(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا المسعودي ، عن حكيم بن جبير ، عن موسى بن طلحة ، عن ابن الحوتكية ، قال: اتي عمر بن الخطاب بطعام، فدعا إليه رجلا، فقال: إني صائم، ثم قال: واي الصيام تصوم؟ لولا كراهية ان ازيد او انقص لحدثتكم بحديث النبي صلى الله عليه وسلم حين جاءه الاعرابي بالارنب، ولكن ارسلوا إلى عمار، فلما جاء عمار، قال: اشاهد انت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم جاءه الاعرابي بالارنب؟ قال: نعم، فقال: إني رايت بها دما، فقال:" كلوها، قال: إني صائم، قال: واي الصيام تصوم؟ قال: اول الشهر وآخره، قال: إن كنت صائما، فصم الثلاث عشرة، والاربع عشرة، والخمس عشرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنِ ابْنِ الْحَوْتَكِيَّةِ ، قَالَ: أُتِيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِطَعَامٍ، فَدَعَا إِلَيْهِ رَجُلًا، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ: وَأَيُّ الصِّيَامِ تَصُومُ؟ لَوْلَا كَرَاهِيَةُ أَنْ أَزِيدَ أَوْ أَنْقُصَ لَحَدَّثْتُكُمْ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَاءَهُ الْأَعْرَابِيُّ بِالْأَرْنَبِ، وَلَكِنْ أَرْسِلُوا إِلَى عَمَّارٍ، فَلَمَّا جَاءَ عَمَّارٌ، قَالَ: أَشَاهِدٌ أَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جَاءَهُ الْأَعْرَابِيُّ بِالْأَرْنَبِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ بِهَا دَمًا، فَقَالَ:" كُلُوهَا، قَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: وَأَيُّ الصِّيَامِ تَصُومُ؟ قَالَ: أَوَّلَ الشَّهْرِ وَآخِرَهُ، قَالَ: إِنْ كُنْتَ صَائِمًا، فَصُمْ الثَّلَاثَ عَشْرَةَ، وَالْأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَالْخَمْسَ عَشْرَةَ".
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، انہوں نے ایک آدمی کو شرکت کی دعوت دی، اس نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، فرمایا: تم کون سے روزے رکھ رہے ہو؟ اگر کمی بیشی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بیان کرتا جب ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خرگوش لے کر حاضر ہوا، تم ایسا کرو کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو بلا کر لاؤ۔ جب سیدنا عمار رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے جب ایک دیہاتی ایک خرگوش لے کر آیا تھا؟ فرمایا: جی ہاں! میں نے اس پر خون لگا ہوا دیکھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کھاؤ“، وہ کہنے لگا کہ میرا روزہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیسا روزہ؟“ اس نے کہا کہ میں ہر ماہ کی ابتداء اور اختتام پر روزہ رکھتا ہوں، فرمایا: ”اگر تم روزہ رکھنا ہی چاہتے ہو تو نفلی روزے کے لئے مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا انتخاب کیا کرو۔“
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف، المسعودي كان قد اختلط، ورواية أبى النضر عنه بعد الاختلاط، وحكيم بن جبير ضعيف لكنه توبع، وابن الحوتكية لم يرو عنه سوى موسى بن طلحة
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا ابو عقيل ، حدثنا مجالد بن سعيد ، اخبرنا عامر ، عن مسروق بن الاجدع ، قال: لقيت عمر بن الخطاب، فقال لي: من انت؟ قلت: مسروق بن الاجدع، فقال عمر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" الاجدع شيطان"، ولكنك مسروق بن عبد الرحمن، قال عامر: فرايته في الديوان مكتوبا: مسروق بن عبد الرحمن، فقلت: ما هذا؟ فقال: هكذا سماني عمر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ ، حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ ، أَخْبَرَنَا عَامِرٌ ، عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ ، قَالَ: لَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لِي: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ، فَقَالَ عُمَرُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْأَجْدَعُ شَيْطَانٌ"، وَلَكِنَّكَ مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ عَامِرٌ: فَرَأَيْتُهُ فِي الدِّيوَانِ مَكْتُوبًا: مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: هَكَذَا سَمَّانِي عُمَرُ.
مسروق بن اجدع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں مسروق بن اجدع ہوں، فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اجدع شیطان کا نام ہے، اس لئے تمہارا نام مسروق بن عبدالرحمن ہے، عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ان کے رجسٹر میں ان کا نام مسروق بن عبدالرحمن لکھا ہوا دیکھا تو ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے میرا یہ نام رکھا تھا۔
اسلم ”جو کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے“ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو جو بستی اور شہر بھی مفتوح ہو گا، میں اسے فاتحین کے درمیان تقسیم کر دیا کروں گا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم فرما دیا تھا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا «لا وابي» تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، رواية سماك عن عكرمة فيها اضطراب، خ: 6647، م:1646
سیار بن معرور کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اس مسجد کی تعمیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے ساتھ مل کر فرمائی ہے، اگر رش زیادہ ہو جائے تو (مسجد کی کمی کو مورد التزام ٹھہرانے کی بجائے) اپنے بھائی کی پشت پر سجدہ کر لیا کرو، اسی طرح ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو راستے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ مسجد میں نماز پڑھا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سيار بن معرور - وإن لم يرو عنه غير سماك، ولم يوثقه غير ابن حبان قد توبع
(حديث موقوف) قرات على قرات على يحيى بن سعيد : زهير ، قال: حدثنا ابو إسحاق ، عن حارثة بن مضرب : انه حج مع عمر بن الخطاب ، فاتاه اشراف اهل الشام، فقالوا: يا امير المؤمنين،" إنا اصبنا من اموالنا رقيقا ودواب، فخذ من اموالنا صدقة تطهرنا بها، وتكون لنا زكاة، فقال: هذا شيء لم يفعله اللذان كانا من قبلي، ولكن انتظروا حتى اسال المسلمين".(حديث موقوف) قَرَأْتُ عَلَى قَرَأْتُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ : زهير ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ : أَنَّهُ حَجَّ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَأَتَاهُ أَشْرَافُ أَهْلِ الشَّامِ، فَقَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ،" إِنَّا أَصَبْنَا مِنْ أَمْوَالِنَا رَقِيقًا وَدَوَابَّ، فَخُذْ مِنْ أَمْوَالِنَا صَدَقَةً تُطَهِّرُنَا بِهَا، وَتَكُونُ لَنَا زَكَاةً، فَقَالَ: هَذَا شَيْءٌ لَمْ يَفْعَلْهُ اللَّذَانِ كَانَا مِنْ قَبْلِي، وَلَكِنْ انْتَظِرُوا حَتَّى أَسْأَلَ الْمُسْلِمِينَ".
حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ انہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کا شرف حاصل ہوا، شام کے کچھ معززین ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے، امیرالمومنین! ہمیں کچھ غلام اور جانور ملے ہیں، آپ ہمارے مال سے زکوٰۃ وصول کر لیجئے تاکہ ہمارا مال پاک ہو جائے اور وہ ہمارے لئے پاکیزگی کا سبب بن جائے، فرمایا: یہ کام تو مجھ سے پہلے میرے دو پیشرو حضرات نے نہیں کیا، میں کیسے کر سکتا ہوں البتہ ٹھہرو! میں مسلمانوں سے مشورہ کر لیتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، زهير روي عن أبى إسحاق السبيعي بعد ما تغير، لكنه توبع
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں زندہ رہا تو جزیرہ عرب سے یہود و نصاریٰ کو نکال کر رہوں گا، یہاں تک کہ جزیرہ عرب میں مسلمان کے علاوہ کوئی نہ رہے گا۔“