مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 120
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان الحكم بن نافع ، حدثنا ابو بكر بن عبد الله ، عن راشد بن سعد ، عن حمزة بن عبد كلال ، قال: سار عمر بن الخطاب إلى الشام بعد مسيره الاول كان إليها، حتى إذا شارفها، بلغه ومن معه ان الطاعون فاش فيها، فقال له اصحابه: ارجع ولا تقحم عليه، فلو نزلتها وهو بها لم نر لك الشخوص عنها، فانصرف راجعا إلى المدينة، فعرس من ليلته تلك، وانا اقرب القوم منه، فلما انبعث، انبعثت معه في اثره، فسمعته يقول: ردوني عن الشام بعد ان شارفت عليه، لان الطاعون فيه، الا وما منصرفي عنه بمؤخر في اجلي، وما كان قدوميه بمعجلي عن اجلي، الا ولو قد قدمت المدينة ففرغت من حاجات لا بد لي منها فيها، لقد سرت حتى ادخل الشام، ثم انزل حمص، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ليبعثن الله منها يوم القيامة سبعين الفا لا حساب عليهم ولا عذاب عليهم، مبعثهم فيما بين الزيتون، وحائطها في البرث الاحمر منها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ حُمْزةَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ ، قَالَ: سَارَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى الشَّامِ بَعْدَ مَسِيرِهِ الْأَوَّلِ كَانَ إِلَيْهَا، حَتَّى إِذَا شَارَفَهَا، بَلَغَهُ وَمَنْ مَعَهُ أَنَّ الطَّاعُونَ فَاشٍ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: ارْجِعْ وَلَا تَقَحَّمْ عَلَيْهِ، فَلَوْ نَزَلْتَهَا وَهُوَ بِهَا لَمْ نَرَ لَكَ الشُّخُوصَ عَنْهَا، فَانْصَرَفَ رَاجِعًا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَعَرَّسَ مِنْ لَيْلَتِهِ تِلْكَ، وَأَنَا أَقْرَبُ الْقَوْمِ مِنْهُ، فَلَمَّا انْبَعَثَ، انْبَعَثْتُ مَعَهُ فِي أَثَرِهِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: رَدُّونِي عَنِ الشَّامِ بَعْدَ أَنْ شَارَفْتُ عَلَيْهِ، لِأَنَّ الطَّاعُونَ فِيهِ، أَلَا وَمَا مُنْصَرَفِي عَنْهُ بمُؤَخِّرٌ فِي أَجَلِي، وَمَا كَانَ قُدُومِيهِ بمُعَجِّلِي عَنْ أَجَلِي، أَلَا وَلَوْ قَدْ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَفَرَغْتُ مِنْ حَاجَاتٍ لَا بُدّ لِي مِنْهَا فيها، لَقَدْ سِرْتُ حَتَّى أَدْخُلَ الشَّامَ، ثُمَّ أَنْزِلَ حِمْصَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ مِنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ عَلَيْهِمْ، مَبْعَثُهُمْ فِيمَا بَيْنَ الزَّيْتُونِ، وَحَائِطِهَا فِي الْبَرْثِ الْأَحْمَرِ مِنْهَا".
حمرہ بن عبد کلال کہتے ہیں کہ پہلے سفر شام کے بعد ایک مرتبہ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے، جب اس کے قریب پہنچے تو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو یہ خبر ملی کی شام میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، ساتھیوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہیں سے واپس لوٹ چلیے، آگے مت بڑھیے، اگر آپ وہاں چلے گئے اور واقعی یہ وباء وہاں پھیلی ہوئی ہو تو ہمیں آپ کو وہاں سے منتقل کرنے کی کوئی صورت پیش نہیں آئے گی۔ چنانچہ مشورہ کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ واپس آ گئے، اس رات جب آپ نے آخری پہر میں پڑاؤ ڈالا تو میں آپ کے سب سے زیادہ قریب تھا، جب وہ اٹھے تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے اٹھ گیا، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں شام کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن یہ لوگ مجھے وہاں سے اس بناء پر واپس لے آئے کہ وہاں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہے، حالانکہ وہاں سے واپس آ جانے کی بناء پر میری موت کے وقت میں تو تاخیر ہو نہیں سکتی اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ میری موت کا پیغام جلد آ جائے، اس لئے اب میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر میں مدینہ منورہ پہنچ کر ان تمام ضروری کاموں سے فارغ ہو گیا جن میں میری موجودگی ضروری ہے تو میں شام کی طرف دوبارہ ضرور روانہ ہوں گا اور شہر حمص میں پڑاؤ کروں گا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے ستر ہزار ایسے بندوں کو اٹھائے گا جن کا نہ حساب ہو گا اور نہ ہی عذاب اور ان کے اٹھائے جانے کی جگہ زیتون کے درخت اور سرخ و نرم زمین میں اس کے باغ کے درمیان ہو گی۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى بكر بن عبد الله وحمرة بن عبد كلال
حدیث نمبر: 121
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن يزيد ، اخبرنا حيوة ، اخبرنا ابو عقيل ، عن ابن عمه ، عن عقبة بن عامر : انه خرج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما يحدث اصحابه، فقال:" من قام إذا استقلت الشمس فتوضا، فاحسن الوضوء، ثم قام فصلى ركعتين، غفر له خطاياه، فكان كما ولدته امه". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قال عقبة بن عامر: فقلت: الحمد لله الذي رزقني ان اسمع هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي عمر بن الخطاب، وكان تجاهي جالسا: اتعجب من هذا؟ فقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اعجب من هذا قبل ان تاتي، فقلت: وما ذاك بابي انت وامي؟ فقال عمر : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من توضا فاحسن الوضوء، ثم رفع نظره إلى السماء، فقال: اشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له، واشهد ان محمدا عبده ورسوله، فتحت له ثمانية ابواب الجنة، يدخل من ايها شاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَقِيلٍ ، عَنِ ابْنِ عَمِّهِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ : أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا يُحَدِّثُ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ:" مَنْ قَامَ إِذَا اسْتَقَلَّتْ الشَّمْسُ فَتَوَضَّأَ، فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، غُفِرَ لَهُ خَطَايَاهُ، فَكَانَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ: فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي أَنْ أَسْمَعَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَكَانَ تُجَاهِي جَالِسًا: أَتَعْجَبُ مِنْ هَذَا؟ فَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْجَبَ مِنْ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَ، فَقُلْتُ: وَمَا ذَاكَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ فَقَالَ عُمَرُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ رَفَعَ نَظَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فُتِحَتْ لَهُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ تبوک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کے ساتھ حدیث بیان کرنے کے لئے بیٹھے اور فرمایا: جو شخص استقلال شمس کے وقت کھڑا ہو کر خوب اچھی طرح وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھ لے، اس کے سارے گناہ اس طرح معاف کر دئیے جائیں گے گویا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو، سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سننے کی توفیق عطا فرمائی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس مجلس میں سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، وہ فرمانے لگے کہ کیا آپ کو اس پر تعجب ہو رہا ہے؟ آپ کے آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی زیادہ عجیب بات فرمائی تھی، میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر فداء ہوں، وہ کیا بات تھی؟ فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا: جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے اور یہ کہے «اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله» اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره إلا الشطر الأول، وقوله : (ثم رفع نظره إلى السماء) ضعيف ليس له شاهد، وهذا إسناد ضعيف لجهالة ابن عم أبى عقيل
حدیث نمبر: 122
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود يعني ابا داود الطيالسي ، قال: حدثنا ابو عوانة ، عن داود الاودي ، عن عبد الرحمن المسلي ، عن الاشعث بن قيس ، قال: ضفت عمر ، فتناول امراته، فضربها، وقال: يا اشعث، احفظ عني ثلاثا حفظتهن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تسال الرجل فيم ضرب امراته، ولا تنم إلا على وتر"، ونسيت الثالثة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ يَعْنِي أَبَا دَاوُدَ الطَّيَالِسِيَّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ دَاوُدَ الْأَوْدِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُسْلِيِّ ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: ضِفْتُ عُمَرَ ، فَتَنَاوَلَ امْرَأَتَهُ، فَضَرَبَهَا، وَقَالَ: يَا أَشْعَثُ، احْفَظْ عَنِّي ثَلَاثًا حَفِظْتُهُنَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَسْأَلْ الرَّجُلَ فِيمَ ضَرَبَ امْرَأَتَهُ، وَلَا تَنَمْ إِلَّا عَلَى وَتْرٍ"، وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ.
اشعث بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی دعوت کی، ان کی زوجہ محترمہ نے انہیں دعوت میں جانے سے روکا، انہیں یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے اپنی بیوی کو مارا، پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث! تین باتیں یاد رکھو جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کی ہیں۔ کسی شخص سے یہ سوال مت کرو کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا ہے؟ وتر پڑھے بغیر مت سویا کرو۔ تیسری بات میں بھول گیا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالرحمن المسلي
حدیث نمبر: 123
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا ابي ، حدثنا يزيد يعني الرشك ، عن معاذة ، عن ام عمرو ابنة عبد الله، انها سمعت عبد الله بن الزبير ، يقول: سمعت عمر بن الخطاب ، يقول في خطبته: إنه سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من يلبس الحرير في الدنيا، فلا يكساه في الآخرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي الرِّشْكَ ، عَنْ مُعَاذَةَ ، عَنْ أُمِّ عَمْرٍو ابْنَةِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ ، يَقُولُ: سَمِعَتْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ: إِنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ يَلْبَسْ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَلَا يُكْسَاهُ فِي الْآخِرَةِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا، وہ آخرت میں اسے نہیں پہنایا جائے گا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، أم عمرو ابنة عبد الله بن الزبير روى لها البخاري تعليقاً والنسائي
حدیث نمبر: 124
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن إسحاق ، حدثنا ابن لهيعة ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، قال: اخبرني عمر بن الخطاب ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" ليسيرن الراكب في جنبات المدينة، ثم ليقول: لقد كان في هذا حاضر من المؤمنين كثير". قال ابي احمد بن حنبل: ولم يجز به حسن الاشيب جابرا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيَسِيرَنَّ الرَّاكِبُ فِي جَنَبَاتِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ لَيَقُولُ: لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا حَاضِرٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ كَثِيرٌ". قَالَ أَبِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَلَمْ يَجُزْ بِهِ حَسَنٌ الْأَشْيَبُ جَابِرًا.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب ایک سوار مدینہ منورہ کے اطراف و جوانب میں چکر لگاتا ہو گا اور کہتا ہو گا کہ کبھی یہاں بہت سے مومن آباد ہوا کرتے تھے۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف، ابن لهيعة سيء الحفظ، وأبو الزبير رمي بالتدليس
حدیث نمبر: 125
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هارون ، حدثنا ابن وهب ، حدثني عمرو بن الحارث ، ان عمر بن السائب حدثه، ان القاسم بن ابي القاسم السبئي حدثه، عن قاص الاجناد ، انه سمعه يحدث، ان عمر بن الخطاب ، قال: يا ايها الناس، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فلا يقعدن على مائدة يدار عليها بالخمر، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل الحمام إلا بإزار، ومن كانت تؤمن بالله واليوم الآخر، فلا تدخل الحمام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ السَّائِبِ حَدَّثَهُ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ أَبِي الْقَاسِمِ السَّبَئِيَّ حَدَّثَهُ، عَنْ قَاصِّ الْأَجْنَادِ ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا يَقْعُدَنَّ عَلَى مَائِدَةٍ يُدَارُ عَلَيْهَا بِالْخَمْرِ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَدْخُلْ الْحَمَّامَ إِلَّا بِإِزَارٍ، وَمَنْ كَانَتْ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا تَدْخُلْ الْحَمَّامَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے لوگو! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ کسی ایسے دستر خوان پر مت بیٹھے جہاں شراب پیش کی جاتی ہو، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ بغیر تہبند کے حمام میں داخل نہ ہو اور جو عورت اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو وہ حمام میں مت جائے۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف الجهالة قاص الأجناد
حدیث نمبر: 126
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سلمة الخزاعي ، انبانا ليث ، ويونس ، حدثنا ليث ، عن يزيد بن عبد الله بن اسامة بن الهاد ، عن الوليد بن ابي الوليد ، عن عثمان بن عبد الله يعني ابن سراقة ، عن عمر بن الخطاب ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من اظل راس غاز، اظله الله يوم القيامة، ومن جهز غازيا حتى يستقل، كان له مثل اجره حتى يموت، قال يونس: او يرجع، ومن بنى لله مسجدا يذكر فيه اسم الله تعالى، بنى الله له به بيتا في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ ، أَنْبَأَنَا لَيْثٌ ، وَيُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ سُرَاقَةَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ أَظَلَّ رَأْسَ غَازٍ، أَظَلَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ جَهَّزَ غَازِيًا حَتَّى يَسْتَقِلَّ، كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ حَتَّى يَمُوتَ، قَالَ يُونُسُ: أَوْ يَرْجِعَ، وَمَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا يُذْكَرُ فِيهِ اسْمُ اللَّهِ تَعَالَى، بَنَى اللَّهُ لَهُ بِهِ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص کسی مجاہد کے سر پر سایہ کرے، اللہ قیامت کے دن اس پر سایہ کرے گا، جو شخص مجاہد کے لئے سامان جہاد مہیا کرے یہاں تک کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے، اس کے لئے اس مجاہد کے برابر اجر لکھا جاتا رہے گا جب تک وہ فوت نہ ہو جائے اور جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد تعمیر کرے جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے، اللہ جنت میں اس کا گھر تعمیر کر دے گا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، عثمان بن عبدالله بن سراقة - وهو ابن بنت عمر- مختلف فى إدراكه جده عمر، وهو ثقة من رجال البخاري
حدیث نمبر: 127
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن سليمان الاعمش ، عن شقيق ، عن سلمان بن ربيعة ، قال: سمعت عمر ، يقول: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسمة، فقلت: يا رسول الله، لغير هؤلاء احق منهم اهل الصفة، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنكم تخيروني بين ان تسالوني بالفحش، وبين ان تبخلوني، ولست بباخل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةً، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَغَيْرُ هَؤُلَاءِ أَحَقُّ مِنْهُمْ أَهْلُ الصُّفَّةِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكُمْ تُخَيِّرُونِي بَيْنَ أَنْ تَسْأَلُونِي بِالْفُحْشِ، وَبَيْنَ أَنْ تُبَخِّلُونِي، وَلَسْتُ بِبَاخِلٍ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کے زیادہ حقدار تو ان لوگوں کو چھوڑ کر اہل صفہ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم مجھ سے غیر مناسب طریقے سے سوال کرنے یا مجھے بخیل قرار دینے میں خود مختار ہو، حالانکہ میں بخیل نہیں ہوں۔
(فائدہ: مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اہل صفہ کو کچھ نہیں دیا تو اپنے پاس کچھ بچا کر نہیں رکھا اور اگر دوسروں کو دیا ہے تو ان کی ضروریات کو سامنے رکھ دیا۔)

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1056
حدیث نمبر: 128
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا خالد ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن عاصم بن عبيد الله ، عن ابيه ، او عن جده ، عن عمر بن الخطاب ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد الحدث توضا ومسح على الخفين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَو عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْحَدَثِ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نے حدث لاحق ہونے کے بعد وضو کیا اور موزوں پر مسح فرما لیا۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد وعاصم بن عبيدالله
حدیث نمبر: 129
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن ابي رافع : ان عمر بن الخطاب كان مستندا إلى ابن عباس، وعنده ابن عمر، وسعيد بن زيد:" اعلموا اني لم اقل في الكلالة شيئا، ولم استخلف من بعدي احدا، وانه من ادرك وفاتي من سبي العرب، فهو حر من مال الله عز وجل، فقال سعيد بن زيد: اما إنك لو اشرت برجل من المسلمين، لاتمنك الناس، وقد فعل ذلك ابو بكر واتمنه الناس. فقال عمر: قد رايت من اصحابي حرصا سيئا، وإني جاعل هذا الامر إلى هؤلاء النفر الستة الذين مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، ثم قال عمر: لو ادركني احد رجلين، ثم جعلت هذا الامر إليه، لوثقت به سالم مولى ابي حذيفة، وابو عبيدة بن الجراح".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ مُسْتَنِدًا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، وعنده ابن عمر، وسعيد بن زيد:" اعْلَمُوا أَنِّي لَمْ أَقُلْ فِي الْكَلَالَةِ شَيْئًا، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِي أَحَدًا، وَأَنَّهُ مَنْ أَدْرَكَ وَفَاتِي مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ، فَهُوَ حُرٌّ مِنْ مَالِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ: أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَشَرْتَ بِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، لَأْتَمَنَكَ النَّاسُ، وَقَدْ فَعَلَ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ وَأْتَمَنَهُ النَّاسُ. فَقَالَ عُمَرُ: قَدْ رَأَيْتُ مِنْ أَصْحَابِي حِرْصًا سَيِّئًا، وَإِنِّي جَاعِلٌ هَذَا الْأَمْرَ إِلَى هَؤُلَاءِ النَّفَرِ السِّتَّةِ الَّذِينَ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: لَوْ أَدْرَكَنِي أَحَدُ رَجُلَيْنِ، ثُمَّ جَعَلْتُ هَذَا الْأَمْرَ إِلَيْهِ، لَوَثِقْتُ بِهِ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ".
سیدنا ابورافع کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ایام میں ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، آپ نے فرمایا کہ یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ میں نے کلالہ کے حوالے سے کوئی قول اختیار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے بعد کسی کو بطور خلیفہ کے نامزد کیا ہے اور یہ کہ میری وفات کے بعد عرب کے جتنے قیدی ہیں، سب اللہ کی راہ میں آزاد ہوں گے۔ سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اگر آپ کسی مسلمان کے متعلق خلیفہ ہونے کا مشورہ ہی دے دیں تو لوگ آپ پر اعتماد کریں گے جیسا کہ اس سے قبل سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور لوگوں نے ان پر بھی اعتماد کیا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: دراصل مجھے اپنے ساتھیوں میں ایک بری لالچ دکھائی دے رہی ہے، اس لئے میں ایسا تو نہیں کرتا، البتہ ان چھ آدمیوں پر اس بوجھ کو ڈال دیتا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت وفات دنیا سے راضی ہو کر گئے تھے، ان میں سے جسے چاہو، خلیفہ منتخب کرلو۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر دو میں سے کوئی ایک آدمی بھی موجود ہوتا اور میں خلافت اس کے حوالے کر دیتا تو مجھے اطمینان رہتا، ایک سالم جو کہ ابوحذیفہ کے غلام تھے اور دوسرے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على بن زيد وهو ابن جدعان

Previous    9    10    11    12    13    14    15    16    17    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.