وعن انس ان غلاما يهوديا كان يخدم النبي صلى الله عليه وسلم فمرض فاتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده فوجد اباه عند راسه يقرا التوراة فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا يهودي انشدك بالله الذي انزل التوراة على موسى هل تجد في التوراة نعتي وصفتي ومخرجي؟» . قال: لا. قال الفتى: بلى والله يا رسول الله إنا نجد لك في التوراة نعتك وصفتك ومخرجك وإني اشهد ان لا إله إلا الله وانك رسول الله. فقال النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه: «اقيموا هذا من عند راسه ولوا اخاكم» . رواه البيهقي في «دلائل النبوة» وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ غُلَامًا يَهُودِيًّا كَانَ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَوَجَدَ أَبَاهُ عِنْدَ رَأْسِهِ يَقْرَأُ التَّوْرَاةَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا يَهُودِيٌّ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ التَّوْرَاةَ عَلَى مُوسَى هَلْ تَجِدُ فِي التَّوْرَاةِ نَعْتِي وَصِفَتِي وَمَخْرَجِي؟» . قَالَ: لَا. قَالَ الْفَتَى: بَلَى وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَجِدُ لَكَ فِي التَّوْرَاة نعتك وَصِفَتَكَ وَمَخْرَجَكَ وَإِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: «أَقِيمُوا هَذَا مِنْ عِنْدِ رَأْسِهِ وَلُوا أَخَاكُمْ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «دَلَائِل النُّبُوَّة»
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، وہ بیمار ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے آپ نے اس کے والد کو اس کے سر کے پاس تورات پڑھتے دیکھ کر فرمایا: ”اے یہودی! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسی ؑ پر تورات نازل فرمائی، (بتاؤ) کیا تم تورات میں میری ذات و صفات کے متعلق کچھ لکھا ہوا پاتے ہو؟“ اس نے کہا: نہیں لیکن وہ لڑکا کہنے لگا، اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و صفات اور آپ کی تشریف آوری کے متعلق تورات میں لکھا ہوا پاتے ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور آپ اللہ کے رسول ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ”اس کو اس (لڑکے) کے سرہانے سے اٹھا دو اور تم اپنے (اسلامی) بھائی کی (تجہیز و تکفین کے متعلق) سر پرستی کرو۔ “ حسن، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه البيھقي في دلائل النبوة (6/ 272 وسنده حسن) ٭ فيه مؤمل بن إسماعيل حسن الحديث و ثقه الجمھور و له شواھد عند البيھقي في الدلائل (6/ 272. 273) وغيره فالحديث حسن.»
وعن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: «إنما انا رحمة مهداة» . رواه الدارمي والبيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ» . رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھیجی ہوئی رحمت ہوں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارمی و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 9 ح 15 و سقط منه ذکر أبي ھريرة رضي الله عنه) و رواھ البيھقي في شعب الإيمان (1446 بدون سند و في دلائل النبوة 1/ 158) [والبزار (114/3 ح 2369)] ٭ الأعمش مدلس و عنعن في حديث أبي صالح و في حديث أبي ھريرة و لا شک بأنه ﷺ رحمة مھداة و رحمة للعالمين و لکن ھذا السند لم يصح.»
عن انس قال: خدمت النبي صلى الله عليه وسلم عشر سنين فما قال لي: اف ولا: لم صنعت؟ ولا: الا صنعت؟ متفق عليه عَنْ أَنَسٍ قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا قَالَ لِي: أُفٍّ وَلَا: لِمَ صَنَعْتَ؟ وَلَا: أَلَّا صَنَعْتَ؟ مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے دس سال نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی، لیکن آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہ کہا، اور نہ ہی یہ کہا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا اور وہ کام کیوں نہیں کیا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6038) و مسلم (51/ 2309)»
وعنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم من احسن الناس خلقا فارسلني يوما لحاجة فقلت: والله لا اذهب وفي نفسي ان اذهب لما امرني به رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرجت حتى امر على صبيان وهم يلعبون في السوق فإذا برسول الله صلى الله عليه وسلم قد قبض بقفاي من ورائي قال: فنظرت إليه وهو يضحك فقال: «يا انيس ذهبت حيث امرتك؟» . قلت: نعم انا اذهب يا رسول الله. رواه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا فَأَرْسَلَنِي يَوْمًا لِحَاجَةٍ فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَذْهَبُ وَفِي نَفْسِي أَنْ أَذْهَبَ لِمَا أَمَرَنِي بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجْتُ حَتَّى أَمُرَّ عَلَى صِبْيَانٍ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي السُّوقِ فَإِذَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَبَضَ بِقَفَايَ مِنْ وَرَائِي قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ: «يَا أُنَيْسُ ذَهَبْتَ حَيْثُ أَمَرْتُكَ؟» . قُلْتُ: نَعَمْ أَنَا أَذْهَبُ يَا رَسُول الله. رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے بہترین اخلاق کے حامل تھے، آپ نے ایک روز مجھے کسی کام کے لیے بھیجا تو میں نے کہا، اللہ کی قسم! میں نہیں جاؤں گا، جبکہ میرے دل میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کام کا مجھے حکم فرمایا ہے میں اس کے لیے ضرور جاؤں گا، میں نکلا، اور چند ایسے بچوں کے پاس سے گزرا جو بازار میں کھیل رہے تھے۔ (میں وہاں کھڑا ہو گیا) اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے پیچھے سے میری گدی پکڑ لی، وہ بیان کرتے ہیں، میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اُنیس! جہاں جانے کے متعلق میں نے تمہیں کہا تھا، کیا وہاں گئے ہو؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! میں جا رہا ہوں۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2310/54)»
وعنه قال: كنت امشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه برد نجراني غليظ الحاشية فادركه اعرابي فجبذه جبذة شديدة ورجع نبي الله صلى الله عليه وسلم في نحر الاعرابي حتى نظرت إلى صفحة عاتق رسول الله صلى الله عليه وسلم قد اثرت به حاشية البرد من شدة جبذته ثم قال: يا محمد مر لي من مال الله الذي عندك فالتفت إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم ضحك ثم امر له بعطاء. متفق عليه وَعَنْهُ قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الْحَاشِيَةِ فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فجبذه جَبْذَةً شَدِيدَةً وَرَجَعَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَحْرِ الْأَعْرَابِيِّ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَاتِقِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أثرت بِهِ حَاشِيَةُ الْبُرْدِ مِنْ شِدَّةِ جَبْذَتِهِ ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عنْدك فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ضَحِكَ ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا، آپ پر موٹے کنارے (چوڑی پٹی) والی نجرانی چادر تھی، اتنے میں ایک اعرابی آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ کی چادر کے ساتھ آپ کو اتنے زور سے کھینچا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس اعرابی کے سینے کے قریب پہنچ گئے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھے پر دیکھا تو زور سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کے کنارے کے نشانات کندھے مبارک پر پڑ چکے تھے، پھر اس نے کہا: محمد! اللہ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس میں سے میرے لیے بھی حکم فرمایئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا، اور ہنس دیے، پھر اسے کچھ دینے کا حکم فرمایا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3149) و مسلم (128/ 1057)»
وعنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم احسن الناس واجود الناس واشجع الناس ولقد فزع اهل المدينة ذات ليلة فانطلق الناس قبل الصوت فاستقبلهم النبي صلى الله عليه وسلم قد سبق الناس إلى الصوت هو يقول: «لم تراعوا لم تراعوا» وهو على فرس لابي طلحة عري ما عليه سرج وفي عنقه سيف. فقال: «لقد وجدته بحرا» . متفق عليه وَعَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَجْوَدَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ سَبَقَ النَّاس إِلَى الصَّوْت هُوَ يَقُولُ: «لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا» وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ مَا عَلَيْهِ سَرْجٌ وَفِي عُنُقِهِ سَيْفٌ. فَقَالَ: «لَقَدْ وَجَدْتُهُ بَحْرًا» . مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا گئے تو لوگ اس کی آواز کی طرف چل پڑے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے اس کی آواز کی طرف گئے تھے اور واپسی پر آپ لوگوں سے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”گھبراؤ نہیں، گھبراؤ نہیں۔ “ آپ اس وقت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے، اس پر زین نہیں تھی اور آپ کے گلے میں تلوار تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اس (گھوڑے) کو نہایت تیز رفتار پایا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6033) و مسلم (48/ 2307)»
وعن جابر قال: ما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا قط فقال: لا. متفق عليه وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ: لَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کبھی ایسے نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا گیا اور آپ نے نفی میں جواب دیا ہو۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6034) و مسلم (56/ 2311)»
وعن انس إن رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم غنما بين جبلين فاعطاه إياه فاتى قومه فقال: اي قوم اسلموا فو الله إن محمدا ليعطي عطاء ما يخاف الفقر. رواه مسلم وَعَن أنس إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ فَأَتَى قَوْمَهُ فَقَالَ: أَي قوم أَسْلمُوا فو الله إِنَّ مُحَمَّدًا لَيُعْطِي عَطَاءً مَا يَخَافُ الْفَقْرَ. رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اتنی بکریاں مانگیں جس سے دو پہاڑوں کا درمیانی فاصلہ بھر جائے، آپ نے اتنی ہی اسے دے دیں تو وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور انہیں کہا: میری قوم! اسلام قبول کر لو، اللہ کی قسم! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر عطا فرماتے ہیں، کہ وہ فقر کا اندیشہ نہیں رکھتے۔ (یا فقر کا اندیشہ نہیں رہتا) رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (58/ 2312)»
وعن جبير بن مطعم بينما هو يسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مقفله من حنين فعلقت الاعراب يسالونه حتى اضطروه إلى سمرة فخطفت رداءه فوقف النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «اعطوني ردائي لو كان لي عدد هذه العضاه نعم لقسمته بينكم ثم لا تجدوني بخيلا ولا كذوبا ولا جبانا» . رواه البخاري وَعَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ بَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْفَلَهُ مِنْ حُنَيْنٍ فَعَلِقَتِ الْأَعْرَابُ يَسْأَلُونَهُ حَتَّى اضْطَرُّوهُ إِلَى سَمُرَةٍ فَخَطَفَتْ رِدَاءَهُ فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَعْطُونِي رِدَائِي لَوْ كَانَ لِي عَدَدَ هَذِهِ الْعِضَاهِ نَعَمٌ لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ ثُمَّ لَا تَجِدُونِي بَخِيلًا وَلَا كذوباً وَلَا جَبَانًا» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اس اثنا میں کہ غزوۂ حنین سے واپسی پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، (راستے میں) اعرابی چمٹ کر آپ سے سوال کرنے لگے، حتی کہ انہوں نے آپ کو ببول کے درخت کی طرف دھکیل دیا، وہ (کانٹے) آپ کی چادر سے الجھ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا: ”میری چادر مجھے دے دو، اگر میرے پاس ان (کانٹے دار) درختوں جتنے اونٹ ہوتے تو میں وہ بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا، لہذا تم مجھے بخیل پاؤ گے نہ جھوٹا اور نہ بزدل۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2821)»
وعن انس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى الغداة جاء خدم المدينة بآنيتهم فيها الماء فما ياتون بإناء إلا غمس يده فيها فربما جاؤوه بالغداة الباردة فيغمس يده فيها. رواه مسلم وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْغَدَاةَ جَاءَ خَدَمُ الْمَدِينَةِ بِآنِيَتِهِمْ فِيهَا الْمَاءُ فَمَا يَأْتُونَ بإناءٍ إِلَّا غمسَ يدَه فِيهَا فرُبما جاؤوهُ بِالْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ فَيَغْمِسُ يَدَهُ فِيهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو مدینہ کے خادم اپنے برتن لے آتے، ان میں پانی ہوتا تھا، وہ جو بھی برتن لاتے، آپ اس میں اپنا دستِ مبارک ڈبو دیتے تھے، بسا اوقات تو وہ موسم سرما میں صبح کے وقت آپ کے پاس آ جاتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں اپنا ہاتھ ڈبو دیا کرتے تھے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (74/ 2324)»