئے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر، سیدنا علی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست و بازو بن جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابن خطاب! تمہاری رائے کیا ہے؟“ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو جو عمر کا قریبی رشتہ دار تھا میرے حوالے کر دیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑا دوں، آپ عقیل کو علی کے حوالے کر دیں اور وہ ان کی گردن اڑا دیں، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطا فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لئے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں، جب یہ قتل ہو جائیں گے تو کفر و شرک اپنی موت آپ مر جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) رو رہے ہیں؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آ جائیں تو آپ کا ساتھ دوں ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کر لوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آ رہا ہے اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں۔۔۔ آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔ آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہو گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر منتشر ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہو گئے، خَود کی کڑی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور خون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو گیا؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن ابي ثور ، عن ابن عباس ، قال:" لم ازل حريصا على ان اسال عمر بن الخطاب عن المراتين من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، اللتين قال الله تعالى: إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما سورة التحريم آية 4، حتى حج عمر وحججت معه، فلما كنا ببعض الطريق عدل عمر، وعدلت معه بالإداوة، فتبرز ثم اتاني، فسكبت على يديه، فتوضا، فقلت: يا امير المؤمنين، من المراتان من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم اللتان قال الله تعالى: إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما سورة التحريم آية 4؟ فقال عمر : واعجبا لك يا ابن عباس! قال الزهري: كره، والله، ما ساله عنه ولم يكتمه عنه، قال: هما حفصة، وعائشة، قال ثم اخذ يسوق الحديث، قال: كنا معشر قريش قوما نغلب النساء، فلما قدمنا المدينة وجدنا قوما تغلبهم نساؤهم، فطفق نساؤنا يتعلمن من نسائهم، قال: وكان منزلي في بني امية بن زيد بالعوالي، قال: فغضبت يوما على امراتي، فإذا هي تراجعني، فانكرت ان تراجعني، فقالت: ما تنكر ان اراجعك، فوالله إن ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ليراجعنه، وتهجره إحداهن اليوم إلى الليل، قال: فانطلقت، فدخلت على حفصة، فقلت: اتراجعين رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: نعم، قلت: وتهجره إحداكن اليوم إلى الليل؟ قالت: نعم، قلت: قد خاب من فعل ذلك منكن وخسر، افتامن إحداكن ان يغضب الله عليها لغضب رسوله، فإذا هي قد هلكت؟ لا تراجعي رسول الله ولا تساليه شيئا، وسليني ما بدا لك، ولا يغرنك إن كانت جارتك هي اوسم واحب إلى رسول الله منك، يريد عائشة، قال: وكان لي جار من الانصار، وكنا نتناوب النزول إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فينزل يوما، وانزل يوما، فياتيني بخبر الوحي وغيره، وآتيه بمثل ذلك، قال: وكنا نتحدث ان غسان تنعل الخيل لتغزونا، فنزل صاحبي يوما، ثم اتاني عشاء، فضرب بابي، ثم ناداني فخرجت إليه، فقال: حدث امر عظيم، قلت: وماذا، اجاءت غسان؟ قال: لا، بل اعظم من ذلك واطول، طلق الرسول نساءه، فقلت: قد خابت حفصة وخسرت، قد كنت اظن هذا كائنا، حتى إذا صليت الصبح شددت علي ثيابي، ثم نزلت فدخلت على حفصة وهي تبكي، فقلت: اطلقكن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: لا ادري، هو هذا معتزل في هذه المشربة، فاتيت غلاما له اسود، فقلت: استاذن لعمر، فدخل الغلام ثم خرج إلي، فقال: قد ذكرتك له فصمت، فانطلقت حتى اتيت المنبر، فإذا عنده رهط جلوس يبكي بعضهم، فجلست قليلا، ثم غلبني ما اجد، فاتيت الغلام، فقلت: استاذن لعمر، فدخل الغلام ثم خرج إلي، فقال: قد ذكرتك له فصمت، فخرجت، فجلست إلى المنبر، ثم غلبني ما اجد، فاتيت الغلام، فقلت: استاذن لعمر، فدخل ثم خرج إلي، فقال: قد ذكرتك له فصمت، فوليت مدبرا، فإذا الغلام يدعوني، فقال: ادخل، فقد اذن لك، فدخلت، فسلمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو متكئ على رمل حصير. ح وحدثناه يعقوب ، في حديث صالح ، قال: رمال حصير قد اثر في جنبه، فقلت: اطلقت يا رسول الله نساءك؟ فرفع راسه إلي، وقال:" لا"، فقلت: الله اكبر، لو رايتنا يا رسول الله، وكنا معشر قريش قوما نغلب النساء، فلما قدمنا المدينة، وجدنا قوما تغلبهم نساؤهم، فطفق نساؤنا يتعلمن من نسائهم، فتغضبت على امراتي يوما، فإذا هي تراجعني، فانكرت ان تراجعني، فقالت: ما تنكر ان اراجعك؟ فوالله إن ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم ليراجعنه، وتهجره إحداهن اليوم إلى الليل، فقلت: قد خاب من فعل ذلك منهن وخسر، افتامن إحداهن ان يغضب الله عليها لغضب رسوله، فإذا هي قد هلكت؟ فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، فدخلت على حفصة، فقلت لا يغرك إن كانت جارتك هي اوسم واحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منك، فتبسم اخرى، فقلت: استانس يا رسول الله؟ قال:" نعم"، فجلست، فرفعت راسي في البيت، فوالله ما رايت فيه شيئا يرد البصر، إلا اهبة ثلاثة، فقلت: ادع يا رسول الله ان يوسع على امتك، فقد وسع على فارس، والروم، وهم لا يعبدون الله، فاستوى جالسا، ثم قال:" افي شك انت يا ابن الخطاب؟ اولئك قوم عجلت لهم طيباتهم في الحياة الدنيا"، فقلت: استغفر لي يا رسول الله، وكان اقسم ان لا يدخل عليهن شهرا من شدة موجدته عليهن، حتى عاتبه الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4، حَتَّى حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ عُمَرُ، وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ، فَتَبَرَّزَ ثُمَّ أَتَانِي، فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ، فَتَوَضَّأَ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4؟ فَقَالَ عُمَرُ : وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ! قَالَ الزُّهْرِيُّ: كَرِهَ، وَاللَّهِ، مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ عَنْهُ، قَالَ: هُمَا حَفْصَةُ، وَعَائِشَةُ، قَالَ ثُمَّ أَخَذَ يَسُوقُ الْحَدِيثَ، قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، قَالَ: وَكَانَ مَنْزِلِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ بِالْعَوَالِي، قَالَ: فَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاكُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْكُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ؟ لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا، وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلَا يَغُرَّنَّكِ إِنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ مِنْكِ، يُرِيدُ عَائِشَةَ، قَالَ: وَكَانَ لِي جَارٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْزِلُ يَوْمًا، وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ، قَالَ: وَكُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا، فَنَزَلَ صَاحِبِي يَوْمًا، ثُمَّ أَتَانِي عِشَاءً، فَضَرَبَ بَابِي، ثُمَّ نَادَانِي فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ: وَمَاذَا، أَجَاءَتْ غَسَّانُ؟ قَالَ: لَا، بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَطْوَلُ، طَلَّقَ الرَّسُولُ نِسَاءَهُ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا، حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ نَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: لَا أَدْرِي، هُوَ هَذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرُبَةِ، فَأَتَيْتُ غُلَامًا لَهُ أَسْوَدَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ الْغُلَامُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُ الْمِنْبَرَ، فَإِذَا عِنْدَهُ رَهْطٌ جُلُوسٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ، فَجَلَسْتُ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ الْغُلَامُ ثُمَّ خَرَجَ إِليَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَخَرَجْتُ، فَجَلَسْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا، فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي، فَقَالَ: ادْخُلْ، فَقَدْ أَذِنَ لَكَ، فَدَخَلْتُ، فَسَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ. ح وحَدَّثَنَاه يَعْقُوبُ ، فِي حَدِيثِ صَالِحٍ ، قَالَ: رُمَالِ حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: أَطَلَّقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نِسَاءَكَ؟ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ، وَقَالَ:" لَا"، فَقُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، لَوْ رَأَيْتَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ؟ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاهُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ؟ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ لَا يَغُرُّكِ إِنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَقُلْتُ: أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، فَجَلَسْتُ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فِي الْبَيْتِ، فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ، إِلَّا أَهَبَةً ثَلَاثَةً، فَقُلْتُ: ادْعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ، فَقَدْ وُسِّعَ عَلَى فَارِسَ، وَالرُّومِ، وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ، فَاسْتَوَى جَالِسًا، ثُمَّ قَالَ:" أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا"، فَقُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ، حَتَّى عَاتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی بڑی آرزو تھی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو ازواج مطہرات کے بارے سوال کروں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر تم دونوں توبہ کر لو تو اچھا ہے کیونکہ تمہارے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں۔“ لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی، حتیٰ کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، راستے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے ہٹ کر چلنے لگے، میں بھی پانی کا برتن لے کر ان کے پیچھے چلا گیا، انہوں نے اپنی طبعی ضرورت پوری کی اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وضو کرنے لگے۔ اس دوران مجھے موقع مناسب معلوم ہوا، اس لئے میں نے پوچھ ہی لیا کہ امیر المؤمنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے وہ دو عورتیں کون تھیں جن کے بارے اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم توبہ کر لو تو اچھا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن عباس! حیرانگی کی بات ہے کہ تمہیں یہ بات معلوم نہیں، وہ دونوں عائشہ اور حفصہ تھیں اور فرمایا کہ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے، لیکن جب ہم مدینہ منورہ میں آئے تو یہاں کی عورتیں، مردوں پر غالب نظر آئیں، ان کی دیکھا دیکھی ہماری عورتوں نے بھی ان سے یہ طور طریقے سیکھنا شروع کر دئیے۔ میرا گھر اس وقت عوالی میں بنو امیہ بن زید کے پاس تھا، ایک دن میں نے اپنی بیوی پر غصہ کا اظہار کسی وجہ سے کیا تو وہ الٹا مجھے جواب دینے لگی، مجھے بڑا تعجب ہوا، وہ کہنے لگی کہ میرے جواب دینے پر تو آپ کو تعجب ہو رہا ہے بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی انہیں جواب دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان میں سے کوئی سارا دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات ہی نہیں کرتی۔ یہ سنتے ہی میں اپنی بیٹی حفصہ کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ کیا تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تکرار کرتی ہو؟ انہوں نے اقرار کیا، پھر میں نے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی سارا دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات ہی نہیں کرتی؟ انہوں نے اس پر اقرار کیا، میں نے کہا کہ تم میں سے جو یہ کرتا ہے وہ بڑے نقصان اور خسارے میں ہے، کیا تم لوگ اس بات پر مطمئن ہو کہ اپنے پیغمبر کو ناراض دیکھ کر تم میں سے کسی پر اللہ کا غضب نازل ہو اور وہ ہلاک ہو جائے۔ خبردار! تم آئندہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بات پر نہ تکرار کرنا اور نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا، جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بتا دینا اور اپنی سہیلی یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ چہیتی اور لاڈلی سمجھ کر کہیں تم دھوکے میں نہ رہنا۔ میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم دونوں نے باری مقرر کر رکھی تھی، ایک دن وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ایک دن میں، وہ اپنے دن کی خبریں اور وحی مجھے سنا دیتا اور میں اپنی باری کی خبریں اور وحی اسے سنا دیتا، اس زمانے میں ہم لوگ آپس میں یہ گفتگو ہی کرتے رہتے تھے کہ بنو غسان کے لوگ ہم سے مقابلے کے لئے اپنے گھوڑوں کے نعل ٹھونک رہے ہیں، اس تناظر میں میرا پڑوسی ایک دن عشاء کے وقت میرے گھر آیا اور زور زور سے دروازہ بجایا، پھر مجھے آوازیں دینے لگا، میں جب باہر نکل کر آیا تو وہ کہنے لگا کہ آج تو ایک بڑا اہم واقعہ پیش آیا ہے، میں نے پوچھا کہ کیا بنوغسان نے حملہ کر دیا؟ اس نے کہا: نہیں! اس سے بھی زیادہ اہم واقعہ پیش آیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، میں نے یہ سنتے ہی کہا کہ حفصہ خسارے میں رہ گئی، مجھے پتہ تھا کہ یہ ہو کر رہے گا۔ خیر! فجر کی نماز پڑھ کر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور سیدھا حفصہ کے پاس پہنچا، وہ رو رہی تھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے کچھ خبر نہیں، وہ اس بالاخانے میں اکیلے رہ رہے ہیں، میں وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام ملا، میں نے کہا کہ میرے لئے اندر داخل ہونے کی اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد آ کر کہنے لگا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ذکر کر دیا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ میں وہاں سے آ کر منبر کے قریب پہنچا تو وہاں بھی بہت سے لوگوں کو بیٹھے روتا ہوا پایا، میں بھی تھوڑی دیر کے لئے وہاں بیٹھ گیا، لیکن پھر بے چینی مجھ پر غالب آ گئی اور میں نے دوبارہ اس غلام سے جا کر کہا کہ میرے لئے اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی آ کر کہنے لگا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ذکر کیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، تین مرتبہ اس طرح ہونے کے بعد جب میں واپس جانے لگا تو غلام نے مجھے آواز دی کہ آئیے، آپ کو اجازت مل گئی ہے۔ میں نے اندر داخل ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں جس کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک پر نظر آ رہے ہیں، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا: ”نہیں“، میں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور عرض کیا، یا رسول اللہ! دیکھئے تو سہی، ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہتے تھے، جب مدینہ منورہ پہنچے تو یہاں ایسے لوگوں سے پالا پڑا جن پر ان کی عورتیں غالب رہتی ہیں، ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ان کے طور طریقے سیکھنا شروع کر دیئے، چنانچہ ایک دن میں اپنی بیوی سے کسی بات پر ناراض ہوا، تو وہ الٹا مجھے جواب دینے گئی، مجھے تعجب ہوا، تو وہ کہنے لگی کہ آپ کو میرے جواب دینے تعجب ہو رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی انہیں جواب دیتی ہیں اور سارا سارا دن تک ان سے بات نہیں کرتیں۔ میں نے کہا کہ جو ایسا کرتی ہے وہ نقصان اور خسارے میں ہے، کیا وہ اس بات سے مطمئن رہتی ہیں کہ اگر اپنے پیغمبر کی ناراضگی پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا تو وہ ہلاک نہیں ہوں گی؟ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، میں نے مزید عرض کیا، یا رسول اللہ! اس کے بعد میں حفصہ کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ تو اس بات سے دھوکے میں نہ رہ کہ تیری سہیلی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ چہیتی اور لاڈلی ہے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرائے۔ پھر میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا میں بےتکلف ہو سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، چنانچہ میں نے سر اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانہ اقدس کا جائزہ لینا شروع کر دیا، اللہ کی قسم! مجھے وہاں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس کی طرف بار بار نظریں اٹھیں، سوائے تین کچی کھالوں کے، میں نے یہ دیکھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ آپ کی امت پر وسعت اور کشادگی فرمائے، فارس اور روم جو ”اللہ کی عبادت نہیں کرتے“ ان پر تو بڑی فراخی کی گئی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: ابن خطاب! کیا تم اب تک شک میں مبتلا ہو؟ ان لوگوں کو دنیا میں ہی ساری چیزیں دے دی گئی ہیں، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے لیے بخشش کی دعاء فرما دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل میں یہ قسم کھائی تھی کہ ایک مہینے تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہیں جائیں گے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر سخت غصہ اور غم تھا، تا آنکہ الله تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلے میں وحی نازل فرما دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرني يونس بن سليم ، قال: املى علي يونس بن يزيد الايلي ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عبد الرحمن بن عبد القاري ، سمعت عمر بن الخطاب ، يقول: كان إذا نزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم الوحي، يسمع عند وجهه دوي كدوي النحل، فمكثنا ساعة، فاستقبل القبلة ورفع يديه، فقال:" اللهم زدنا ولا تنقصنا، واكرمنا ولا تهنا، واعطنا ولا تحرمنا، وآثرنا ولا تؤثر علينا، وارض عنا وارضنا"، ثم قال:" لقد انزلت علي عشر آيات، من اقامهن دخل الجنة، ثم قرا علينا: قد افلح المؤمنون سورة المؤمنون آية 1 حتى ختم العشر آيات".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ سُلَيْمٍ ، قَالَ: أَمْلَى عَلَيَّ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ الْأَيْلِيُّ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ ، سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ: كَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ، يُسْمَعُ عِنْدَ وَجْهِهِ دَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ، فَمَكَثْنَا سَاعَةً، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا، وَأَكْرِمْنَا وَلَا تُهِنَّا، وَأَعْطِنَا وَلَا تَحْرِمْنَا، وَآثِرْنَا وَلَا تُؤْثِرْ عَلَيْنَا، وَارْضَ عَنَّا وَأَرْضِنَا"، ثُمَّ قَالَ:" لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ عَشْرُ آيَاتٍ، مَنْ أَقَامَهُنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ، ثُمَّ قَرَأَ عَلَيْنَا: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ سورة المؤمنون آية 1 حَتَّى خَتَمَ الْعَشْرَ آيات".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب نزول وحی ہوتا تو آپ کے روئے انور کے قریب سے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی سی آواز سنائی دیتی تھی، ایک مرتبہ ایسا ہوا تو ہم کچھ دیر کے لئے رک گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر اپنے ہاتھ پھیلائے اور یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ! ہمیں زیادہ عطاء فرما، کمی نہ فرما، ہمیں معزز فرما، ذلیل نہ فرما، ہمیں عطاء فرما، محروم نہ فرما، ہمیں ترجیح دے، دوسروں کو ہم پر ترجیح نہ دے، ہم سے راضی ہو جا اور ہمیں راضی کر دے، اس کے بعد فرمایا کہ مجھ پر ابھی ابھی دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر ان کی پابندی کوئی شخص کر لے، وہ جنت میں داخل ہو گا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت المومنون کی ابتدائی دس آیات کی تلاوت فرمائی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن ابي عبيد مولى عبد الرحمن بن عوف: انه شهد العيد مع عمر بن الخطاب ، فصلى قبل ان يخطب بلا اذان ولا إقامة، ثم خطب، فقال:" يا ايها الناس، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن صيام هذين اليومين، اما احدهما: فيوم فطركم من صيامكم وعيدكم، واما الآخر: فيوم تاكلون فيه من نسككم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أبي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ: أَنَّهُ شَهِدَ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَصَلَّى قَبْلَ أَنْ يَخْطُبَ بِلَا أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، ثُمَّ خَطَبَ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ، أَمَّا أَحَدُهُمَا: فَيَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ وَعِيدُكُمْ، وَأَمَّا الْآخَرُ: فَيَوْمٌ تَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ نُسُكِكُمْ".
ابوعبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے خطبہ سے پہلے بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو دنوں کے روزے سے منع فرمایا ہے، عیدالفطر کے دن تو اس لئے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحیٰ کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکو۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الله بن عمر العمري، لكنه قد توبع، خ: 1597، م: 1270
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرني سيار ، عن ابي وائل : ان رجلا كان نصرانيا يقال له: الصبي بن معبد ، اسلم، فاراد الجهاد، فقيل له: ابدا بالحج، فاتى الاشعري، فامره ان يهل بالحج والعمرة جميعا، ففعل، فبينما هو يلبي، إذ مر يزيد بن صوحان، وسلمان بن ربيعة، فقال احدهما لصاحبه: لهذا اضل من بعير اهله، فسمعها الصبي، فكبر ذلك عليه، فلما قدم اتى عمر، فذكر ذلك له، فقال له عمر :" هديت لسنة نبيك، قال: وسمعته مرة اخرى يقول: وفقت لسنة نبيك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنِي سَيَّارٌ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ : أَنَّ رَجُلًا كَانَ نَصْرَانِيًّا يُقَالُ لَهُ: الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، أسلم، فأراد الجهاد، فقيل له: ابْدَأْ بِالْحَجِّ، فَأَتَى الْأَشْعَرِيَّ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُهِلَّ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ جَمِيعًا، فَفَعَلَ، فَبَيْنَمَا هُوَ يُلَبِّي، إِذْ مَرَّ يَزِيدُ بْنُ صُوحَانَ، وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: لَهَذَا أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِ أَهْلِهِ، فَسَمِعَهَا الصُّبَيُّ، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمَ أَتَى عُمَرَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ :" هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ، قَالَ: وَسَمِعْتُهُ مَرَّةً أُخْرَى يَقُولُ: وُفِّقْتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ".
سیدنا ابووائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک عیسائی آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا، انہوں نے جہاد کا ارادہ کر لیا، اسی اثناء میں کسی نے کہا: آپ پہلے حج کر لیں، پھر جہاد میں شرکت کریں۔ چنانچہ وہ اشعری کے پاس آئے، انہوں نے صبی کو حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھ لینے کا حکم دیا، انہوں نے ایسا ہی کیا، وہ یہ تلبیہ پڑھتے ہوئے، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے پاس سے گزرے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی نے یہ بات سن لی اور ان پر بہت بوجھ بنی، جب وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہو گئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عمر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يسمر عند ابي بكر الليلة كذاك في الامر من امر المسلمين، وانا معه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ كَذَاكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنَا مَعَهُ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ روزانہ رات کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس مسلمانوں کے معاملات میں مشورے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ میں بھی اس موقع پر موجود تھا۔
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں، میں جانتاہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، لیکن میں تجھے پھر بھی بوسہ دے رہا ہوں، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔