وعن عائشة قالت: إن من نعم الله علي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم توفي في بيتي وفي يومي وبين سحري ونحري وإن الله جمع بين ريقي وريقه عند موته دخل علي عبد الرحمن بن ابي بكر وبيده سواك وانا مسندة رسول الله صلى الله عليه وسلم فرايته ينظر إليه وعرفت انه يحب السواك فقلت: آخذه لك؟ فاشار براسه ان نعم فتناولته فاشتد عليه وقلت: الينه لك؟ فاشار براسه ان نعم فلينته فامره وبين يديه ركوة فيها ماء فجعل يدخل يديه في الماء فيمسح بهما وجهه ويقول: «لا إله إلا الله إن للموت سكرات» . ثم نصب يده فجعل يقول: «في الرفيق الاعلى» . حتى قبض ومالت يده. رواه البخاريوَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنَّ مِنْ نِعَمِ اللَّهِ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوِفِّيَ فِي بَيْتِي وَفِي يَوْمِي وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي وَإِنَّ اللَّهَ جَمَعَ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ دَخَلَ عَلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَبِيَدِهِ سِوَاكٌ وَأَنَا مُسْنِدَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَيْتُهُ يَنْظُرُ إِلَيْهِ وَعَرَفْتُ أَنَّهُ يُحِبُّ السِّوَاكَ فَقُلْتُ: آخُذُهُ لَكَ؟ فَأَشَارَ بِرَأْسِهِ أَنْ نَعَمْ فَتَنَاوَلْتُهُ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ وَقُلْتُ: أُلَيِّنُهُ لَكَ؟ فَأَشَارَ بِرَأْسِهِ أَنْ نَعَمْ فَلَيَّنْتُهُ فَأَمَرَّهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ رَكْوَةٌ فِيهَا مَاءٌ فَجَعَلَ يُدْخِلُ يَدَيْهِ فِي الْمَاءِ فَيَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ وَيَقُولُ: «لَا إِلَهَ إِلَّا الله إِنَّ للموتِ سَكَراتٍ» . ثمَّ نصب يَده فَجَعَلَ يَقُولُ: «فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى» . حَتَّى قُبِضَ ومالت يَده. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے انعامات میں سے یہ بھی مجھ پر انعام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے گھر میں اور میری باری میں وفات پائی اس وقت آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، اور اللہ نے آپ کی وفات کے وقت میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب کو ایک ساتھ جمع کر دیا، (وہ اس طرح کہ) عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے تو ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں، میں نے پہچان لیا کہ آپ مسواک پسند کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، میں اسے آپ کے لیے لے لوں، آپ نے اپنے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں، میں نے اسے حاصل کیا، لیکن آپ کے لیے اسے چبانا مشکل تھا، میں نے عرض کیا: کیا میں اسے آپ کی خاطر نرم کر دوں؟ آپ نے اپنے سر مبارک سے اشارہ فرمایا کہ ہاں، میں نے اسے نرم کر دیا، اور آپ کے سامنے چمڑے کا ایک برتن تھا جس میں پانی تھا، آپ اپنے ہاتھ پانی میں داخل فرماتے اور انہیں اپنے چہرے پر پھیرتے اور فرماتے: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، موت کی سختیاں ہوتی ہیں۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک اٹھایا اور فرمانے لگے: (اے اللہ!) اعلی ساتھ نصیب فرما۔ “ حتیٰ کہ آپ کی روح قبض ہو گئی اور آپ کا دست مبارک جھک گیا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (4449)»
وعنها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «مامن نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة» . وكان في شكواه الذي قبض اخذته بحة شديدة فسمعته يقول: مع الذين انعمت عليهم من الصديقين والنبيين والشهداء والصالحين. فعلمت انه خير. متفق عليهوَعَنْهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «مامن نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ» . وَكَانَ فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ شَدِيدَةٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ من الصديقين والنبيين وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ. فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو نبی (مرض الموت میں) بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا و آخرت کے مابین اختیار دیا جاتا ہے۔ “ اور جس مرض میں آپ کی روح قبض کی گئی، اس مرض میں آپ پر ہچکی کا سخت حملہ ہوا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ان لوگوں کے ساتھ جن پر تو نے انعام فرمایا، انبیا ؑ، صدیقین، شہداء اور صالحین (کے ساتھ)۔ “ میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4586) ومسلم (86/ 2444)»
وعن انس قال: لما ثقل النبي صلى الله عليه وسلم جعل يتغشاه الكرب. فقالت فاطمة: واكرب آباه فقال لها: «ليس على ابيك كرب بعد اليوم» . فلما مات قالت: يا ابتاه اجاب ربا دعاه يا ابتاه من جنة الفردوس ماواه يا ابتاه إلى جبريل ننعاه. فلما دفن قالت فاطمة: يا انس اطابت انفسكم ان تحثوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم التراب؟ رواه البخاريوَعَن أنس قَالَ: لما ثقل النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَتَغَشَّاهُ الْكَرْبُ. فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: وَاكَرْبَ آبَاهْ فَقَالَ لَهَا: «لَيْسَ عَلَى أَبِيكِ كَرْبٌ بَعْدَ الْيَوْمِ» . فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ: يَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ يَا أَبَتَاهُ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ يَا أَبَتَاهُ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهُ. فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتْ فَاطِمَةُ: يَا أَنَسُ أَطَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ؟ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرض شدت اختیار کر گیا تو آپ پر کرب و تکلیف چھانے لگی، تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، ابا جان کو کتنی تکلیف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”آج کے بعد آپ کے ابا جان کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ “ جب آپ وفات پا گئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابا جان! آپ نے اپنے رب کے بلاوے پر لبیک کہا، ابا جان! آپ جن کا ٹھکانا جنت الفردوس ہے، ابا جان! ہم جبریل ؑ کو آپ کی موت کی خبر سناتے ہیں، جب آپ کو دفن کر دیا گیا تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انس! تمہارے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مٹی ڈالنے کے لیے کیسے آمادہ ہو گئے؟ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (4462)»
عن انس قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة لعبت الحبشة بحرابهم فرحا لقدومه. رواه ابو داود وفي رواية الدارمي (صحيح) قال: ما رايت يوما قط كان احسن ولا اضوا من يوم دخل علينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وما رايت يوما كان اقبح واظلم من يوم مات فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي رواية الترمذي قال: لما كان اليوم الذي دخل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة اضاء منها كل شيء فلما كان اليوم الذي مات فيه اظلم منها كل شيء وما نفضنا ايدينا عن التراب وإنا لفي دفنه حتى انكرنا قلوبنا عَن أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ لَعِبَتِ الْحَبَشَةُ بِحِرَابِهِمْ فَرَحًا لِقُدُومِهِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَفِي رِوَايَةِ الدَّارِمِيِّ (صَحِيح) قَالَ: مَا رَأَيْتُ يَوْمًا قَطُّ كَانَ أَحْسَنَ وَلَا أَضْوَأَ مِنْ يَوْمٍ دَخَلَ عَلَيْنَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا رَأَيْت يَوْمًا كَانَ أقبح وأظلم مِنْ يَوْمٍ مَاتَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي رِوَايَةِ التِّرْمِذِيِّ قَالَ: لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ وَمَا نَفَضْنَا أَيْدِيَنَا عَنِ التُّرَابِ وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبنَا
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حبشیوں نے آپ کی آمد کی خوشی پر اپنے نیزوں کا کھیل پیش کیا۔ اور دارمی کی روایت میں ہے، فرمایا: میں نے اس روز سے، جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے، زیادہ حسین اور زیادہ روشن کوئی دن نہیں دیکھا، اور میں نے اس دن سے، جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی، زیادہ قبیح اور زیادہ تاریک کوئی اور دن نہیں دیکھا۔ اور ترمذی کی روایت میں ہے: فرمایا: جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے میں داخل ہوئے تھے تو اس سے ہر چیز روشن ہو گئی تھی، چنانچہ جس دن آپ نے وفات پائی تھی اس سے ہر چیز تاریک ہو گئی تھی، ہم نے اپنے ہاتھ مٹی سے صاف نہیں کیے تھے اور ابھی ہم آپ کی تدفین میں مصروف تھے کہ ہم نے اپنے دلوں کو اجنبی پایا۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد و الدارمی و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4923) و الدارمي (1/ 41 ح 89) و الترمذي (3618 وقال: صحيح غريب) ٭ سند أبي داود صحيح علي شرط الشيخين و سند الدارمي صحيح و سند الترمذي: حسن.»
وروي صحيحا من وجه آخر) وعن عائشة قالت: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم اختلفوا في دفنه. فقال ابو بكر: سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا. قال: «ما قبض الله نبيا إلا في الموضع الذي يحب ان يدفن فيه» . ادفنوه في موضع فراشه. رواه الترمذي وَرُوِيَ صَحِيحا من وَجه آخر) وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا. قَالَ: «مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يحبُ أَن يُدْفَنَ فِيهِ» . ادفنوه فِي موضعِ فراشِهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح قبض کی گئی تو آپ کی تدفین کے متعلق صحابہ میں اختلاف پیدا ہو گیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (اس بارے میں) کچھ سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نبی کی روح اسی جگہ قبض فرماتا ہے جہاں وہ پسند فرماتا ہے کہ اس کی تدفین ہو۔ “ تم آپ کو آپ کے بستر کی جگہ پر دفن کرو۔ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (1018 و قال: غريب) وَرُوِيَ صَحِيحا من وَجه آخر)»
عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وهو صحيح: «لن يقبض نبي قط حتى يرى مقعده من الجنة ثم يخير» . قالت عائشة: فلما نزل به وراسه على فخذي غشي عليه ثم افاق فاشخص بصره إلى السقف ثم قال: «اللهم الرفيق الاعلى» . قلت: إذن لا يختارنا. قالت: وعرفت انه الحديث الذي كان يحدثنا به وهو صحيح في قوله: «إنه لن يقبض نبي قط حتى يرى مقعده من الجنة ثم يخير» قالت عائشة: فكان آخر كلمة تكلم بها النبي صلى الله عليه وسلم: «اللهم الرفيق الاعلى» . متفق عليه عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَهُوَ صَحِيح: «لَنْ يُقْبَضَ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يُرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرَ» . قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَمَّا نَزَلَ بِهِ ورأسُه على فَخذِي غُشِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَأَشْخَصَ بَصَرُهُ إِلَى السَّقْفِ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى» . قُلْتُ: إِذَنْ لَا يَخْتَارُنَا. قَالَتْ: وَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَدِيثُ الَّذِي كَانَ يُحَدِّثُنَا بِهِ وَهُوَ صَحِيحٌ فِي قَوْلِهِ: «إِنَّهُ لَنْ يُقْبَضَ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يُرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرَ» قَالَتْ عَائِشَةُ: فَكَانَ آخِرُ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا النَّبِيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى» . مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت صحت میں فرمایا کرتے تھے: ”کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی جب تک انہیں ان کا جنتی ٹھکانا نہیں دکھا دیا جاتا ہے، پھر انہیں اختیار دیا جاتا ہے۔ “ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، جب آپ پر موت طاری ہوئی اس وقت آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا، آپ پر بے ہوشی طاری ہوئی، پھر افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نظر چھت کی طرف اٹھائی، پھر فرمایا: ”اے اللہ! اعلی ساتھ نصیب فرما، میں نے کہا: تب تو آپ ہمیں اختیار نہیں کریں گے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں میں نے جان لیا کہ وہ حدیث جو آپ ہمیں بیان کیا کرتے تھے۔ جب کہ آپ صحت مند تھے: ”کسی نبی کی روح قبض نہیں کی جاتی حتیٰ کہ وہ اپنا جنتی ٹھکانا دیکھ لیتا ہے، پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے۔ “ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو آخری بات فرمائی وہ یہ تھی: ”اے اللہ! اعلی ساتھ نصیب فرما۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6509) و مسلم (87/ 2444)»
وعنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في مرضه الذي مات فيه: «يا عائشة ما ازال اجد الم الطعام الذي اكلت بخيبر وهذا اوان وجدت انقطاع ابهري من ذلك السم» . رواه البخاري وَعَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: «يَا عَائِشَةُ مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ وَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبهري من ذَلِك السم» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرض وفات میں فرما رہے تھے: ”عائشہ! میں نے جو کھانا خیبر کے موقع پر کھایا تھا اس کی تکلیف مسلسل اٹھاتا رہا ہوں، اور یہ وہ وقت آ گیا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس زہر کی وجہ سے میری شہ رگ کٹ جائے گی۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (4428)»
وعن ابن عباس قال: لما حضر رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي البيت رجال فيهم عمر بن الخطاب قال النبي صلى الله عليه وسلم: «هلموا اكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده» . فقال عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن حسبكم كتاب الله فاختلف اهل البيت واختصموا فمنهم من يقول: قربوا يكتب لكم رسول الله صلى الله عليه وسلم. ومنهم يقول ما قال عمر. فلما اكثروا اللغط والاختلاف قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قوموا عني» . قال عبيد الله: فكان ابن عباس يقول: إن الرزيئة كل الرزيئة ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين ان يكتب لهم ذلك الكتاب لاختلافهم ولغطهم وفي رواية سليمان بن ابي مسلم الاحول قال ابن عباس: يوم الخميس وما يوم الخميس؟ ثم بكى حتى بل دمعه الحصى. قلت: يا ابن عباس وما يوم الخميس؟ قال: اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه فقال: «ائتوني بكتف اكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ابدا» . فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع. فقالوا: ما شانه اهجر؟ استفهموه فذهبوا يردون عليه. فقال: «دعوني ذروني فالذي انا فيه خير مما تدعونني إليه» . فامرهم بثلاث: فقال: «اخرجوا المشركين من جزيرة العرب واجيزوا الوفد بنحو ما كنت اجيزهم» . وسكت عن الثالثة او قالها فنسيتها قال سفيان: هذا من قول سليمان. متفق عليه وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلُمُّوا أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ» . فَقَالَ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُكُمْ كِتَابُ اللَّهِ فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم. وَمِنْهُم يَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ. فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغَطَ وَالِاخْتِلَافَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُومُوا عَنِّي» . قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَكَانَ ابنُ عباسٍ يَقُول: إِن الرزيئة كل الرزيئة مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيَّنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ لِاخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ وَفِي رِوَايَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الْأَحْوَلِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى. قُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ فَقَالَ: «ائْتُونِي بِكَتِفٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا» . فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ. فَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ فَذَهَبُوا يَرُدُّونَ عَلَيْهِ. فَقَالَ: «دَعُونِي ذَرُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ» . فَأَمَرَهُمْ بِثَلَاثٍ: فَقَالَ: «أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ» . وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ أَوْ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا قَالَ سُفْيَانُ: هَذَا مِنْ قَول سُلَيْمَان. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مرض الموت کے آثار ظاہر ہونے لگے، تو اس وقت (آپ کے) گھر میں کچھ افراد تھے ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”لاؤ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے، تمہارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے، اس پر گھر میں موجود افراد میں اختلاف پڑ گیا، اور وہ جھگڑ پڑے، کوئی کہہ رہا تھا، لاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں لکھ دیں، اور کوئی وہی کہہ رہا تھا جو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا، چنانچہ جب شور و غوغہ اور اختلاف زیادہ ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ “ عبید اللہ نے بیان کیا، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ ان کا اختلاف اور شور و شغب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گیا۔ اور سلیمان بن ابی مسلم الاحول کی روایت میں ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا، اور جمعرات کے دن کیا ہوا؟ پھر وہ رونے لگے، اتنا روئے کہ ان کے آنسوؤں نے سنگریزوں کو تر کر دیا۔ میں نے کہا: ابن عباس! جمعرات کے دن کیا ہوا؟ انہوں نے فرمایا: اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکلیف شدت اختیار کر گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے شانے کی ہڈی دو میں تمہیں تحریر لکھ دوں، اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ “ انہوں نے اختلاف کر لیا، حالانکہ نبی کے ہاں تنازع مناسب نہیں، انہوں نے کہا: ان کی کیا حالت ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مرض کی وجہ سے) ایسی بات فرما رہے ہیں، انہیں سمجھنے کی کوشش کرو، پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بار بار پوچھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے چھوڑ دو، مجھے میرے حال پر رہنے دو میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے، جس کے لیے تم کہہ رہے ہو، بہتر ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں تین باتوں کی وصیت فرمائی: ”مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دینا، وفود کو اسی طرح عطیات دیتے رہنا جس طرح میں انہیں عطیات دیا کرتا تھا۔ “ اور راوی نے تیسری بات نہیں کی یا اس کے متعلق انہوں نے کہا: میں اسے بھول گیا ہوں، سفیان ؒ نے کہا، یہ (کہنا کہ انہوں نے تیسری بات بیان نہیں کی) سلیمان کا قول ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (114) و مسلم (22/ 1637) الرواية الثانية: البخاري (4431) و مسلم (1637/20)»
وعن انس قال: قال ابو بكر لعمر رضي الله عنهما بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم: انطلق بنا إلى ام ايمن نزورها كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزورها فلما انتهينا إليها بكت. فقالا لها: ما يبكيك؟ اما تعلمين ان ما عند الله خير لرسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: إني لا ابكي اني لا اعلم ان ما عند الله تعالى خير لرسول الله صلى الله عليه وسلم ولكن ابكي ان الوحي قد انقطع من السماء فهيجتهما على البكاء فجعلا يبكيان معها. رواه مسلم وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ أَيْمَنَ نَزُورُهَا كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا بَكَتْ. فَقَالَا لَهَا: مَا يُبْكِيكِ؟ أَمَا تَعْلَمِينَ أَنَّ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: إِنِّي لَا أَبْكِي أَنِّي لَا أَعْلَمُ أَنَّ مَا عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى خَيْرٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ أَبْكِي أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَاءِ فَهَيَّجَتْهُمَا عَلَى الْبُكَاءِ فَجعلَا يَبْكِيَانِ مَعهَا. رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ام ایمن رضی اللہ عنہ کے پاس چلیں ان کی زیارت کریں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زیارت کیا کرتے تھے، جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں، ان دونوں حضرات نے انہیں کہا: آپ کیوں روتی ہیں، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ کے ہاں جو ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بہتر ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں اس لیے نہیں رو رہی کہ مجھے علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جو ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بہتر ہے، میں تو اس لیے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی کا آنا منقطع ہو چکا ہے، ام ایمن رضی اللہ عنہ نے ان دونوں حضرات کو بھی رونے پر آمادہ کر دیا، وہ بھی ان کے ساتھ رونا شروع ہو گئے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (103/ 2454)»
وعن ابي سعيد الخدري قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه ونحن في المسجد عاصبا راسه بخرقة حتى اهوى نحو المنبر فاستوى عليه واتبعناه قال: «والذي نفسي بيده إني؟ لانظر إلى الحوض من مقامي هذا» ثم قال: «إن عبدا عرضت عليه الدنيا وزينتها فاختار الآخرة» قال: فلم يفطن لها احد غير ابي بكر فذرفت عيناه فبكى ثم قال: بل نفديك بآبائنا وامهاتنا وانفسنا واموالنا يا رسول الله قال: ثم هبط فما قام عليه حتى الساعة. رواه الدارمي وَعَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَنَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ عَاصِبًا رَأْسَهُ بِخِرْقَةٍ حَتَّى أَهْوَى نَحْوَ الْمِنْبَرِ فَاسْتَوَى عَلَيْهِ وَاتَّبَعْنَاهُ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي؟ لَأَنْظُرُ إِلَى الْحَوْضِ مِنْ مَقَامِي هَذَا» ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ عَبْدًا عُرِضَتْ عَلَيْهِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا فَاخْتَارَ الْآخِرَةَ» قَالَ: فَلَمْ يَفْطِنْ لَهَا أَحَدٌ غَيْرُ أَبِي بَكْرٍ فَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ فَبَكَى ثُمَّ قَالَ: بَلْ نَفْدِيكَ بِآبَائِنَا وأمَّهاتِنا وأنفسنا وأموالِنا يَا رسولَ الله قَالَ: ثُمَّ هَبَطَ فَمَا قَامَ عَلَيْهِ حَتَّى السَّاعَة. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرض وفات میں (اپنے حجرے سے) باہر تشریف لائے، ہم اس وقت مسجد میں تھے، آپ نے اپنے سر پر پٹی باندھ رکھی تھی، آپ منبر کی طرف بڑھے اور اس پر جلوہ افروز ہوئے، ہم بھی آپ کے قریب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اپنی اس جگہ سے حوض (کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک بندے پر دنیا اور اس کی زیب و زینت پیش کی گئی لیکن اس نے آخرت کو پسند کیا۔ “ راوی بیان کرتے ہیں صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی اس بات کو سمجھ سکے، ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور آپ زارو قطار رونے لگے، پھر عرض کیا: اللہ کے رسول! نہیں، بلکہ ہم آپ پر اپنے والدین، اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر دیں گے، راوی بیان کرتے ہیں، پھر آپ منبر سے نیچے تشریف لائے، پھر وفات تک دوبارہ منبر پر جلوہ افروز نہیں ہوئے۔ اسنادہ حسن، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الدارمي (1/ 36 ح 78)»