وعن ابي موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: «إن بين يدي الساعة فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافرا ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا القاعد خير من القائم والماشي خير من الساعي فكسروا فيها قسيكم وقطعوا فيها اوتاركم واضربوا سيوفكم بالحجارة فإن دخل على احد منكم فليكن كخير ابني آدم» . رواه ابو داود. وفي رواية له (ضعيف): «ذكر إلى قوله» خير من الساعي ثم قالوا: فما تامرنا؟ قال: كونوا احلاس بيوتكم. وفي رواية الترمذي: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في الفتنة: «كسروا فيها قسيكم وقطعوا فيها اوتاركم والزموا فيها اجواف بيوتكم وكونوا كابن آدم» . وقال: هذا حديث صحيح غريب وَعَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا الْقَاعِد خير من الْقَائِم والماشي خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي فَكَسِّرُوا فِيهَا قِسِيَّكُمْ وَقَطِّعُوا فِيهَا أَوْتَارَكُمْ وَاضْرِبُوا سُيُوفَكُمْ بِالْحِجَارَةِ فَإِنْ دُخِلَ عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد. وَفِي رِوَايَة لَهُ (ضَعِيف): «ذَكَرَ إِلَى قَوْلِهِ» خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي ثُمَّ قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: كُونُوا أَحْلَاسَ بُيُوتِكُمْ. وَفِي رِوَايَةِ التِّرْمِذِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْفِتْنَةِ: «كَسِّرُوا فِيهَا قِسِيَّكُمْ وَقَطِّعُوا فِيهَا أَوْتَارَكُمْ وَالْزَمُوا فِيهَا أَجْوَافَ بُيُوتِكُمْ وَكُونُوا كَابْنِ آدَمَ» . وَقَالَ: هَذَا حديثٌ صحيحٌ غريبٌ
ابوموسی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے شب تاریک کے ٹکڑوں کی طرح (لگاتار) فتنے ہوں گے، ان میں آدمی صبح کے وقت مومن ہو گا تو شام کے وقت کافر اور شام کے وقت مومن ہو گا تو صبح کے وقت کافر، ان میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا، اور ان میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، تم ان میں اپنی کمانیں توڑ ڈالو اور (اپنی کمانوں کے) تانت کاٹ ڈالو اور اپنی تلواروں کو پتھر پر دے مارو، اور اگر وہ (فتنہ) تم میں سے کسی پر داخل ہو گیا تو اسے چاہیے کہ وہ آدم ؑ کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے (ہابیل) کی طرح ہو جائے۔ “ اور ابوداؤد کی انہی سے مروی حدیث میں: ”بہتر ہے دوڑنے والے سے“ تک مروی ہے، پھر انہوں نے عرض کیا، آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے گھروں میں جم جانا۔ “ اور ترمذی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنے کے دور کے متعلق فرمایا: ”ان میں اپنی کمانوں کو توڑ دینا، ان میں اپنے تانت کاٹ ڈالنا اور ان فتنوں کے وقت اپنے گھر کی چار دیواری کو لازم پکڑنا، اور ابن آدم (ہابیل) کی طرح ہو جانا۔ “ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث صحیح غریب ہے۔ سنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (4259، 4262) و الترمذي (2204)»
وعن ام مالك البهزية قالت: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنة فقربها. قلت: يا رسول الله من خير الناس فيها؟ قال: «رجل في ماشيته يؤدي حقها ويعبد ربه ورجل اخذ براس فراسه يخيف العدو ويخوفونه» . رواه الترمذي وَعَن أم مَالك البهزية قَالَتْ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِتْنَةً فَقَرَّبَهَا. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ خَيْرُ النَّاسِ فِيهَا؟ قَالَ: «رَجُلٌ فِي مَاشِيَتِهِ يُؤَدِّي حَقَّهَا وَيَعْبُدُ رَبَّهُ وَرَجُلٌ أَخَذَ برأسٍ فرأسه يخيف الْعَدو ويخوفونه» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ام مالک بہزیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنے کا ذکر کیا تو آپ نے اسے قریب قرار دیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس (فتنے) میں بہترین شخص کون ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ آدمی جو اپنے مویشیوں میں ہے وہ ان کا بھی حق (یعنی زکوۃ) ادا کرتا ہے اور اپنے رب کی عبادت بھی کرتا ہے، اور وہ آدمی جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑتا ہے اور وہ اپنے دشمن (کافروں) کو ڈراتا ہے اور وہ اسے ڈراتے ہیں۔ “ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2177 وقال: غريب) ٭ الرجل مجھول أو ھو ليث بن أبي سليم ضعيف مشھور و روي الحاکم (4/ 446 ح 8380) عن ابن عباس قال قال رسول الله ﷺ: ((خير الناس في الفتن رجل آخذ بعنان فرسه.)) أو قال: ((برسن فرسه خلف أعداء الله يخيفھم و يخيفونه أو رجل معتزل في با ديته يؤدي حق الله تعالي الذي عليه.)) و سنده حسن.»
وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ستكون فتنة تستنظف العرب قتلاها في النار اللسان فيها اشد من وقع السيف» . رواه الترمذي وابن ماجه وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتَكُونُ فِتْنَةٌ تَسْتَنْظِفُ الْعَرَبَ قَتْلَاهَا فِي النَّارِ اللِّسَانُ فِيهَا أَشَدُّ مِنْ وَقْعِ السَّيْفِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْن مَاجَه
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب ایک بڑا فتنہ ہو گا جو کہ تمام عربوں پر محیط ہو گا، اس کے مقتولین جہنمی ہیں، اس بارے میں زبان درازی کرنا تلوار زنی کرنے سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2178 وقال: غريب) و ابن ماجه (3967) [و أبو داود (4256)] ٭ زياد: مجھول الحال و ليث بن أبي سليم: ضعيف.»
وعن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ستكون فتنة صماء بكماء عمياء من اشرف لها استشرفت له وإشراف اللسان فيها كوقوع السيف» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَتَكُونُ فِتْنَةٌ صَمَّاءُ بكماء عمياءُ مَنْ أَشْرَفَ لَهَا اسْتَشْرَفَتْ لَهُ وَإِشْرَافُ اللِّسَانِ فِيهَا كوقوع السَّيْف» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب بہرا، گونگا اور اندھا فتنہ ہو گا، جو شخص اس کے قریب جائے گا، تو وہ اسے اپنی لپیٹ میں لے لے گا، اس بارے میں زبان درازی کرنا شمشیر زنی کرنے کی طرح ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4264) ٭ عبد الرحمٰن بن البيلماني: ضعيف.»
وعن عبد الله بن عمر قال: كنا قعودا عند النبي صلى الله عليه وسلم فذكر الفتن فاكثر في ذكرها حتى ذكر فتنة الاحلاس فقال قائل: وما فتنة الاحلاس. قال: هي هرب وحرب ثم فتنة السراء دخنها من تحت قدمي رجل من اهل بيتي يزعم انه مني وليس مني إنما اوليائي المتقون ثم يصطلح الناس على رجل كورك على ضلع ثم فتنة الدهماء لا تدع احدا من هذه الامة إلا لطمته لطمة فإذا قيل: انقضت تمادت يصبح الرجل فيها مؤمنا ويمسي كافرا حتى يصير الناس إلى فسطاطين: فسطاط إيمان لا نفاق فيه وفسطاط نفاق لا إيمان فيه. فإذا كان ذلك فانتظروا الدجال من يومه او من غده. رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْفِتَنَ فَأَكْثَرَ فِي ذِكْرِهَا حَتَّى ذَكَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ فَقَالَ قَائِلٌ: وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ. قَالَ: هِيَ هَرَبٌ وَحَرَبٌ ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ دَخَنُهَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي وَلَيْسَ مِنِّي إِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ ثُمَّ يَصْطَلِحُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ كورك على ضلع ثمَّ فتْنَة الدهماء لَا تَدَعُ أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطْمَتْهُ لَطْمَةً فَإِذَا قِيلَ: انْقَضَتْ تَمَادَتْ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا حَتَّى يَصِيرَ النَّاسُ إِلَى فُسْطَاطَيْنِ: فُسْطَاطِ إِيمَانٍ لَا نِفَاقَ فِيهِ وَفُسْطَاطِ نِفَاقٍ لَا إِيمَانَ فِيهِ. فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَانْتَظِرُوا الدَّجَّالَ مِنْ يَوْمِهِ أَوْ من غده. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے فتنوں کا ذکر کیا اور آپ نے ان کے متعلق بہت بیان فرمایا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ احلاس کا ذکر فرمایا، کسی نے عرض کیا، فتنہ احلاس کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بھاگنا اور لوٹنا ہے، پھر فتنہ خوشحالی ہے اس کا ابھرنا میرے اہل بیت کے ایک آدمی کے پاؤں کے نیچے سے ہو گا، وہ گمان کرے گا کہ وہ مجھ سے ہے، حالانکہ وہ مجھ میں سے نہیں، میرے دوست تو متقی لوگ ہی ہیں، پھر لوگ ایک ایسے شخص (کی امامت و حکمرانی) پر راضی ہو جائیں گے جیسے سرین ایک پسلی پر ہو (یعنی نا اہل شخص کو حکمران بنا لیں گے) پھر فتنہ دہیماء اس امت کے ہر فرد پر اثر انداز ہو گا، جب کہا جائے گا کہ وہ ختم ہو گیا ہے تو وہ دراز ہو جائے گا، اس (فتنے) میں آدمی صبح کے وقت مومن ہو گا تو شام کو کافر حتیٰ کہ لوگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے، ایمان کا گروہ جس میں کوئی نفاق نہیں، اور نفاق کا گروہ جس میں ایمان نہیں، جب یہ صورت ہو تو پھر دجال کا انتظار کرو آج ظاہر ہوا یا کل۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4242)»
وعن ابي هريرة ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ويل للعرب من شر قد اقترب افلح من كف يده» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ أَفْلَحَ مَنْ كَفَّ يَدَهُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عربوں کے لیے، شر سے جو کہ قریب آ چکا ہے، ہلاکت ہے، جس نے اپنا ہاتھ روک لیا وہ کامیاب ہو گیا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4249) ٭ الأعمش مدلس و عنعن و للحديث شواھد معنوية عند الحاکم (4/ 439) وغيره، غير قوله: ’’أفلح من کف يده‘‘.»
وعن المقداد بن الاسود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن السعيد لمن جنب الفتن إن السعيد لمن جنب الفتن إن السعيد لمن جنب الفتن ولمن ابتلي فصبر فواها» . رواه ابو داود وَعَن الْمِقْدَاد بن الْأسود قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ وَلَمَنِ ابْتُلِيَ فَصَبَرَ فَوَاهًا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”سعادت مند شخص وہ ہے جو فتنوں سے بچا لیا گیا، سعادت مند شخص وہ ہے جو فتنوں سے بچا لیا گیا، بے شک سعادت مند شخص وہ ہے جو فتنوں سے بچا لیا گیا، اور جو شخص ان سے آزمایا گیا اور اس نے صبر کیا تو اس کے لیے خوشخبری ہے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4263)»
وعن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا وضع السيف في امتي لم يرفع عنها إلى يوم القيامة ولا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من امتي بالمشركين وحتى تعبد قبائل من امتي الاوثان وإنه سيكون في امتي كذابون ثلاثون كلهم يزعم انه نبي الله وانا خاتم النبيين لا نبي بعدي ولا تزال طائفة من امتي على الحق ظاهرين لا يضرهم من خالفهم حتى ياتي امر الله» . رواه ابو داود وَعَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيُّ اللَّهِ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيين لَا نَبِيَّ بِعْدِي وَلَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب میری امت میں (ایک دوسرے سے لڑائی کے لیے) تلوار مسلط کر دی جائے گی تو وہ روز قیامت تک اس سے نہیں اٹھائی جائے گی، اور قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ میری امت کے قبائل مشرکین سے جا ملیں گے اور حتیٰ کہ میری امت کے قبائل بتوں کی پوجا کریں گے، اور میری امت میں تیس کذاب ہوں گے اور وہ سب دعویٰ کریں گے کہ وہ اللہ کا نبی ہے، جبکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ہو گا، وہ غالب رہیں گے ان کا مخالف ان کا کوئی نقصان نہیں کر سکے گا حتیٰ کہ اللہ کا حکم آ جائے۔ “ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (4252)»
وعن عبد الله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «تدور رحى الإسلام لخمس وثلاثين او ست وثلاثين او سبع وثلاثين فإن يهلكوا فسبيل من هلك وإن يقم لهم دينهم يقم لهم سبعين عاما» . قلت: امما بقي او مما مضى؟ قال: «مما مضى» . رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «تَدُورُ رَحَى الْإِسْلَامِ لِخَمْسٍ وَثَلَاثِينَ أَوْ سِتٍّ وَثَلَاثِينَ أَوْ سَبْعٍ وَثَلَاثِينَ فَإِنْ يَهْلِكُوا فَسَبِيلُ مَنْ هَلَكَ وَإِنْ يَقُمْ لَهُمْ دِينُهُمْ يَقُمْ لَهُمْ سَبْعِينَ عَامًا» . قُلْتُ: أَمِمَّا بَقِيَ أَوْ مِمَّا مَضَى؟ قَالَ: «مِمَّا مضى» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کی چکی پینتیس یا چھتیس یا سینتیس برس تک (نظام کے تحت) چلتی رہے گی، اگر انہوں نے (اختلاف کیا اور دین کو بے وقعت سمجھ کر) ہلاکت کو اختیار کیا تو پھر ان کی راہ وہی ہے جو ہلاک ہوئے (جیسے سابقہ امتیں)، اور اگر ان کے لیے ان کا دین قائم رہا تو وہ ان کے لیے ستر سال تک رہے گا۔ “ میں نے عرض کیا: کیا (وہ ستر برس) اس سے ہیں جو باقی رہ گیا یا اس سے ہیں جو گزر چکا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے جو گزر چکا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (4254)»
عن ابي واقد الليثي: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما خرج إلى غزوة حنين مر بشجرة للمشركين كانوا يعلقون عليها اسلحتهم يقال لها: ذات انواط. فقالوا: يا رسول الله اجعل لنا ذات انواط كما لهم ذات انواط فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «سبحان الله هذا كما قال قوم موسى (اجعل لنا إلها كما لهم آلهة) والذي نفسي بيده لتركبن سنن من كان قبلكم» . رواه الترمذي عَن أبي واقدٍ اللَّيْثِيّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا خَرَجَ إِلَى غَزْوَةِ حُنَيْنٍ مَرَّ بِشَجَرَةٍ لِلْمُشْرِكِينَ كَانُوا يُعَلِّقُونَ عَلَيْهَا أَسْلِحَتَهُمْ يُقَالُ لَهَا: ذَاتُ أَنْوَاطٍ. فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ كَمَا لَهُمْ ذَاتُ أَنْوَاطٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ هَذَا كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى (اجْعَل لنا إِلَهًا كَمَا لَهُم آلهةٌ) وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قبلكُمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابو واقد لیشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غزوۂ حنین کے لیے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے گزرے، جس پر وہ اپنا اسلحہ لٹکایا کرتے تھے، اسے ذات انواط کہا جاتا تھا، صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ذات انواط مقرر فرما دیں جس طرح ان کے لیے ذات انواط ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (تعجب سے) فرمایا: ”سبحان اللہ! یہ (بات) تو ایسے ہی ہے جیسے موسیٰ ؑ کی قوم نے کہا تھا: ”ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کر دیں جس طرح ان کے معبود ہیں۔ “ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم بھی اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (2180 وقال: حسن صحيح)»