وعنه قا ل: اتي النبي صلى الله عليه وسلم بإناء وهو بالزوراء فوضع يده في الإناء فجعل الماء ينبع من بين اصابعه فتوضا القوم قال قتادة: قلت لانس: كم كنتم؟ قال: ثلاثمائة او زهاء ثلاثمائة. متفق عليه وَعنهُ قا ل: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ وَهُوَ بِالزَّوْرَاءِ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ قَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: كَمْ كُنْتُمْ؟ قَالَ: ثلاثمائةٍ أَو زهاءَ ثلاثمائةٍ. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زوراء کے مقام پر تھے کہ ایک برتن آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا، آپ نے اپنا دست مبارک برتن میں رکھا تو آپ کی انگلیوں سے پانی پھوٹنے لگا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس سے وضو کیا، قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تم کتنے تھے؟ انہوں نے فرمایا، تین سو یا تقریباً تین سو۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3572) و مسلم (7، 6/ 2279)»
وعن عبد الله بن مسعود قال: كنا نعد الآيات بركة وانتم تعدونها تخويفا كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فقل الماء فقال: «اطلبوا فضلة من ماء» فجاءوا بإناء فيه ماء قليل فادخل يده في الإناء ثم قال: «حي على الطهور المبارك والبركة من الله» فلقد رايت الماء ينبع من بين اصابع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولقد كنا نسمع تسبيح الطعام وهو يؤكل. رواه البخاري وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنَّا نَعُدُّ الْآيَاتِ بَرَكَةً وَأَنْتُمْ تَعُدُّونَهَا تَخْوِيفًا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَقَلَّ الْمَاءُ فَقَالَ: «اطْلُبُوا فَضْلَةً مِنْ مَاءٍ» فَجَاءُوا بِإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ قَلِيلٌ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ ثُمَّ قَالَ: «حَيَّ على الطَّهورِ الْمُبَارك وَالْبركَة من الله» فَلَقَد رَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَقَد كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم تو آیات و معجزات کو باعث برکت شمار کیا کرتے تھے جبکہ تم انہیں باعث تخویف سمجھتے ہو، ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک سفر تھے کہ پانی کم پڑ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو پانی بچ گیا ہے اسے لے کر آؤ۔ “ وہ ایک برتن لائے جس میں تھوڑا سا پانی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک برتن میں داخل فرمایا، پھر فرمایا: ”مبارک پانی حاصل کرو اور برکت اللہ کی طرف سے ہوئی ہے۔ “ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں سے پانی پھوٹتے ہوئے دیکھا، اور کھانا کھانے کے دوران ہم کھانے کی تسبیح سنا کرتے تھے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3579)»
وعن ابي قتادة قال خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إنكم تسيرون عشيتكم وليلتكم وتاتون الماء إن شاء الله غدا فانطلق الناس لا يلوي احد على احد قال ابو قتادة فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير حتى ابهار الليل فمال عن الطريق فوضع راسه ثم قال احفظوا علينا صلاتنا فكان اول من استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم والشمس في ظهره ثم قال اركبوا فركبنا فسرنا حتى إذا ارتفعت الشمس نزل ثم دعا بميضاة كانت معي فيها شيء من ماء قال فتوضا منها وضوءا دون وضوء قال وبقي فيها شيء من ماء ثم قال احفظ علينا ميضاتك فسيكون لها نبا ثم اذن بلال بالصلاة فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين ثم صلى الغداة وركب وركبنا معه فانتهينا إلى الناس حين امتد النهار وحمي كل شيء وهم يقولون يا رسول الله هلكنا وعطشنا فقال لا هلك عليكم ودعا بالميضاة فجعل يصب وابو قتادة يسقيهم فلم يعد ان راى الناس ماء في الميضاة تكابوا عليها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم احسنوا الملا كلكم سيروى قال ففعلوا فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصب واسقيهم حتى ما بقي غيري وغير رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم صب فقال لي اشرب فقلت لا اشرب حتى تشرب يا رسول الله قال إن ساقي القوم آخرهم شربا قال فشربت وشرب قال فاتى الناس الماء جامين رواء. رواه مسلم هكذا في صحيحه وكذا في كتاب الحميدي وجامع الاصول وزاد في المصابيح بعد قوله آخرهم لفظة شربا وَعَن أبي قتادةَ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّكُمْ تَسِيرُونَ عَشِّيَتَكُمْ وَلَيْلَتَكُمْ وَتَأْتُونَ الْمَاءَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ غَدًا فَانْطَلَقَ النَّاسُ لَا يَلْوِي أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ قَالَ أَبُو قَتَادَةَ فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ فَمَالَ عَنِ الطَّرِيقِ فَوَضَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ احْفَظُوا عَلَيْنَا صَلَاتَنَا فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالشَّمْسُ فِي ظَهْرِهِ ثُمَّ قَالَ ارْكَبُوا فَرَكِبْنَا فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ نَزَلَ ثُمَّ دَعَا بِمِيضَأَةٍ كَانَتْ معي فِيهَا شيءٌ من مَاء قَالَ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا وُضُوءًا دُونَ وُضُوءٍ قَالَ وَبَقِيَ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ ثُمَّ قَالَ احْفَظْ عَلَيْنَا مِيضَأَتَكَ فَسَيَكُونُ لَهَا نَبَأٌ ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ صَلَّى الْغَدَاةَ وَرَكِبَ وَرَكِبْنَا مَعَهُ فَانْتَهَيْنَا إِلَى النَّاسِ حِينَ امْتَدَّ النَّهَارُ وَحَمِيَ كُلُّ شَيْءٌ وَهُمْ يَقُولُونَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْنَا وَعَطِشْنَا فَقَالَ لَا هُلْكَ عَلَيْكُمْ وَدَعَا بِالْمِيضَأَةِ فَجَعَلَ يَصُبُّ وَأَبُو قَتَادَةَ يَسْقِيهِمْ فَلَمْ يَعْدُ أَنْ رَأَى النَّاسُ مَاءً فِي الْمِيضَأَةِ تَكَابُّوا عَلَيْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسِنُوا الْمَلَأَ كُلُّكُمْ سَيُرْوَى قَالَ فَفَعَلُوا فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُبُّ وَأَسْقِيهِمْ حَتَّى مَا بَقِيَ غَيْرِي وَغَيْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَبَّ فَقَالَ لِيَ اشْرَبْ فَقُلْتُ لَا أَشْرَبُ حَتَّى تَشْرَبَ يَا رَسُولَ الله قَالَ إِن ساقي الْقَوْم آخِرهم شربا قَالَ فَشَرِبْتُ وَشَرِبَ قَالَ فَأَتَى النَّاسُ الْمَاءَ جَامِّينَ رِوَاءً. رَوَاهُ مُسْلِمٌ هَكَذَا فِي صَحِيحِهِ وَكَذَا فِي كتاب الْحميدِي وجامع الْأُصُولِ وَزَادَ فِي الْمَصَابِيحِ بَعْدَ قَوْلِهِ آخِرُهُمْ لَفْظَة شربا
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو اس میں فرمایا: ”تم رات بھر سفر کرنے کے بعد ان شاء اللہ کل پانی تک پہنچ جاؤ گے۔ “ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ چلتے گئے کوئی کسی طرف التفات نہیں کر رہا تھا، ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر کر رہے تھے حتیٰ کہ آدھی رات ہو گئی تو آپ راستے سے ہٹ کر ایک جگہ سر مبارک رکھ کر سونے لگے اور فرمایا: ”ہماری نماز کا خیال رکھنا۔ “ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بیدار ہوئے اس وقت سورج طلوع ہو چکا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سواریوں پر سوار ہو جاؤ۔ “ ہم سوار ہو گئے اور سفر شروع کر دیا حتیٰ کہ جب سورج بلند ہو گیا تو آپ نے پڑاؤ ڈالا، پھر آپ نے پانی کا برتن منگایا جو کہ میرے پاس تھا، اس میں کچھ پانی تھا، آپ نے احتیاط کے ساتھ اس سے وضو فرمایا، راوی بیان کرتے ہیں، اس میں تھوڑا سا پانی بچ گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے لیے اس پانی کی حفاظت کرو، عنقریب اس برتن کو بڑی عظمت حاصل ہو گی۔ “ پھر بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے لیے اذان دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر نماز فجر ادا کی، آپ سوار ہوئے تو ہم بھی آپ کے ساتھ ہی سوار ہو گئے، اور ہم لوگوں کے پاس پہنچے تو دن اچھی طرح چڑھ چکا تھا اور ہر چیز گرم ہو چکی تھی، لوگ کہہ رہے تھے: اللہ کے رسول! ہم (لُو کی وجہ سے) ہلاک ہو گئے اور پیاسے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم ہلاک نہیں ہو گے۔ “ آپ نے پانی کا برتن منگایا، آپ انڈیل رہے تھے اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ انہیں پلا رہے تھے، لوگوں نے پانی کا برتن دیکھا تو وہ اس پر جھک گئے (امڈ آئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے اخلاق سنوارو، تم سب سیراب ہو جاؤ گے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، انہوں نے تعمیل کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انڈیل رہے تھے اور میں انہیں پلا رہا تھا، حتیٰ کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی باقی رہ گئے، پھر آپ نے پانی انڈیلا اور مجھے فرمایا: ”پیو۔ “ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں آپ سے پہلے نہیں پیوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو پلانے والا سب سے آخر پر پیتا ہے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، میں نے پیا اور پھر آپ نے پیا، راوی بیان کرتے ہیں، لوگ سیراب ہو کر راحت کے ساتھ پانی پر آئے۔ رواہ مسلم۔ اسی طرح صحیح مسلم میں ہے اور کتاب الحمیدی اور جامع الاصول میں اسی طرح ہے، اور مصابیح میں لفظ ((آخرھم)) کے بعد لفظ ((شربا)) کا اضافہ ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (311/ 681)»
وعن ابي هريرة قال: لما كان يوم غزوة تبوك اصاب الناس مجاعة فقال عمر: يا رسول الله ادعهم بفضل ازوادهم ثم ادع الله لهم عليها بالبركة فقال: نعم قال فدعا بنطع فبسط ثم دعا بفضل ازوادهم فجعل الرجل يجيء بكف ذرة ويجيء الآخر بكف تمر ويجيء الآخر بكسرة حتى اجتمع على النطع شيء يسير فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبركة ثم قال خذوا في اوعيتكم فاخذوا في اوعيتهم حتى ما تركوا في العسكر وعاء إلا ملؤوه قال فاكلوا حتى شبعوا وفضلت فضلة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اشهد ان لا إله إلا الله واني رسول الله لا يلقى الله بهما عبد غير شاك فيحجب عن الجنة» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ غزوةِ تَبُوك أصابَ النَّاس مجاعةٌ فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُهُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ ثُمَّ ادْعُ اللَّهَ لَهُمْ عَلَيْهًا بِالْبَرَكَةِ فَقَالَ: نعم قَالَ فَدَعَا بِنِطَعٍ فَبُسِطَ ثُمَّ دَعَا بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِكَفِّ ذُرَةٍ وَيَجِيءُ الْآخَرُ بِكَفِّ تَمْرٍ وَيَجِيءُ الْآخَرُ بِكِسْرَةٍ حَتَّى اجْتَمَعَ عَلَى النِّطَعِ شَيْءٌ يَسِيرٌ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَرَكَةِ ثُمَّ قَالَ خُذُوا فِي أوعيتكم فَأَخَذُوا فِي أَوْعِيَتِهِمْ حَتَّى مَا تَرَكُوا فِي الْعَسْكَر وعَاء إِلا ملؤوه قَالَ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَفَضَلَتْ فَضْلَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ لَا يَلْقَى اللَّهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرُ شاكٍّ فيحجبَ عَن الْجنَّة» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، غزوۂ تبوک کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سخت بھوک کا شکار ہو گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ان سے زائد زادِ راہ طلب فرمائیں پھر اللہ سے ان کے لیے اس میں برکت کی دعا فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، ٹھیک ہے۔ “ آپ نے چمڑے کا دسترخوان منگایا، اسے بچھا دیا گیا، پھر آپ نے ان سے بچا ہوا زادِ راہ طلب فرمایا، کوئی آدمی مٹھی بھر مکئی لایا، کوئی مٹھی بھر کھجور لایا، اور کوئی روٹی کا ٹکڑا لایا، حتیٰ کہ دسترخوان پر تھوڑی سی چیز جمع ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برکت کے لیے دعا فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے برتن بھر لو۔ “ انہوں نے اپنے برتن بھر لیے حتیٰ کہ انہوں نے لشکر کے تمام برتن بھر لیے، راوی بیان کرتے ہیں، انہوں نے خوب سیر ہو کر کھایا حتیٰ کہ کھانا بچ بھی گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، جو شخص یقین کے ساتھ شہادتی�� کا اقرار کرتا ہے تو وہ جنت سے نہیں روکا جائے گا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (45/ 27)»
وعن انس: كان النبي صلى الله عليه وسلم عروسا بزينب فعمدت امي ام سليم إلى تمر وسمن واقط فصنعت حيسا فجعلته في تور فقالت يا انس اذهب بهذا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقل بعثت بهذا إليك امي وهي تقرئك السلام وتقول إن هذا لك منا قليل يا رسول الله قال فذهبت فقلت فقال ضعه ثم قال اذهب فادع لي فلانا وفلانا وفلانا رجالا سماهم وادع من لقيت فدعوت من سمى ومن لقيت فرجعت فإذا البيت غاص باهله قيل لانس عدد كم كانوا؟ قال زهاء ثلاث مائة. فرايت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يده على تلك الحيسة وتكلم بما شاء الله ثم جعل يدعو عشرة عشرة ياكلون منه ويقول لهم: «اذكروا اسم الله ولياكل كل رجل مما يليه» قال: فاكلوا حتى شبعوا. فخرجت طائفة ودخلت طائفة حتى اكلوا كلهم قال لي يا انس ارفع. فرفعت فما ادري حين وضعت كان اكثر ام حين رفعت. متفق عليه وَعَن أَنَسٍ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا بِزَيْنَبَ فَعَمَدَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى تَمْرٍ وَسَمْنٍ وَأَقِطٍ فَصَنَعَتْ حَيْسًا فَجَعَلَتْهُ فِي تَوْرٍ فَقَالَتْ يَا أَنَسُ اذْهَبْ بِهَذَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْ بَعَثَتْ بِهَذَا إِلَيْكَ أُمِّي وَهِيَ تُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَتَقُولُ إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ الله قَالَ فَذَهَبْتُ فَقُلْتُ فَقَالَ ضَعْهُ ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا رِجَالًا سَمَّاهُمْ وَادْعُ مَنْ لَقِيتَ فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّى وَمَنْ لَقِيتُ فَرَجَعْتُ فَإِذَا الْبَيْتُ غَاصٌّ بِأَهْلِهِ قِيلَ لأنس عدد كم كَانُوا؟ قَالَ زهاء ثَلَاث مائَة. فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى تِلْكَ الْحَيْسَةِ وَتَكَلَّمَ بِمَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ جَعَلَ يَدْعُو عَشَرَةً عَشَرَةً يَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَقُول لَهُم: «اذْكروا اسْم الله وليأكلْ كُلُّ رَجُلٍ مِمَّا يَلِيهِ» قَالَ: فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا. فَخَرَجَتْ طَائِفَةٌ وَدَخَلَتْ طَائِفَةٌ حَتَّى أَكَلُوا كُلُّهُمْ قَالَ لِي يَا أَنَسُ ارْفَعْ. فَرَفَعْتُ فَمَا أَدْرِي حِينَ وَضَعْتُ كَانَ أَكْثَرَ أَمْ حِين رفعت. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زینب رضی اللہ عنہ سے شادی ہوئی تو میری والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کھجور، گھی اور پنیر لے کر حیس بنایا اور اسے ہنڈیا جیسے برتن میں رکھا، اور فرمایا: انس! اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ، اور انہیں کہو: اسے میری والدہ نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے اور وہ آپ کو سلام عرض کرتی ہیں، اور انہوں نے یہ بھی عرض کیا ہے کہ اللہ کے رسول! یہ ہماری طرف سے آپ کی خدمت میں قلیل (یعنی حقیر) سا ہدیہ ہے، میں گیا، اور عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے رکھ دو۔ “ پھر فرمایا: ”جاؤ! فلاں فلاں اور فلاں شخص کو بلا لاؤ۔ “ اور آپ نے ان کے نام بھی بتائے ”اور جو بھی تجھے ملے اسے بلا لاؤ۔ “ آپ نے جن کے نام بتائے تھے، میں انہیں اور جو لوگ راستے میں مجھے ملے تو میں انہیں بلا لایا، میں واپس آیا تو گھر بھر چکا تھا، انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا: تم کتنے لوگ تھے؟ انہوں نے فرمایا: تقریباً تین سو، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اس حیسہ (حلوے) میں اپنا دست مبارک رکھا اور جو اللہ نے چاہا وہ دعا فرمائی، پھر آپ دس دس آدمیوں کو بلاتے رہے اور وہ اس سے کھاتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں فرماتے: ”اللہ کا نام لو، اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، ان سب نے خوب سیر ہو کر کھا لیا، ایک گروہ نکلتا تو دوسرا گروہ داخل ہو جاتا، حتیٰ کہ ان سب نے کھا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”انس! (اسے) اٹھا لو۔ “ میں نے اٹھا لیا، میں نہیں جانتا کہ جب میں نے (حیس) رکھا تھا تب زیادہ تھا یا جب میں نے اٹھایا تھا تب زیادہ تھا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5163) و مسلم (94/ 1428)»
وعن جابر قال: غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا على ناضح لنا قد اعيا فلا يكاد يسير فتلاحق بي النبي صلى الله عليه وسلم فقال لي ما لبعيرك قلت: قدعيي فتخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فزجره ودعا له فما زال بين يدي الإبل قدامها يسير فقال لي كيف ترى بعيرك قال قلت بخير قد اصابته بركتك قال افتبيعنيه بوقية. فبعته على ان لي فقار ظهره حتى المدينة فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة غدوت عليه بالبعير فاعطاني ثمنه ورده علي. متفق عليه وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنا على نَاضِح لنا قَدْ أَعْيَا فَلَا يَكَادُ يَسِيرُ فَتَلَاحَقَ بِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لي مَا لبعيرك قلت: قدعيي فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فزجره ودعا لَهُ فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيِ الْإِبِلِ قُدَّامَهَا يسير فَقَالَ لي كَيفَ ترى بعيرك قَالَ قُلْتُ بِخَيْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَكَتُكَ قَالَ أَفَتَبِيعُنِيهِ بِوُقِيَّةٍ. فَبِعْتُهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ حَتَّى الْمَدِينَةِ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ غَدَوْتُ عَلَيْهِ بِالْبَعِيرِ فَأَعْطَانِي ثمنَهُ وردَّهُ عَليّ. مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک تھا، میں پانی لانے والے ایک اونٹ پر سوار تھا، وہ تھک چکا تھا اور وہ چلنے کے قابل نہیں رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو فرمایا: ”تیرے اونٹ کو کیا ہوا ہے؟“ میں نے عرض کیا، وہ تھک چکا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیچھے گئے اور اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا فرمائی، پھر وہ دوسرے اونٹوں کے آگے آگے چلتا رہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”تمہارے اونٹ کا کیا حال ہے؟“ میں نے عرض کیا: بہتر ہے، آپ کی برکت کا اس پر اثر ہو گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اسے چالیس درہم کے بعوض بیچو گے؟“ میں نے اس شرط پر اسے بیچ دیا کہ مدینہ تک میں اسی پر سفر کروں گا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے تو اگلے روز میں اونٹ لے کر حاضر خدمت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس کی قیمت عطا فرما دی وہ اونٹ بھی مجھے واپس دے دیا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2967) ومسلم (110/ 715)»
وعن ابي حميد الساعدي قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة تبوك فاتينا وادي القرى على حديقة لامراة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اخرصوها» فخرصناها وخرصها رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة اوسق وقال: «احصيها حتى نرجع إليك إن شاء الله» وانطلقنا حتى قدمنا تبوك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ستهب عليكم الليلة ريح شديدة فلا يقم فيها احد منكم فمن كان له بعير فليشد عقاله» فهبت ريح شديدة فقام رجل فحملته الريح حتى القته بجبلي طيئ ثم اقبلنا حتى قدمنا وادي القرى فسال رسول الله صلى الله عليه وسلم المراة عن حديقتها كم بلغ ثمرها فقالت عشرة اوسق. متفق عليه وَعَن أبي حميد السَّاعِدِيّ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ فَأَتَيْنَا وَادِيَ الْقُرَى عَلَى حَدِيقَةٍ لِامْرَأَةٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْرُصُوهَا» فَخَرَصْنَاهَا وَخَرَصَهَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ أَوْسُقٍ وَقَالَ: «أَحْصِيهَا حَتَّى نَرْجِعَ إِلَيْكِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ» وَانْطَلَقْنَا حَتَّى قَدِمْنَا تَبُوكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتَهُبُّ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُمْ فِيهَا أَحَدٌ مِنْكُم فَمَنْ كَانَ لَهُ بَعِيرٌ فَلْيَشُدَّ عِقَالَهُ» فَهَبَّتْ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَقَامَ رَجُلٌ فَحَمَلَتْهُ الرِّيحُ حَتَّى أَلْقَتْهُ بِجَبَلَيْ طَيِّئٍ ثُمَّ أَقْبَلْنَا حَتَّى قَدِمْنَا وَادِيَ الْقُرَى فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْأَةُ عَنْ حَدِيقَتِهَا كَمْ بَلَغَ ثَمَرهَا فَقَالَت عشرَة أوسق. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، ہم وادی قریٰ میں ایک عورت کے باغ کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس (کے پھلوں) کا اندازہ لگاؤ۔ “ ہم نے اندازہ لگایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا دس وسق کا اندازہ لگایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو یاد رکھنا حتیٰ کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم تمہارے پاس واپس آئیں گے۔ “ اور ہم چلتے گئے حتیٰ کہ ہم تبوک پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی، اس میں کوئی شخص کھڑا نہ ہو اور جس شخص کے پاس اونٹ ہو تو وہ اسے باندھ لے۔ “ زور کی آندھی چلی، ایک آدمی کھڑا ہوا تو آندھی نے اسے اٹھا کر جبل طیئ پر جا پھینکا۔ پھر ہم واپس آئے حتیٰ کہ ہم وادی قریٰ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت سے اس کے باغ کے پھل کے متعلق پوچھا کہ ”اس کے پھل کتنے ہوئے تھے؟“ اس نے عرض کیا: دس وسق۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1481) و مسلم (11/ 1392)»
وعن ابي ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنكم ستفتحون مصر وهي ارض يسمى فيها القيراط فإذا فتحتموها فاحسنوا إلى اهلها فإن لها ذمة ورحما او قال: ذمة وصهرا فإذا رايتم رجلين يختصمان في موضع لبنة فاخرج منها. قال: فرايت عبد الرحمن بن شرحبيل بن حسنة واخاه يختصمان في موضع لبنة فخرجت منها. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكُمْ سَتَفْتَحُونَ مِصْرَ وَهِيَ أَرْضٌ يُسَمَّى فِيهَا الْقِيرَاطُ فَإِذَا فَتَحْتُمُوهَا فَأَحْسِنُوا إِلَى أَهْلِهَا فَإِنَّ لَهَا ذِمَّةً وَرَحِمًا أَوْ قَالَ: ذِمَّةً وَصِهْرًا فَإِذَا رَأَيْتُمْ رَجُلَيْنِ يَخْتَصِمَانِ فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ فَاخْرُجْ مِنْهَا. قَالَ: فَرَأَيْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بن شُرَحْبِيل بن حَسَنَة وأخاه يَخْتَصِمَانِ فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ فَخَرَجْتُ مِنْهَا. رَوَاهُ مُسلم
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم عنقریب مصر فتح کرو گے، اور وہ ایسی سرزمین ہے جس کی کرنسی قراط ہے۔ جب تم اسے فتح کر لو تو وہاں کے باشندوں سے حسن سلوک کرنا۔ کیونکہ انہیں حرمت اور قرابت کا حق حاصل ہے۔ “ یا فرمایا: ”انہیں حرمت اور رشتہ سسرال کا حق حاصل ہے۔ اور جب تم دو آدمیوں کو اینٹ برابر جگہ پر جھگڑا کرتے ہوئے دیکھو تو وہاں سے کوچ کر جانا۔ “ اور میں نے عبد الرحمن بن شرحبیل بن حسنہ اور اس کے بھائی ربیعہ کو ایک اینٹ برابر پر جھگڑا کرتے ہوئے دیکھا تو میں وہاں سے نکل آیا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (227، 226 / 2543)»
قال الشيخ زبير على زئي: رواه مسلم (227، 226 / 2543)
وعن حذيفة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: في اصحابي وفي رواية قا ل: في امتي اثنا عشر منافقا لا يدخلون الجنة ولا يجدون ريحها حتى يلج الجمل في سم الخياط ثمانية منهم تك (فيهم الدبيلة: سراج من نار يظهر في اكتافهم حتى تنجم في صدورهم. رواه مسلم وسنذكر حديث سهل بن سعد: «لاعطين هذه الراية غدا» في «باب مناقب علي» رضي الله عنه وحديث جابر «من يصعد الثنية» في «باب جامع المناقب» إن شاء الله تعالى وَعَنْ حُذَيْفَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فِي أَصْحَابِي وَفِي رِوَايَة قا ل: فِي أُمَّتِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدُونَ رِيحَهَا حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سم الْخياط ثَمَانِيَة مِنْهُم تَكُ (فيهم الدُّبَيْلَةُ: سِرَاجٌ مِنْ نَارٍ يَظْهَرُ فِي أَكْتَافِهِمْ حَتَّى تَنْجُمَ فِي صُدُورِهِمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَسَنَذْكُرُ حَدِيثَ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ: «لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا» فِي «بَابِ مَنَاقِبِ عَلِيٍّ» رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَحَدِيثَ جَابِرٍ «مَنْ يَصْعَدُ الثَّنِيَّةَ» فِي «بَابِ جَامِعِ الْمَنَاقِبِ» إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى
حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے صحابہ میں۔ “ ایک روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں بارہ منافق ہوں گے وہ جنت میں داخل ہوں گے نہ اس کی خوشبو پائیں گے، حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے گزر جائے۔ ان میں سے آٹھ کو تو وہ پھوڑا ہی کافی ہے، (اس کے علاوہ) آگ کا ایک شعلہ جو ان کے کندھوں کے درمیان ظاہر ہو گا حتیٰ کہ اس کی حرارت کا اثر ان کے سینوں (یعنی دلوں) پر محسوس ہو گا۔ “ رواہ مسلم۔ اور ہم سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ((لأ عطین ھذا الرأیۃ غدا)) باب مناقب علی رضی اللہ عنہ اور جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ((من یصعد الشنیۃ)) باب جامع المناقب میں ان شاء اللہ تعالیٰ ذکر کریں گے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (10، 9 / 2779) حديث سھل بن سعد سيأتي (6080) و حديث جابر يأتي (6220)»
عن ابي موسى قال: خرج ابو طالب إلى الشام وخرج معه النبي صلى الله عليه وسلم في اشياخ من قريش فلما اشرفوا على الراهب هبطوا فحلوا رحالهم فخرج إليهم الراهب وكانوا قبل ذلك يمرون به فلا يخرج إليهم قال فهم يحلون رحالهم فجعل يتخللهم الراهب حتى جاء فاخذ بيد رسول الله صلى الله عليه وسلم قال هذا سيد العالمين هذا رسول رب العالمين يبعثه الله رحمة للعالمين فقال له اشياخ من قريش ما علمك فقال إنكم حين اشرفتم من العقبة لم يبق شجر ولا حجر إلا خر ساجدا ولا يسجدان إلا لنبي وإني اعرفه بخاتم النبوة اسفل من غضروف كتفه مثل التفاحة ثم رجع فصنع لهم طعاما فلما اتاهم به وكان هو في رعية الإبل فقال ارسلوا إليه فاقبل وعليه غمامة تظله فلما دنا من القوم وجدهم قد سبقوه إلى فيء الشجرة فلما جلس مال فيء الشجرة عليه فقال انظروا إلى فيء الشجرة مال عليه فقال انشدكم بالله ايكم وليه قالوا ابو طالب فلم يزل يناشده حتى رده ابو طالب وبعث معه ابو بكر بلالا وزوده الراهب من الكعك والزيت. (علق الشيخ ان ذكر بلال في الحديث خطا إذ لم يكن خلق بعد) عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَى الشَّام وَخرج مَعَه النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَلَمَّا أَشْرَفُوا عَلَى الرَّاهِبِ هَبَطُوا فَحَلُّوا رِحَالَهُمْ فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ وَكَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ يَمُرُّونَ بِهِ فَلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ قَالَ فَهُمْ يَحُلُّونَ رِحَالَهُمْ فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ حَتَّى جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِينَ هَذَا رسولُ ربِّ الْعَالِمِينَ يَبْعَثُهُ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْعَالِمِينَ فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ مَا عِلْمُكَ فَقَالَ إِنَّكُمْ حِينَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ كَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَّاحَةِ ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ وَكَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الْإِبِلِ فَقَالَ أَرْسِلُوا إِلَيْهِ فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْم وجدهم قد سَبَقُوهُ إِلَى فَيْء الشَّجَرَة فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيْءُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ فَقَالَ انْظُرُوا إِلَى فَيْءِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ فَقَالَ أنْشدكُمْ بِاللَّه أَيُّكُمْ وَلِيُّهُ قَالُوا أَبُو طَالِبٍ فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّى رَدَّهُ أَبُو طَالِبٍ وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُو بَكْرٍ بِلَالًا وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْكَعْكِ وَالزَّيْت. (علق الشَّيْخ أَن ذكر بِلَال فِي الحَدِيث خطأ إِذْ لم يكن خلق بعد)
ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ابوطالب، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قریش کے اکابرین کی معیت میں شام کے لیے روانہ ہوئے، جب وہ راہب کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس کے ہاں پڑاؤ ڈال کر اپنی سواریوں کے کجاوے کھول دیے، اتنے میں راہب ان کے پاس آیا، وہ اس سے پہلے بھی یہاں سے گزرا کرتے تھے، لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا، راوی بیان کرتے ہیں، وہ اپنی سواریوں کے کجاوے اتار رہے تھے تو راہب ان کے درمیان کسی کو تلاش کرتا پھر رہا تھا حتیٰ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گیا، اس نے آپ کا دست مبارک پکڑ کر کہا: یہ سید العالمین ہیں، یہ رب العالمین کے رسول ہیں، اللہ انہیں رحمتہ للعالمین بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ اس پر اکابرین قریش نے پوچھا: تمہارے علم کی بنیاد کیا ہے؟ اس نے کہا: جب تم گھاٹی پر چڑھے تو ہر شجر و حجر آپ کے سامنے جھک گیا، اور وہ صرف کسی نبی کی خاطر ہی جھکتے ہیں، اور میں مہر نبوت سے بھی انہیں پہچانتا ہوں جو ان کے شانے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مانند ہے، پھر وہ واپس گیا اور ان کے لیے کھانے کا اہتمام کیا، جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹوں کی چراگاہ میں تھے، اس نے کہا: انہیں بلا بھیجو، جب آپ تشریف لائے تو بادل کا ٹکڑا آپ پر سایہ فگن تھا، جب آپ اکیلے قوم کے پاس آئے تو وہ لوگ آپ سے پہلے ہی درخت کے سایہ میں جا چکے تھے۔ جب آپ بیٹھ گئے تو درخت کا سایہ جھک گیا، اس نے کہا: درخت کے سائے کو دیکھو کہ وہ ان پر جھک گیا ہے، اس نے کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں سے ان کا سرپرست کون ہے؟ انہوں نے بتایا، ابوطالب، وہ مسلسل ان کو قسم دیتا رہا (کہ آپ انہیں واپس لے جائیں) حتیٰ کہ ابوطالب نے انہیں واپس بھیج دیا، اور ابوبکر نے بلال کو آپ کے ساتھ روانہ کیا، اور راہب نے روٹی اور زیتون بطور زادراہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3620 وقال: غريب) ٭ يونس بن أبي إسحاق مدلس و عنعن.»