وعن جابر قا ل: كان عمر يقول: ابو بكر سيدنا واعتق سيدنا يعني بلالا. رواه البخاري وَعَن جَابر قا ل: كَانَ عُمَرُ يَقُولُ: أَبُو بَكْرٍ سَيِّدُنَا وَأَعْتَقَ سَيِّدَنَا يَعْنِي بِلَالًا. رَوَاهُ البُخَارِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ہمارے سردار ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہمارے سردار یعنی بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کیا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3754)»
وعن قيس بن ابي حازم ان بلالا قال لابي بكر: إن كنت إنما اشتريتني لنفسك فامسكني وإن كنت إنما اشتريتني لله فدعني وعمل الله. رواه البخاري وَعَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ أَنَّ بِلَالًا قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ: إِنْ كُنْتَ إِنَّمَا اشْتَرَيْتَنِي لِنَفْسِكَ فَأَمْسِكْنِي وَإِنْ كُنْتَ إِنَّمَا اشْتَرَيْتَنِي لِلَّهِ فَدَعْنِي وَعمل الله. رَوَاهُ البُخَارِيّ
قیس بن ابی حازم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر تو آپ نے مجھے اپنی ذات کے لیے خریدا ہے تو پھر آپ مجھے روک رکھیں، اور اگر آپ نے مجھے اللہ کی خاطر خریدا ہے تو پھر مجھے چھوڑ دیں اور اللہ کے راستے میں عمل کرنے دیں۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3755)»
وعن ابي هريرة قال جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إني مجهود فارسل إلى بعض نسائه فقالت والذي بعثك بالحق ما عندي إلا ماء ثم ارسل إلى اخرى فقالت مثل ذلك وقلن كلهن مثل ذلك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من يضيفه وي» فقام رجل من الانصار يقال له ابو طلحة فقال انا يا رسول الله فانطلق به إلى رحله فقال لامراته هل عندك شيء قالت لا إلا قوت صبياني قال فعلليهم بشيء ونوميهم فإذا دخل ضيفنا فاريه انا ناكل فإذا اهوى لياكل فقومي إلى السراج كي تصلحيه فاطفئيه ففعلت فقعدوا واكل الضيف فلما اصبح غدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لقد عجب الله او ضحك الله من فلان وفلانة» وفي رواية مثله ولم يسم ابا طلحة وفي آخرها فانزل الله تعالى [ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة] متفق عليه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ إِنِّي مَجْهُودٌ فَأَرْسَلَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ فَقَالَتْ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا عِنْدِي إِلَّا مَاءٌ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُخْرَى فَقَالَتْ مِثْلَ ذَلِكَ وَقُلْنَ كُلُّهُنَّ مِثْلَ ذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «من يضيفه وي» فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو طَلْحَةَ فَقَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى رَحْلِهِ فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ قَالَتْ لَا إِلَّا قُوتُ صِبْيَانِي قَالَ فَعَلِّلِيهِمْ بِشَيْءٍ وَنَوِّمِيهِمْ فَإِذَا دَخَلَ ضَيْفُنَا فَأَرِيهِ أَنا نَأْكُل فَإِذا أَهْوى لِيَأْكُلَ فَقُومِي إِلَى السِّرَاجِ كَيْ تُصْلِحِيهِ فَأَطْفِئِيهِ فَفعلت فقعدوا وَأكل الضَّيْف فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ عَجِبَ اللَّهُ أَوْ ضَحِكَ اللَّهُ مِنْ فُلَانٍ وَفُلَانَةٍ» وَفِي رِوَايَةٍ مِثْلَهُ وَلَمْ يُسَمِّ أَبَا طَلْحَةَ وَفِي آخِرِهَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى [وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ] مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا، مجھے شدید بھوک لگی ہوئی ہے، چنانچہ آپ نے اپنی کسی زوجہ محترمہ کے پاس پیغام بھیجا تو انہوں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! میرے پاس تو صرف پانی ہے پھر آپ نے دوسری محترمہ کے پاس پیغام بھیجا تو اس نے بھی اسی طرح کہا، اور تمام ازواج مطہرات نے یہی جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو اس کی مہمان نوازی کرے گا اللہ اس پر رحم فرمائے گا۔ “ انصار میں سے ابوطلحہ نامی ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول میں، وہ اسے اپنے گھر لے گئے اور اپنی اہلیہ سے فرمایا: کیا تمہارے پاس (کھانے کے لیے) کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا: صرف میرے بچوں کے لیے کھانا ہے، انہوں نے فرمایا: کسی چیز کے ذریعے انہیں دلاسا دے کر سلا دو۔ جب ہمارا مہمان داخل ہو تو اسے ظاہر کرنا کہ ہم کھا رہے ہیں، جب وہ کھانے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھائے تو چراغ درست کرنے کے بہانے اسے بجھا دینا، چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا، وہ بیٹھ گئے، مہمان نے کھانا کھا لیا اور ان دونوں (میاں بیوی) نے بھوکے رہ کر رات بسر کی، جب صبح کے وقت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے فلاں مرد اور فلاں عورت (کے ایثار) پر تعجب فرمایا، یا اللہ ان دونوں پر ہنس پڑا۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: آپ نے ابوطلحہ کا نام نہیں لیا، اور اس روایت کے آخر میں ہے: اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”وہ اپنی جانوں پر دوسرے کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود بھی ضرورت ہوتی ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4889) و مسلم (172 / 2054)»
وعنه قال: نزلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم منزلا فجعل الناس يمرون فيقول رسول الله صلى الله عليه وسلم «من هذا يا ابا هريرة؟» فاقول: فلان. فيقول: «نعم عبد الله هذا» ويقول: «من هذا؟» فاقول: فلان. فيقول: «بئس عبد الله هذا» حتى مر خالد بن الوليد فقال: «من هذا؟» فقلت: خالد بن الوليد. فقال: «نعم عبد الله خالد بن الوليد سيف من سيوف الله» رواه الترمذي وَعَنْهُ قَالَ: نَزَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلًا فَجَعَلَ النَّاسُ يَمُرُّونَ فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «مَنْ هَذَا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟» فَأَقُولُ: فُلَانٌ. فَيَقُولُ: «نِعْمَ عَبْدُ اللَّهِ هَذَا» وَيَقُولُ: «مَنْ هَذَا؟» فَأَقُولُ: فُلَانٌ. فَيَقُولُ: «بِئْسَ عَبْدُ اللَّهِ هَذَا» حَتَّى مَرَّ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَقَالَ: «مَنْ هَذَا؟» فَقُلْتُ: خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ. فَقَالَ: «نِعْمَ عَبْدُ اللَّهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ سَيْفٌ مِنْ سيوف الله» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو لوگ ادھر ادھر پھرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: ”ابوہریرہ! یہ کون ہے؟“ میں عرض کرتا: فلاں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: ”یہ اللہ کا بندہ اچھا ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوچھتے: ”یہ کون ہے؟“ میں عرض کرتا: فلاں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: ”یہ اللہ کا بندہ برا ہے۔ “ حتیٰ کہ خالد بن ولید گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے عرض کیا: خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا بندہ خالد بن ولید اچھا ہے، وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ “ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (3846)»
وعن زيد بن ارقم قال: قالت الانصار: يا نبي الله لكل نبي اتباع وإنا قد اتبعناك فادع الله ان يجعل اتباعنا منا فدعا به رواه البخاري وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: قَالَتِ الْأَنْصَارُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَتْبَاعٌ وَإِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاكَ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَ أَتْبَاعَنَا منا فَدَعَا بِهِ رَوَاهُ البُخَارِيّ
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، انصار نے عرض کیا، اللہ کے نبی! ہر نبی کے پیروکار ہوتے ہیں، ہم نے بھی آپ کی اتباع کی ہے، آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمارے متبعین کو ہم میں شریک فرما دے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی دعا فرمائی۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3787)»
وعن قتادة قال ما نعلم حيا من احياء العر ب اكثر شهيدا اعز يوم القيامة من الانصار. قال: وقال انس: قتل منهم يوم احد سبعون ويوم بئر معونة سبعون ويوم اليمامة على عهد ابي بكر سبعون. رواه البخاري وَعَنْ قَتَادَةَ قَالَ مَا نَعْلَمُ حَيًّا مِنْ أَحْيَاءِ الْعَر بِ أَكْثَرَ شَهِيدًا أَعَزَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْأَنْصَارِ. قَالَ: وَقَالَ أَنَسٌ: قُتِلَ مِنْهُمْ يَوْمَ أُحُدٍ سَبْعُونَ وَيَوْمَ بِئْرِ مَعُونَةَ سَبْعُونَ وَيَوْمَ الْيَمَامَةِ عَلَى عَهْدِ أَبِي بَكْرٍ سَبْعُونَ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم قبائل عرب میں سے کوئی ایسا قبیلہ نہیں جانتے جس کے شہداء کی تعداد انصار سے زیادہ ہو، روز قیامت سب سے زیادہ معزز قبیلہ انصار کا قبیلہ ہو گا۔ راوی بیان کرتے ہیں، انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: غزوۂ احد میں ان کے ستر آدمی شہید ہوئے، بئرمعونہ کے واقعہ میں ستر شہید ہوئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں یمامہ کی لڑائی میں ستر شہید ہوئے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (4078)»
وعن قيس بن حازم قال: كان عطاء البدريين خمسة آلاف. وقال عمر: لافضلنهم على من بعدهم. رواه البخاري وَعَن قيس بن حَازِم قَالَ: كَانَ عَطَاءُ الْبَدْرِيِّينَ خَمْسَةُ آلَافٍ. وَقَالَ عُمَرُ: لَأُفَضِّلَنَّهُمْ على مَنْ بَعدَهم. رَوَاهُ البُخَارِيّ
قیس بن ابی حازم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ کرام کا وظیفہ پانچ پانچ ہزار تھا، اور عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں ان کو ان کے بعد والوں پر فضیلت دوں گا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (4022) ٭ تسمية من سمي من أھل البدر، في صحيح البخاري (کتاب المغازي باب: 13 بعد ح 4027)»
عن عمر بن الخطاب ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن رجلا ياتيكم من اليمن يقال له: اويس لا يدع باليمن غير ام له قد كان به بياض فدعا الله فاذهبه إلا موضع الدينار او الدرهم فمن لقيه منكم فليستغفر لكم وفي رواية قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن خير التابعين رجل يقال له: اويس وله والدة وكان به بياض فمروه فليستغفر لكم. رواه مسلم عَن عمر بن الْخطاب أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا يَأْتِيكُمْ مِنَ الْيَمَنِ يُقَالُ لَهُ: أُوَيْسٌ لَا يَدَعُ بِالْيَمَنِ غَيْرَ أُمٍّ لَهُ قَدْ كَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَدَعَا اللَّهَ فَأَذْهَبَهُ إِلَّا مَوْضِعَ الدِّينَارِ أَوِ الدِّرْهَمِ فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْكُمْ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُولُ: إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: أُويس وَله والدةٌ وَكَانَ بِهِ بَيَاض فَمُرُوهُ فليستغفر لكم. رَوَاهُ مُسلم
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یمن سے اویس نامی شخص تمہارے پاس آئے گا، وہ یمن میں صرف اپنی والدہ کو چھوڑ آئے گا، اسے برص تھا، اس نے اللہ سے دعا کی تو اس نے دینار یا درہم کے برابر جگہ کے علاوہ اس مرض کو ختم کر دیا، جو شخص اس سے ملاقات کرے تو وہ تمہارے لیے اس سے دعائے مغفرت کی درخواست کرے۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے، فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تابعین میں سے سب سے بہتر شخص اویس ہے، اس کی والدہ ہے، اسے برص کا مرض تھا، تم اس سے درخواست کرنا کہ وہ تمہارے لیے دعائے مغفرت کرے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (223 / 2542)»
وعن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اتاكم اهل اليمن هم ارق افئدة والين قلوبا الإيمان يمان والحكمة يمانية والفخر والخيلاء في اصحاب الإبل والسكينة والوقار في اهل الغنم» . متفق عليه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَتَاكُم أهلُ الْيمن هم أَرقُّ أفئدَةً وَأَلْيَنُ قُلُوبًا الْإِيمَانُ يَمَانٍ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ وَالْفَخْرُ وَالْخُيَلَاءُ فِي أَصْحَابِ الْإِبِلِ وَالسَّكِينَةُ وَالْوَقَارُ فِي أهل الْغنم» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یمن والے تمہارے پاس آئے ہیں، وہ رقیق القلب اور نرم دل ہیں، ایمان یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمن والوں کی ہے، فخر و غرور اونٹ والوں میں ہوتا ہے جبکہ سکینت و وقار بکری والوں میں ہوتا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4388) و مسلم (86. 84 / 52)»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «راس الكفر نحو المشرق والفخر والخيلاء في اهل الخيل والإبل والفدادين اهل الوبر والسكينة في اهل الغنم» متفق عليه وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَسُ الْكُفْرِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ وَالْفَخْرُ وَالْخُيَلَاءُ فِي أَهْلِ الْخَيْلِ وَالْإِبِلِ وَالْفَدَّادِينَ أَهْلِ الْوَبَرِ وَالسَّكِينَةُ فِي أَهْلِ الْغَنَمِ» مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کفر کا سرچشمہ مشرق میں ہے، فخر و غرور گھوڑے والوں، اونٹ والوں اور جاگیر داروں جو اونٹ کے بالوں سے بنے ہوئے خیموں میں رہتے ہیں ان میں ہوتا ہے، اور سکینت بکری والوں میں ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3301) و مسلم (85/ 52)»