وعن ابي هريرة قال جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إني مجهود فارسل إلى بعض نسائه فقالت والذي بعثك بالحق ما عندي إلا ماء ثم ارسل إلى اخرى فقالت مثل ذلك وقلن كلهن مثل ذلك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من يضيفه وي» فقام رجل من الانصار يقال له ابو طلحة فقال انا يا رسول الله فانطلق به إلى رحله فقال لامراته هل عندك شيء قالت لا إلا قوت صبياني قال فعلليهم بشيء ونوميهم فإذا دخل ضيفنا فاريه انا ناكل فإذا اهوى لياكل فقومي إلى السراج كي تصلحيه فاطفئيه ففعلت فقعدوا واكل الضيف فلما اصبح غدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لقد عجب الله او ضحك الله من فلان وفلانة» وفي رواية مثله ولم يسم ابا طلحة وفي آخرها فانزل الله تعالى [ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة] متفق عليه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ إِنِّي مَجْهُودٌ فَأَرْسَلَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ فَقَالَتْ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا عِنْدِي إِلَّا مَاءٌ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُخْرَى فَقَالَتْ مِثْلَ ذَلِكَ وَقُلْنَ كُلُّهُنَّ مِثْلَ ذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «من يضيفه وي» فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو طَلْحَةَ فَقَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى رَحْلِهِ فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ قَالَتْ لَا إِلَّا قُوتُ صِبْيَانِي قَالَ فَعَلِّلِيهِمْ بِشَيْءٍ وَنَوِّمِيهِمْ فَإِذَا دَخَلَ ضَيْفُنَا فَأَرِيهِ أَنا نَأْكُل فَإِذا أَهْوى لِيَأْكُلَ فَقُومِي إِلَى السِّرَاجِ كَيْ تُصْلِحِيهِ فَأَطْفِئِيهِ فَفعلت فقعدوا وَأكل الضَّيْف فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ عَجِبَ اللَّهُ أَوْ ضَحِكَ اللَّهُ مِنْ فُلَانٍ وَفُلَانَةٍ» وَفِي رِوَايَةٍ مِثْلَهُ وَلَمْ يُسَمِّ أَبَا طَلْحَةَ وَفِي آخِرِهَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى [وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ] مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا، مجھے شدید بھوک لگی ہوئی ہے، چنانچہ آپ نے اپنی کسی زوجہ محترمہ کے پاس پیغام بھیجا تو انہوں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! میرے پاس تو صرف پانی ہے پھر آپ نے دوسری محترمہ کے پاس پیغام بھیجا تو اس نے بھی اسی طرح کہا، اور تمام ازواج مطہرات نے یہی جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو اس کی مہمان نوازی کرے گا اللہ اس پر رحم فرمائے گا۔ “ انصار میں سے ابوطلحہ نامی ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول میں، وہ اسے اپنے گھر لے گئے اور اپنی اہلیہ سے فرمایا: کیا تمہارے پاس (کھانے کے لیے) کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا: صرف میرے بچوں کے لیے کھانا ہے، انہوں نے فرمایا: کسی چیز کے ذریعے انہیں دلاسا دے کر سلا دو۔ جب ہمارا مہمان داخل ہو تو اسے ظاہر کرنا کہ ہم کھا رہے ہیں، جب وہ کھانے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھائے تو چراغ درست کرنے کے بہانے اسے بجھا دینا، چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا، وہ بیٹھ گئے، مہمان نے کھانا کھا لیا اور ان دونوں (میاں بیوی) نے بھوکے رہ کر رات بسر کی، جب صبح کے وقت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے فلاں مرد اور فلاں عورت (کے ایثار) پر تعجب فرمایا، یا اللہ ان دونوں پر ہنس پڑا۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: آپ نے ابوطلحہ کا نام نہیں لیا، اور اس روایت کے آخر میں ہے: اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”وہ اپنی جانوں پر دوسرے کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود بھی ضرورت ہوتی ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4889) و مسلم (172 / 2054)»