وعن ابي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده لا تقوم الساعة حتى تكلم السباع الإنس وحتى تكلم الرجل عذبة سوطه وشراك نعله ويخبره فخذه بما احدث اهله بعده» . رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُكَلِّمَ السِّبَاعُ الْإِنْسَ وَحَتَّى تُكَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ وَشِرَاكُ نَعْلِهِ وَيُخْبِرَهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے، اور حتیٰ کہ بندے سے اس کے کوڑے کا سر اور اس کے جوتے کا تسمہ کلام کرے گا اور اس کی ران اس کو اس کام کے متعلق بتائے گی جو اس کے بعد اس کے اہل نے کیا ہو گا۔ “ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (2281 و قال: حسن صحيح غريب)»
عن ابي قتادة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الآيات بعد المائتين. رواه ابن ماجه عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ. رَوَاهُ ابْن مَاجَه
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”علامات (قیامت) دو سو (سال) کے بعد ہوں گی۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (4057) ٭ عون: ضعيف وقال الذھبي: ’’أحسبه موضوعًا و عون ضعفوه‘‘.»
وعن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا رايتم الرايات السود قد جاءت من قبل خراسان فاتوها فإن فيها خليفة الله المهدي» . رواه احمد والبيهقي في «دلائل النبوة» وَعَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّايَاتِ السُّودَ قَدْ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ خُرَاسَانَ فَأْتُوهَا فَإِنَّ فِيهَا خَلِيفَةَ اللَّهِ الْمَهْدِيَّ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «دَلَائِل النبوَّة»
ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم خراسان کی طرف سے سیاہ جھنڈے آتے دیکھو تو ان کا استقبال کرو، کیونکہ ان میں اللہ کا خلیفہ مہدی ہو گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و البیھقی فی دلائل النبوۃ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (5/ 277 ح 22746) و البيھقي في دلائل النبوة (6/ 516) ٭ فيه علي بن زيد بن جدعان ضعيف، و علة أخري و قال ثوبان رضي الله عنه: ’’إذا رأيتم الرايات السود خرجت من قبل خراسان فآتوھا فإن فيھا خليفة الله المھدي‘‘ رواه الحاکم (4/ 502 ح 8531) وصححه علي شرط الشيخين و سنده حسن لذاته و رواه البيھقي في دلائل النبوة (6/ 516)»
وعن ابي إسحاق قال: قال علي ونظر إلى ابنه الحسن قال: إن ابني هذا سيد كما سماه رسول الله صلى الله عليه وسلم وسيخرج من صلبه رجل يسمى باسم نبيكم يشبهه في الخلق-ثم ذكر قصة-يملا الارض عدلا. رواه ابو داود ولم يذكر القصة وَعَن أبي إِسحاق قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ وَنَظَرَ إِلَى ابْنِهِ الْحَسَنِ قَالَ: إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ كَمَا سَمَّاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ رَجُلٌ يُسَمَّى بِاسْمِ نَبِيِّكُمْ يُشْبِهُهُ فِي الْخَلْقِ-ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّةَ-يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَلَمْ يَذْكُرِ الْقِصَّةَ
ابو اسحاق بیان کرتے ہیں، علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اور انہوں نے اپنے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا تو فرمایا: بے شک میرا یہ بیٹا سید ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نام رکھا، اور عنقریب اس کی صلب سے ایک آدمی نکلے گا اس کا نام تمہارے نبی کے نام پر ہو گا، وہ اخلاق و سیرت میں ان کے مشابہ ہو گا، اور وہ نقوش اور قد و قامت میں ان کے مشابہ نہیں ہو گا، پھر قصہ ذکر کیا کہ وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا۔ “ ابوداؤد، اور انہوں نے قصہ ذکر نہیں کیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (1/ 4290) ٭ أبو داود لم يدرک ھارون بن المغيرة فالسند منقطع و أبو إسحاق مدلس و عنعن و لم يسمعه من علي رضي الله عنه.»
وعن جابر بن عبد الله قال: فقد الجراد في سنة من سني عمر التي توفي فيها فاهتم بذلك هما شديدا فبعث إلى اليمن راكبا وراكبا إلى العرق وراكبا إلى الشام يسال عن الجراد هل اري منه شيئا فاتاه الراكب الذي من قبل اليمن بقبضة فنثرهابين يديه فلما رآها عمر كبر وقال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عز وجل خلق الف امة ستمائة منها في البحر واربعمائة في البر فإن اول هلاك هذه الامة الجراد فإذا هلك الجراد تتابعت الامم كنظام السلك «. رواه البيهقي في» شعب الإيمان وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: فُقِدَ الْجَرَادُ فِي سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا فَاهْتَمَّ بِذَلِكَ هَمًّا شَدِيدًا فَبَعَثَ إِلَى الْيمن رَاكِبًا وراكبا إِلَى الْعرق وَرَاكِبًا إِلَى الشَّامِ يَسْأَلُ عَنِ الْجَرَادِ هَلْ أُرِيَ مِنْهُ شَيْئًا فَأَتَاهُ الرَّاكِبُ الَّذِي مِنْ قبل الْيمن بقبضة فنثرهابين يَدَيْهِ فَلَمَّا رَآهَا عُمَرُ كَبَّرَ وَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ أَلْفَ أُمَّةٍ سِتُّمِائَةٍ مِنْهَا فِي الْبَحْرِ وَأَرْبَعُمِائَةٍ فِي الْبَرِّ فَإِنَّ أَوَّلَ هَلَاكِ هَذِهِ الْأُمَّةِ الْجَرَادُ فَإِذَا هَلَكَ الْجَرَادُ تَتَابَعَتِ الْأُمَمُ كَنِظَامِ السِّلْكِ «. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي» شُعَبِ الْإِيمَانِ
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے اس سال جس سال عمر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی، ٹڈی معدوم ہو گئی تو اس سے وہ بہت غمگین ہو گئے، انہوں نے ایک سوار یمن کی طرف، ایک عراق کی طرف اور ایک سوار شام کی طرف بھیجا تا کہ وہ ٹڈی کے متعلق دریافت کریں کہ آیا وہ کہیں نظر آئی ہے، یمن کی طرف سے سوار مٹھی میں ٹڈیاں لے کر آیا اور انہیں آپ (عمر رضی اللہ عنہ) کے سامنے پھیلا دیا، جب انہوں نے انہیں دیکھا تو (خوشی سے) نعرہ تکبیر بلند کیا، اور فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بے شک اللہ عزوجل نے ہزار قسم کے حیوان پیدا فرمائے، ان میں سے چھ سو سمندر میں ہیں، اور چار سو خشکی میں، اور ان میں سے سب سے پہلے ٹڈیاں ہلاک ہوں گی، جب ٹڈیاں ہلاک ہو جائیں گی تو اس کے بعد ہار کی ڈوری ٹوٹنے کے بعد موتیوں کے گرنے کی طرح باقی امتیں (اقسام) ہلاک ہوں گی۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10132. 10133، نسخة محققة: 9659. 9660) ٭ فيه عيسي بن شبيب وھو محمد بن عيسي الھلالي العبدي: ضعيف جدًا ضعفه الجمھور و الراوي عنه شيخ وھو عبيد بن واقد القيسي: ضعيف.»
عن حذيفة بن اسيد الغفاري قال: اطلع النبي صلى الله عليه وسلم علينا ونحن نتذاكر. فقال: «ما تذكرون؟» . قالوا: نذكر الساعة. قال: إنها لن تقوم حتى تروا قبلها عشر آيات فذكر الدخان والدجال والدابة وطلوع الشمس من مغربها ونزول عيسى بن مريم وياجوج وماجوج وثلاثة خسوف: خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة العرب وآخر ذلك نار تخرج من اليمن تطرد الناس إلى محشرهم. وفي رواية: «نار تخرج من قعر عدن تسوق الناس إلى المحشر» . وفي رواية في العاشرة «وريح تلقي الناس في البحر» . رواه مسلم عَن حذيفةَ بن أسيد الْغِفَارِيّ قَالَ: اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ. فَقَالَ: «مَا تَذْكُرُونَ؟» . قَالُوا: نَذْكُرُ السَّاعَةَ. قَالَ: إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْا قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ فَذَكَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّابَّةَ وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَنُزُولَ عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ وَيَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ. وَفِي رِوَايَةٍ: «نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قَعْرِ عَدَنَ تَسُوقُ النَّاسَ إِلَى الْمَحْشَرِ» . وَفِي رِوَايَةٍ فِي الْعَاشِرَةِ «وَرِيحٌ تُلْقِي النَّاسَ فِي الْبَحْر» . رَوَاهُ مُسلم
حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم آپس میں بات چیت کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم کیا باتیں کر رہے ہو؟“ انہوں نے عرض کیا، ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں دیکھ لو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دھوئیں، دجال، جانور کے نکلنے، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے، عیسیٰ بن مریم ؑ کے تشریف لانے، یاجوج ماجوج کے نکلنے، تین بار زمین کے دھنسنے: ایک بار مشرق میں ایک بار مغرب میں اور ایک بار جزیرہ عرب میں دھنسنے کا ذکر فرمایا اور ان (دس) میں سے آخری نشانی کا ذکر فرمایا کہ آگ یمن کی طرف سے نکلے گی وہ لوگوں کو ان کے حشر کے میدان کی طرف ہانک کر لے جائے گی۔ “ اور ایک روایت میں ہے: ”عدن کے آخری کنارے سے آگ ظاہر ہو گی، وہ لوگوں کو حشر کے میدان کی طرف ہانکے گی۔ “ اور دوسری روایت میں دسویں نشانی کے متعلق ہے: ”وہ ہوا ہو گی جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (39/ 2901، 40 / 2901)»
قال الشيخ زبير على زئي: رواه مسلم (39/ 2901، 40 / 2901)
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بادروا بالاعمال ستا. الدخان والدجال ودابة الارض وطلوع الشمس من مغربها وامر العامة وخويصة احدكم» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ سِتًّا. الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَدَابَّةَ الْأَرْضِ وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَأَمْرَ الْعَامَّةِ وَخُوَيْصَّةَ أَحَدِكُمْ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، (علامات قیامت کے ظہور سے پہلے جو کہ) چھ ہیں، دھواں، دجال، دابۃ الارض اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، نیز وہ عام فتنہ (موت) جو عام لوگوں کو ہلاک کر دے گا اور خاص فتنہ جو تمہارے خاص کو فنا کر دے گا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (129/ 2947)»
وعن عبد الله بن عمرو قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن اول الآيات خروجا طلوع الشمس من مغربها وخروج الدابة على الناس ضحى وايهما ما كانت قبل صاحبتها فالاخرى على اثرها قريبا» رواه مسلم وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٌو قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى وَأَيُّهُمَا مَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا فَالْأُخْرَى على أَثَرهَا قَرِيبا» رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”علامات قیامت میں سے پہلی (سماوی) علامت سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے، اور چاشت کے وقت دابہ (حیوان) کا لوگوں کے سامنے نکلنا ہے، ان دونوں میں سے جو بھی اپنے ساتھ والے سے پہلے نکل آیا تو دوسرا اس کے پیچھے قریب ہی ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (118/ 2941)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ثلاث إذا خرجن (لا ينفع نفسا إيمانها لم تكن آمنت من قبل او كسبت في إيمانها خيرا) طلوع الشمس من مغربها والدجال ودابة الارض» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ثَلَاثٌ إِذَا خَرَجْنَ (لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا) طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَالدَّجَّالُ وَدَابَّةُ الْأَرْضِ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تین نشانیاں، جب ان کا ظہور ہو جائے گا تو ”اس وقت کسی شخص کا ایمان لانا اس کے لیے نفع مند نہیں ہو گا بشرطیکہ وہ اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے حالت ایمان میں نیک کام نہ کیے ہوں۔ “ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال اور دابۃ الارض کا نکلنا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (249/ 158)»
وعن ابي ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين غربت الشمس: «اين تذهب؟» . قلت: الله ورسوله اعلم. قال: فإنها تذهب حتى تسجد تحت العرش فتستاذن فيؤذن لها ويوشك ان تسجد ولا يقبل منها وتستاذن فلا يؤذن لها ويقال لها: ارجعي من حيث جئت فتطلع من مغربها فذلك قوله تعالى (والشمس تجري لمستقر لها) قال: «مستقرها تحت العرش» . متفق عليه وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ غربت الشَّمْس: «أَيْن تذْهب؟» . قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَأْذِنُ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَيُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا يُؤْذَنُ لَهَا وَيُقَالُ لَهَا: ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى (والشمسُ تجْرِي لمستقرّ لَهَا) قَالَ: «مستقرها تَحت الْعَرْش» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ سورج غروب ہونے کے بعد کہاں جاتا ہے؟“ میں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جاتا ہے حتیٰ کہ عرش کے نیچے سجدہ ریز ہو کر (مشرق سے طلوع ہونے کی) اجازت طلب کرتا ہے، اسے اجازت دے دی جاتی ہے، اور قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور وہ اس سے قبول نہ کیا جائے، وہ اجازت طلب کرے اور اسے اجازت نہ دی جائے، اور اسے کہا جائے، جہاں سے آئے ہو وہیں چلے جاؤ، وہ مغرب سے طلوع ہو گا، اور یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”سورج اپنی قرار گاہ کی طرف چل رہا ہے۔ “ فرمایا: ”اس کی قرار گاہ عرش کے نیچے ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3199) و مسلم (251، 250 / 159)»