وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: لقيته وقد نفرت عينه فقلت: متى فعلت عينك ما ارى؟ قال: لا ادري. قلت: لا تدري وهي في راسك؟ قال: إن شاء الله خلقها في عصاك. قال: فنخر كاشد نخير حمار سمعت. رواه مسلم وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: لَقِيتُهُ وَقَدْ نَفَرَتْ عَيْنُهُ فَقُلْتُ: مَتَى فَعَلَتْ عَيْنُكَ مَا أَرَى؟ قَالَ: لَا أَدْرِي. قُلْتُ: لَا تَدْرِي وَهِيَ فِي رَأْسِكَ؟ قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ خَلَقَهَا فِي عَصَاكَ. قَالَ: فَنَخَرَ كأشد نخير حمَار سَمِعت. رَوَاهُ مُسلم
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں اس (ابن صیاد) سے ملا اور اس کی آنکھ سوجی ہوئی تھی، میں نے کہا: میں جو دیکھ رہا ہوں تیری آنکھ کو کب سے ایسے ہے؟ اس نے کہا: میں نہیں جانتا، میں نے کہا: تو نہیں جانتا حالانکہ وہ تیرے سر میں ہے، اس نے کہا: اگر اللہ چاہے تو وہ اسے تیرے عصا میں پیدا کر دے، ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ گدھے سے بھی زیادہ خوفناک آواز میں چیخنے لگا، میں نے (اس کی) آواز سنی۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (99/ 2932)»
وعن محمد بن المنكدر قال: رايت جابر بن عبد الله يحلف بالله ان ابن الصياد الدجال. قلت: تحلف بالله؟ قال: إني سمعت عمر يحلف على ذلك عند النبي صلى الله عليه وسلم فلم ينكره النبي صلى الله عليه وسلم. متفق عليه وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ قَالَ: رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَحْلِفُ بِاللَّهِ أَنَّ ابْنَ الصَّيَّادِ الدَّجَّالُ. قُلْتُ: تَحْلِفُ بِاللَّهِ؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يَحْلِفُ عَلَى ذَلِكَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُنْكِرْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں، میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے سنا کہ ابن صیاد دجال ہے، میں نے کہا: آپ اللہ کی قسم اٹھاتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قسم اٹھاتے ہوئے سنا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر ناگواری نہیں فرمائی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (7355) و مسلم (94/ 2929)»
عن نافع قال: كان ابن عمر يقول: والله ما اشك ان المسيح الدجال ابن صياد. رواه ابو داود والبيهقي في «كتاب البعث والنشور» عَنْ نَافِعٍ قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَشُكُّ أَنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ ابْنُ صيَّادٍ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «كِتَابِ الْبَعْثِ والنشور»
نافع بیان کرتے ہیں، ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کیا کرتے تھے، اللہ کی قسم! مجھے کوئی شک نہیں کہ مسیح دجال ابن صیاد ہی ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد و البیھقی فی کتاب البعث و النشور۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4330) و البيھقي في البعث و النشور (لم أجده)»
وعن جابر رضي الله عنه قال: قد فقدنا ابن صياد يوم الحرة. رواه ابو داود وَعَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَدْ فَقَدْنَا ابْنَ صَيَّادٍ يَوْمَ الْحَرَّةِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے حرہ کے دن ابن صیاد کو نہ پایا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4332) ٭ الأعمش مدلس و عنعن.»
وعن ابي بكرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يمكث ابو الدجال ثلاثين عاما لا يولد لهما ولد ثم يولد لهما غلام اعور اضرس واقله منفعة تنام عيناه ولا ينام قلبه» . ثم نعت لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ابويه فقال: «ابوه طوال ضرب اللحم كان انفه منقار وامه امراة فرضاخية طويلة اليدين» . فقال ابو بكرة: فسمعنا بمولود في اليهود. فذهبت انا والزبير بن العوام حتى دخلنا على ابويه فإذا نعت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيهما فقلنا هل لكما ولد؟ فقالا: مكثنا ثلاثين عاما لا يولد لنا ولد ثم ولد لنا غلام اعور اضرس واقله منفعة تنام عيناه ولا ينام قلبه قال فخرجنا من عندهما فإذا هو مجندل في الشمس في قطيفة وله همهمة فكشف عن راسه فقال: ما قلتما: وهل سمعت ما قلنا؟ قال: نعم تنام عيناي ولا ينام قلبي رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «يمْكث أَبُو الدَّجَّالِ ثَلَاثِينَ عَامًا لَا يُولَدُ لَهُمَا وَلَدٌ ثُمَّ يُولَدُ لَهُمَا غُلَامٌ أَعْوَرُ أَضْرَسُ وَأَقَلُّهُ مَنْفَعَةً تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ» . ثُمَّ نَعَتَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ فَقَالَ: «أَبُوهُ طُوَالٌ ضَرْبُ اللَّحْمِ كَأَنَّ أَنْفَهُ مِنْقَارٌ وَأُمُّهُ امْرَأَةٌ فِرْضَاخِيَّةٌ طَوِيلَةُ الْيَدَيْنِ» . فَقَالَ أَبُو بَكْرَةَ: فَسَمِعْنَا بِمَوْلُودٍ فِي الْيَهُود. فَذَهَبْتُ أَنَا وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَبَوَيْهِ فَإِذَا نَعْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمَا فَقُلْنَا هَلْ لَكُمَا وَلَدٌ؟ فَقَالَا: مَكَثْنَا ثَلَاثِينَ عَامًا لَا يُولَدُ لَنَا وَلَدٌ ثُمَّ وُلِدَ لَنَا غُلَامٌ أَعْوَرُ أَضْرَسُ وَأَقَلُّهُ مَنْفَعَةً تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ قَالَ فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمَا فَإِذَا هُوَ مجندل فِي الشَّمْسِ فِي قَطِيفَةٍ وَلَهُ هَمْهَمَةٌ فَكَشَفَ عَن رَأسه فَقَالَ: مَا قلتما: وَهَلْ سَمِعْتَ مَا قُلْنَا؟ قَالَ: نَعَمْ تَنَامُ عَيْنَايَ وَلَا ينَام قلبِي رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دجال کے والدین تیس سال تک (بے اولاد) رہیں گے اور ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہو گا، پھر ان کے ہاں لڑکا پیدا ہو گا جو کانا، بڑے دانتوں والا اور بہت ہی کم منافع پہنچانے والا ہو گا، اس کی آنکھیں سوئیں گی لیکن اس کا دل نہیں سوئے گا۔ “ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے والدین کے متعلق ہمیں تعارف کرایا، فرمایا: ”اس کا والد طویل القامت، پتلا ہو گا اور اس کی ناک لمبی ہو گی، اس کی والدہ موٹی لمبے ہاتھوں والی ہو گی۔ “ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے مدینہ میں یہودیوں کے ہاں ایک بچے کی ولادت کی خبر سنی تو میں اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ گئے حتی کہ ہم اس کے والدین کے پاس پہنچ گئے، دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو صفات بیان کی تھیں وہ ان میں موجود تھیں، ہم نے ان سے کہا: کیا تمہارا کوئی بچہ ہے؟ انہوں نے کہا: ہم تیس سال تک (بے اولاد) رہے، اور ہمارے ہاں کوئی بچہ پیدا نہ ہوا، پھر ہمارے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جو کانا، لمبے دانتوں والا اور انتہائی کم نفع مند ہے، اس کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن اس کا دل نہیں سوتا۔ راوی بیان کرتے ہیں، ہم ان دونوں کے پاس سے نکلے تو وہ ایک چادر میں لپٹا ہوا دھوپ میں زمین پر لیٹا ہوا تھا اور اس کی آواز پست تھی، اس نے اپنے سر سے کپڑا اٹھایا تو یہ کہا: تم دونوں نے یہ کیا کہا تھا؟ ہم نے کہا: ہم نے جو کہا تھا کیا تو نے اسے سن لیا تھا؟ اس نے کہا: ہاں، میری آنکھیں سوتی ہیں جبکہ میرا دل نہیں سوتا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2248 و قال: حسن غريب) ٭ فيه علي بن زيد بن جدعان: ضعيف.»
وعن جابر ان امراة من اليهود بالمدينة ولدت غلاما ممسوحة عينه طالعة نابه فاشفق رسول الله صلى الله عليه وسلم إن يكون الدجال فوجده تحت قطيفة يهمهم. فآذنته امه فقالت: يا عبد الله هذا ابو القاسم فخرج من القطيفة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لها قاتلها الله؟ لو تركته لبين فذكر مثل معنى حديث ابن عمر فقال عمر بن الخطاب ائذن لي يا رسول الله فاقتله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن يكن هو فليست صاحبه إنما صاحبه عيسى بن مريم وإلا يكن هو فليس لك اتقتل رجلا من اهل العهد» . فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم مشفقا انه هو الدجال. رواه في شرح السنة وهذا الباب خال عن الفصل الثالث وَعَنْ جَابِرٍ أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الْيَهُودِ بِالْمَدِينَةِ وَلَدَتْ غُلَامًا مَمْسُوحَةٌ عَيْنُهُ طَالِعَةٌ نَابُهُ فَأَشْفَقَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِن يَكُونَ الدَّجَّالَ فَوَجَدَهُ تَحْتَ قَطِيفَةٍ يُهَمْهِمُ. فَآذَنَتْهُ أُمُّهُ فَقَالَتْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا أَبُو الْقَاسِمِ فَخَرَجَ مِنَ الْقَطِيفَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَهَا قَاتَلَهَا اللَّهُ؟ لَوْ تَرَكَتْهُ لَبَيَّنَ فَذَكَرَ مِثْلَ مَعْنَى حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَقْتُلَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِن يكن هُوَ فَلَيْسَتْ صَاحِبَهُ إِنَّمَا صَاحِبُهُ عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ وَإِلَّا يكن هُوَ فَلَيْسَ لَك أتقتل رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْعَهْدِ» . فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُشْفِقًا أَنَّهُ هُوَ الدَّجَّال. رَوَاهُ فِي شرح السّنة وَهَذَا الْبَابُ خَالٍ عَنِ الْفَصْلِ الثَّالِثِ
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت نے مدینہ میں ایک بچے کو جنم دیا جس کی آنکھ نہیں تھی، اس کی کچلیاں نظر آ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ وہ دجال نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ایک چادر کے نیچے کچھ غیر واضح باتیں کرتے ہوئے پایا، اس کی والدہ نے اسے اطلاع کر دی، کہا: عبداللہ! یہ تو ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، وہ چادر سے نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کیا ہوا؟ اللہ اسے ہلاک کرے، اگر وہ اس (ابن صیاد) کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی تو وہ (اپنے دل کی بات) بیان کر دیتا۔ “ پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے معنی کی مثل حدیث بیان کی، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے اجازت مرحمت فرمائیں کہ میں اسے قتل کر دوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو یہ وہی (دجال) ہے تو پھر تم اسے قتل کرنے والے نہیں ہو، اسے قتل کرنے والے تو عیسیٰ بن مریم ؑ ہیں، اور اگر وہ (دجال) نہ ہوا تو پھر کسی ذمی شخص کو قتل کرنے کا تمہیں کوئی حق حاصل نہیں۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل خوف زدہ رہے کہ وہ دجال ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (5/ 78ح 4274) [و أحمد (3/ 368 ح 15018)] ٭ فيه أبو الزبير مدلس و عنعن.»
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده ليوشكن ان ينزل فيكم ابن مريم حكما عدلا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله احد حتى تكون السجدة الواحدة خيرامن الدنيا وما فيها» . ثم يقول ابو هريرة: فاقرؤا إن شئتم [وإن من اهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته] الآية. متفق عليه عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ليوشكَنَّ أَن ينزلَ فِيكُم ابنُ مَرْيَم حكَمَاً عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّى تكون السَّجْدَة الْوَاحِدَة خيرامن الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» . ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: فاقرؤا إِن شئْتم [وإِنْ من أهل الْكتاب إِلاّ ليُؤْمِنن بِهِ قبل مَوته] الْآيَة. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ قریب ہے کہ ابن مریم (عیسیٰ ؑ) تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کے طور پر نازل ہوں گے، وہ صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو مار ڈالیں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے اور مال کی اتنی ریل پیل ہو گی کہ اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا، حتی کہ ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔ “ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو: ”اہل کتاب کا ہر فرد ان (عیسیٰ ؑ) کی موت سے پہلے ان پر ضرور ایمان لے آئے گا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2222) و مسلم (242 / 155)»
وعنه قا ل: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والله لينزلن ابن مريم حكما عادلا فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير وليضعن الجزية وليتركن القلاص فلا يسعى عليها ولتذهبن الشحناء والتحاسد وليدعون إلى المال فلا يقبله احد» . رواه مسلم. وفي رواية لهما قال: «كيف انتم إذا نزل ابن مريم فيكم وإمامكم منكم» وَعنهُ قا ل: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ لَيَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَادِلًا فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ وَلَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ وَلَيَتْرُكَنَّ الْقِلَاصَ فَلَا يسْعَى عَلَيْهَا ولتذهبن الشحناء وَالتَّحَاسُدُ وَلَيَدْعُوَنَّ إِلَى الْمَالِ فَلَا يَقْبَلُهُ أَحَدٌ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ. وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا قَالَ: «كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُم»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ابن مریم (عیسیٰ ؑ) حکمِ عادل کی حیثیت سے نازل ہوں گے، وہ صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے، جوان اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی ان سے کوئی کام نہیں لیا جائے گا، عداوت و رنجش اور باہمی بغض و حسد جاتا رہے گا، وہ مال کی طرف بلائیں گے لیکن اسے کوئی لینے والا نہیں ہو گا۔ “ رواہ مسلم۔ اور صحیحین کی روایت میں ہے، فرمایا: ”تمہاری اس وقت کیا حالت ہو گی جب ابن مریم ؑ تمہارے درمیان نزول فرمائیں گے، اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔ “
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (243 / 155) والرواية الثانية، رواھا البخاري (3449) و مسلم (244/ 155)»
وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تزال طائفة من امتي يقاتلون على الحق ظاهرين إلى يوم القيامة» . قا ل: فينزل عيسى بن مريم فيقول اميرهم: تعال صل لنا فيقول: لا إن بعضكم على بعض امراء تكرمة الله هذه الامة. رواه مسلم وهذا الباب خال عن الفصل الثاني وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة» . قا ل: فَينزل عِيسَى بن مَرْيَمَ فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ: تَعَالَ صَلِّ لَنَا فَيَقُولُ: لَا إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ تَكْرِمَةَ الله هَذِه الْأمة. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَهَذَا الْبَابُ خَالٍ عَنِ الْفَصْلِ الثَّانِي
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قتال کرتا رہے گا وہ (قرب) قیام قیامت تک غالب آتے رہیں گے۔ “ فرمایا: ”ابن مریم ؑ نازل ہوں گے تو ان کا امیر کہے گا: تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں، وہ فرمائیں گے، نہیں، اللہ نے اس امت کو جو عزت بخشی ہے اس وجہ سے تم خود ہی ایک دوسرے کے امام ہو۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (247/ 156)»
عن عبد الله بن عمرو قا ل: قا ل رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ينزل عيسى بن مريم إلى الارض فيتزوج ويولد له ويمكث خمسا واربعين سنة ثم يموت فيدفن معي في قبري فاقوم انا وعيسى بن مريم في قبر واحد بين ابى بكر وعمر» . رواه ابن الجوزي في كتاب الوفاء عَن عبد الله بن عَمْرو قا ل: قا ل رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَنْزِلُ عِيسَى بن مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ وَيَمْكُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يَمُوتُ فَيُدْفَنُ مَعِي فِي قَبْرِي فأقوم أَنا وَعِيسَى بن مَرْيَمَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبَى بَكْرٍ وَعُمَرَ» . رَوَاهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي كِتَابِ الْوَفَاءِ
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عیسیٰ بن مریم ؑ زمین پر نازل ہوں گے، شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہو گی، وہ پینتالیس سال رہیں گے پھر فوت ہو جائیں گے۔ انہیں میری قبر کے ساتھ ہی میرے قریب دفن کر دیا جائے گا۔ میں اور عیسیٰ بن مریم، ابوبکر و عمر کے درمیان سے ایک ہی قبر سے کھڑے ہوں گے۔ “ ابن جوزی نے اسے کتاب الوفا میں ذکر کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن جوزی فی کتاب الوفاء۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن الجوزي في کتاب الوفاء (2/ 714) [و العلل المتناھية (2/ 433 ح 1529)] ٭ فيه عبد الرحمٰن بن زياد بن أنعم الإفريقي ضعيف و في السند إليه نظر.»