وعن عبد الله بن عمرو ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: استقرؤوا القرآن من اربعة: من عبد الله بن مسعود وسالم مولى ابي حذيفة وابي بن كعب ومعاذ بن جبل. متفق عليه وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: استقرؤوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ: مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْب ومعاذ بن جبل. مُتَّفق عَلَيْهِ
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”چار حضرات، عبداللہ بن مسعود، ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل سے قرآن کی تعلیم حاصل کرو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3706) و مسلم (117/ 2464)»
وعن علقمة قال: قدمت الشام فصليت ركعتين ثم قلت: اللهم يسر لي جليسا صالحا فاتيت قوما فجلست إليهم فإذا شيخ قد جاء حتى جلس إلى جنبي قلت: من هذا؟ قالوا: ابو الدرداء. قلت: إني دعوت الله ان ييسر لي جليسا صالحا فيسرك لي فقال: من انت؟ قلت: من اهل الكوفة. قال: او ليس عندكم ابن ام عبد صاحب النعلين والوسادة والمطهرة وفيكم الذي اجاره الله من الشيطان على لسان نبيه؟ يعني عمارا او ليس فيكم صاحب السر الذي لا يعلمه غيره؟ يعني حذيفة. رواه البخاري وَعَن علقمةَ قَالَ: قَدِمْتُ الشَّامَ فَصَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قُلْتُ: اللَّهُمَّ يَسِّرْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا فَأَتَيْتُ قَوْمًا فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ فَإِذَا شَيْخٌ قَدْ جَاءَ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِي قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: أَبُو الدَّرْدَاءِ. قُلْتُ: إِنِّي دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُيَسِّرَ لِي جَلِيسًا صَالِحًا فَيَسَّرَكَ لِي فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ. قَالَ: أَو لَيْسَ عنْدكُمْ ابْن أمِّ عبد صَاحب النَّعْلَيْنِ وَالْوِسَادَةِ وَالْمَطْهَرَةِ وَفِيكُمُ الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ مِنَ الشَّيْطَانِ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ؟ يَعْنِي عَمَّارًا أَوْ لَيْسَ فِيكُمْ صَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي لَا يعلمُه غيرُه؟ يَعْنِي حُذَيْفَة. رَوَاهُ البُخَارِيّ
علقمہ ؒ بیان کرتے ہیں، میں شام پہنچا تو میں نے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کی: اے اللہ! مجھے کسی صالح ساتھی کی ہم نشینی نصیب فرما، میں لوگوں کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا، چنانچہ ایک بزرگ آئے اور وہ میرے پہلو میں بیٹھ گئے، میں نے کہا: یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے بتایا: ابودرداء ہیں، میں نے کہا: میں نے اللہ سے دعا کی تھی کہ وہ مجھے کسی صالح شخص کی ہم نشینی نصیب فرمائے تو اس نے مجھے آپ کی ہم نشینی عطا فرمائی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: آپ کون ہیں؟ میں نے کہا: کوفی ہوں، انہوں نے کہا: کیا تمہارے ہاں ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) صاحب النعلین صاحب و سادہ و مطہرہ (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین اٹھانے والے، آپ کا بستر درست کرنے والے اور آپ کے وضو کے لیے پانی کا اہتمام کرنے والے) نہیں ہیں؟ اور تم میں وہ بھی ہیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی کی دعا کے ذریعے شیطان سے پناہ دے دی ہے یعنی عمار بن یاسر، کیا تم میں راز دان نہیں ہیں؟ ان رازوں کو ان کے سوا کوئی نہیں جانتا یعنی حذیفہ رضی اللہ عنہ۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3742)»
وعن جابر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «اريت الجنة فرايت امراة ابي طلحة وسمعت خشخشة امامي فإذا بلال» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُرِيْتُ الْجَنَّةَ فَرَأَيْتُ امْرَأَةَ أَبِي طَلْحَةَ وَسَمِعْتُ خَشْخَشَةً أَمَامِي فَإِذَا بِلَالٌ» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے جنت دکھائی گئی، میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ دیکھیں، اور اپنے آگے بلال کے جوتوں کی آواز سنی۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (106/ 2457)»
وعن سعد قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ستة نفر فقال المشركون للنبي صلى الله عليه وسلم: اطرد هؤلاء لا يجترؤون علينا. قال: وكنت انا وابن مسعود ورجل من هذيل وبلال ورجلان لست اسميهما فوقع في نفس رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله ان يقع فحدث نفسه فانزل الله تعالى: [ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه]. رواه مسلم وَعَن سعد قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ نَفَرٍ فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم: اطرد هَؤُلَاءِ لَا يجترؤون عَلَيْنَا. قَالَ: وَكُنْتُ أَنَا وَابْنُ مَسْعُودٍ وَرَجُلٌ مِنْ هُذَيْلٍ وَبِلَالٌ وَرَجُلَانِ لَسْتُ أُسَمِّيهِمَا فَوَقَعَ فِي نَفْسِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقَعَ فَحَدَّثَ نَفْسَهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: [وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ]. رَوَاهُ مُسلم
سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم چھ افراد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ ان لوگوں کو یہاں سے دور کر دو اور یہ ہماری موجودگی میں آنے کی جرأت نہ کریں، راوی بیان کرتے ہیں (ان میں) میں، ابن مسعود، ہذیل قبیلے کا ایک آدمی، بلال اور دو آدمی اور تھے جن کا میں نام نہیں لیتا، اللہ نے جو چاہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں خیال آیا اور آپ نے اپنے دل میں کوئی بات سوچی تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”آپ ان لوگوں کو دور نہ کریں جو صبح و شام اپنے رب کو، اس کی رضا مندی کے حصول کے لیے پکارتے رہتے ہیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (46/ 2413)»
وعن ابي موسى ان النبي صلى الله عليه وسلم قال له: «يا ابا موسى لقد اعطيت مزمارا من مزامير آل داود» . متفق عليه وَعَنْ أَبِي مُوسَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: «يَا أَبَا مُوسَى لَقَدْ أُعْطِيْتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آل دَاوُد» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”ابوموسیٰ! آپ کو آل داؤد کی سی خوش الحانی عطا کی گئی ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5048) و مسلم (235/ 793)»
وعن انس قال: جمع القرآن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم اربعة: ابي بن كعب ومعاذ بن جبل وزيد بن ثابت وابو زيد قيل لانس: من ابو زيد؟ قال: احد عمومتي. متفق عليه وَعَن أنس قَالَ: جَمَعَ الْقُرْآنَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَةٌ: أُبَيُّ بْنِ كَعْبٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَأَبُو زَيْدٍ قِيلَ لِأَنَسٍ: مَنْ أَبُو زَيْدٍ؟ قَالَ: أحد عمومتي. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں چار افراد نے قرآن کو جمع کر لیا تھا: ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید رضی اللہ عنہ، انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: ابوزید کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میرے ایک چچا ہیں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3810) و مسلم (119/ 2460)»
وعن خباب بن الارت قال: هاجرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نبتغي وجه الله تعالى فوقع اجرنا على الله فمنا من مضى لم ياكل من اجره شيئا منهم: مصعب بن عمير قتل يوم احد فلم يوجد له ما يكفن فيه إلا نمرة فكنا إذا غطينا بها راسه خرجت رجلاه وإذا غطينا رجليه خرج راسه فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «غطوا بها راسه واجعلوا على رجليه الإذخر» . ومنا من اينعت له ثمرته فهو يهدبها. متفق عليه وَعَن خبّاب بن الأرتِّ قَالَ: هَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبْتَغِي وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى فَوَقَعَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ فَمِنَّا مَنْ مَضَى لَمْ يَأْكُلْ مَنْ أَجْرِهِ شَيْئًا مِنْهُمْ: مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ فِيهِ إِلَّا نَمِرَةٌ فَكُنَّا إِذَا غطينا بهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلَاهُ وَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «غطوا بهَا رَأسه وَاجْعَلُوا على رجلَيْهِ الْإِذْخِرِ» . وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهُوَ يهدبها. مُتَّفق عَلَيْهِ
خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی، ہم اللہ کی رضا مندی چاہتے تھے، چنانچہ ہمارا اجر اللہ کے ہاں ثابت ہو گیا، ہم میں سے کچھ (جلد) وفات پا گئے اور انہوں نے اپنے (دنیوی) اجر (مال غنیمت وغیرہ) سے کچھ نہ پایا، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی انہی میں سے ہیں، وہ غزوۂ احد میں شہید ہو گئے تھے، انہیں کفن دینے کے لیے صرف ایک دھاری دار چادر میسر آئی، جب ہم ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے دونوں پاؤں ننگے ہو جاتے اور جب ہم ان کے دونوں پاؤں ڈھانپتے تو ان کا سر ننگا ہو جاتا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے ان کا سر ڈھانپ دو اور ان کے پاؤں پر گھاس ڈال دو۔ “ اور ہم میں سے وہ بھی ہیں کہ ان کے لیے پھل پک چکے ہیں اور وہ انہیں چن رہے ہیں۔ (قتوحات کے بعد دنیوی فوائد بھی حاصل کر رہے ہیں) متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3898) و مسلم (44/ 940)»
وعن جابر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «اهتز العرش لموت سعد بن معاذ» وفي رواية: «اهتز عرش الرحمن لموت سعد ن معاذ» . متفق عليه وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اهْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ» وَفِي رِوَايَةٍ: «اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ لِمَوْتِ سَعْدِ ن معَاذ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات پر عرش ہل گیا تھا۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر رحمن کا عرش ہل گیا تھا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3803) و مسلم (124/ 2466)»
وعن البراء قال: اهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم حلة حرير فجعل اصحابه يمسونها ويتعجبون من لينها فقال: «اتعجبون من لين هذه؟ لمناديل سعد بن معاذ في الجنة خير منها والين» . متفق عليه وَعَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةُ حَرِيرٍ فَجَعَلَ أَصْحَابُهُ يَمَسُّونَهَا وَيَتَعَجَّبُونَ مِنْ لِينِهَا فَقَالَ: «أَتَعْجَبُونَ مِنْ لِينِ هَذِهِ؟ لَمَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الجنَّةِ خيرٌ مِنْهَا وألين» . مُتَّفق عَلَيْهِ
براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ریشمی جوڑا بطور ہدیہ پیش کیا گیا تو صحابہ اسے چھونے لگے اور اس کی ملائمیت پر تعجب کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کی ملائمیت پر تعجب کرتے ہو۔ سعد بن معاذ کے جنت میں رومال اس سے زیادہ بہتر ہیں اور زیادہ ملائم ہیں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3802) و مسلم (126 / 2468)»
وعن ام سليم انها قالت: يا رسول الله انس خادمك ادع الله له قال: «اللهم اكثر ماله وولده وبارك فيما اعطيته» قال انس: فو الله إن مالي لكثير وإن ولدي وولد ولدي ليتعادون على نحو المائة اليوم. متفق عليه وَعَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَسٌ خَادِمُكَ ادْعُ اللَّهَ لَهُ قَالَ: «اللهمَّ أَكثر مَاله وَولده وَبَارك فِيمَا أَعْطيته» قَالَ أنس: فو الله إِنَّ مَالِي لَكَثِيرٌ وَإِنَّ وَلَدِي وَوَلَدَ وَلَدِي لَيَتَعَادُّونَ عَلَى نَحْوِ الْمِائَةِ الْيَوْمَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ام سلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! انس رضی اللہ عنہ آپ کا خادم ہے، اس کے لیے اللہ سے دعا فرمائیں: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اس کے مال و اولاد میں اضافہ فرما، اور تو نے جو اسے عطا فرمایا ہے اس میں برکت فرما۔ “ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میرا مال بہت زیادہ ہے، اور آج میرے بیٹے اور میرے پوتے سو سے زیادہ ہیں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6334) و مسلم (143/ 2481)»