مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الفتن
--. دجال چالیس سال تک زمین پر رہے گا
حدیث نمبر: 5489
Save to word اعراب
وعن اسماء بنت يزيد بن السكن قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «يمكث الدجال في الارض اربعين سنة السنة كالشهر والشهر كالجمعة والجمعة كاليوم واليوم كاضطرام السعفة في النار» . رواه في «شرح السنة» وَعَن أَسمَاء بنت يزِيد بن السَّكن قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَمْكُثُ الدَّجَّالُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً السَّنَةُ كَالشَّهْرِ وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ وَالْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ وَالْيَوْمُ كَاضْطِرَامِ السَّعَفَةِ فِي النَّارِ» . رَوَاهُ فِي «شَرْحِ السُّنَّةِ»
اسماؑ بنت یزید بن سکن رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دجال زمین پر چالیس سال رہے گا، سال مہینے کی طرح، مہینہ جمعے (ہفتے یعنی سات دن) کی طرح، جمعہ (یعنی ہفتہ) دن کی طرح اور دن آگ میں تنکے کے جل جانے کی مانند ہو گا۔ اسنادہ حسن، رواہ فی شرح السنہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه البغوي في شرح السنة (15/ 62 ح 4264) [و أحمد (6/ 454 ح 28123، 6/ 459 ح 28152)]»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. میری امت کے ستر ہزار لوگ دجال کی پیروی کریں گے
حدیث نمبر: 5490
Save to word اعراب
وعن ابي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يتبع الدجال من امتي سبعون الفا عليهم السيجان» . رواه في شرح السنة وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَتْبَعُ الدَّجَّالَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا عَلَيْهِمُ السِّيجَانُ» . رَوَاهُ فِي شرح السّنة
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کے ستر ہزار افراد دجال کی اتباع کریں گے، ان کے سروں پر سبز سیاہ رنگ کے کپڑے ہوں گے۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ فی شرح السنہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا، رواه البغوي في شرح السنة (15/ 62 ح 4265)
٭ فيه أبو ھارون العبدي متروک متھم و حديث مسلم (2944) يخالفه.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا
--. دجال سے پہلے تین سال بےررکت ہوں گے
حدیث نمبر: 5491
Save to word اعراب
وعن اسماء بنت يزيد قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي فذكر الدجال فقال: إن بين يديه ثلاث سنين سنة تمسلك السماء فيها ثلث قطرها والارض ثلث نباتها. والثانية تمسك السماء ثلثي قطرها والارض ثلثي نباتها. والثالثة تمسك السماء قطرها كله والارض نباتها كله. فلا يبقى ذات ظلف ولا ذات ضرس من البهائم إلا هلك وإن من اشد فتنته انه ياتي الاعرابي فيقول: ارايت إن احييت لك إبلك الست تعلم اني ربك؟ فيقول بلى فيمثل له الشيطان نحو إبله كاحسن ما يكون ضروعا واعظمه اسنمة. قال: وياتي الرجل قد مات اخوه ومات ابوه فيقول: ارايت إن احييت لك اباك واخاك الست تعلم اني ربك؟ فيقول: بلى فيمثل له الشياطين نحو ابيه ونحو اخيه. قالت: ثم خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم لحاجته ثم رجع والقوم في اهتمام وغم مما حدثهم. قالت: فاخذ بلحمتي الباب فقال: «مهيم اسماء؟» قلت: يا رسول الله لقد خلعت افئدتنا بذكر الدجال. قال: «إن يخرج وانا حي فانا حجيجه وإلا فإن ربي خليفتي علىكل مؤمن» فقلت: يا رسول الله والله إنا لنعجن عجيننا فما نخبزه حتى نجوع فكيف بالمؤمنين يومئذ؟ قال: «يجزئهم ما يجزئ اهل السماء من التسبيح والتقديس» . رواه احمد وَعَن أسماءَ بنتِ يزيدَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَذَكَرَ الدَّجَّالَ فَقَالَ: إِنَّ بَيْنَ يَدَيْهِ ثَلَاث سِنِين سنة تمسلك السَّمَاءُ فِيهَا ثُلُثَ قَطْرِهَا وَالْأَرْضُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا. وَالثَّانِيَةُ تُمْسِكُ السَّمَاءُ ثُلُثَيْ قَطْرِهَا وَالْأَرْضُ ثُلُثَيْ نَبَاتِهَا. وَالثَّالِثَةُ تُمْسِكُ السَّمَاءُ قَطْرَهَا كُلَّهُ وَالْأَرْضُ نَبَاتَهَا كُلَّهُ. فَلَا يَبْقَى ذَاتُ ظِلْفٍ وَلَا ذَاتُ ضِرْسٍ مِنَ الْبَهَائِمِ إِلَّا هَلَكَ وَإِنَّ مِنْ أَشَدِّ فِتْنَتِهِ أَنَّهُ يَأْتِي الْأَعْرَابِيَّ فَيَقُولُ: أَرَأَيْتَ إِنْ أَحْيَيْتُ لَكَ إِبِلَكَ أَلَسْتَ تَعْلَمُ أَنِّي رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ بَلَى فَيُمَثِّلُ لَهُ الشَّيْطَانَ نَحْوَ إِبِلِهِ كَأَحْسَنِ مَا يَكُونُ ضُرُوعًا وَأَعْظَمِهِ أَسْنِمَةً. قَالَ: وَيَأْتِي الرَّجُلَ قَدْ مَاتَ أَخُوهُ وَمَاتَ أَبُوهُ فَيَقُولُ: أَرَأَيْتَ إِنْ أَحْيَيْتُ لَكَ أَبَاكَ وَأَخَاكَ أَلَسْتَ تَعْلَمُ أَنِّي رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: بَلَى فَيُمَثِّلُ لَهُ الشَّيَاطِينَ نَحْوَ أَبِيهِ وَنَحْوَ أَخِيهِ. قَالَتْ: ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ رَجَعَ وَالْقَوْمُ فِي اهْتِمَامٍ وَغَمٍّ مِمَّا حَدَّثَهُمْ. قَالَتْ: فَأَخَذَ بِلَحْمَتَيِ الْبَابِ فَقَالَ: «مَهْيَمْ أَسْمَاءُ؟» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ خَلَعْتَ أَفْئِدَتَنَا بِذِكْرِ الدَّجَّالِ. قَالَ: «إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا حَيٌّ فَأَنَا حَجِيجُهُ وَإِلَّا فإِنَّ رَبِّي خليفتي علىكل مُؤْمِنٍ» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ إِنَّا لَنَعْجِنُ عَجِينَنَا فَمَا نَخْبِزُهُ حَتَّى نَجُوعَ فَكَيْفَ بِالْمُؤْمِنِينَ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: «يُجْزِئُهُمْ مَا يُجْزِئُ أَهْلَ السماءِ من التسبيحِ والتقديسِ» . رَوَاهُ أَحْمد
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے گھر میں تھے، آپ نے دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: اس سے پہلے تین قسم کے قحط ہوں گے، ایک قحط یہ ہو گا کہ اس میں آسمان تہائی بارش روک لے گا، زمین اپنی تہائی نباتات روک لے گی، دوسرے میں یہ ہو گا کہ آسمان اپنی دو تہائی بارش روک لے گا، زمین اپنی دو تہائی نباتات روک لے گی، اور تیسرے میں آسمان اپنی ساری بارش روک لے گا، اور زمین اپنی تمام نباتات روک لے گی چوپاؤں میں سے کوئی کھر والا باقی بچے گا نہ کوئی کچلی والا، سب ہلاک ہو جائیں گے، اس کا سب سے شدید فتنہ یہ ہو گا کہ وہ اعرابی کے پاس آئے گا تو کہے گا، مجھے بتاؤ اگر میں تمہارے اونٹ کو زندہ کر دوں تو کیا تجھے یقین نہیں آئے گا کہ میں تمہارا رب ہوں؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں، شیطان اس کے لیے اس کے اونٹ کی صورت اختیار کر لے گا، تو اس کے تھن بہترین ہو جائیں گے اور اس کی کوہان بہت بڑی ہو جائے گی۔ فرمایا: وہ (دجال) دوسرے آدمی کے پاس آئے گا جس کا بھائی اور والد وفات پا چکے ہوں گے، تو وہ (اسے) کہے گا، مجھے بتاؤ اگر میں تمہارے لیے تمہارے والد اور تمہارے بھائی کو زندہ کر دوں تو کیا تجھے یقین نہیں ہو گا کہ میں تمہارا رب ہوں؟ وہ کہے گا، کیوں نہیں، شیطان اس کے لیے اس کے والد اور اس کے بھائی کی صورت اختیار کر لے گا۔ اسماء رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی کسی ضرورت کی خاطر تشریف لے گئے، پھر واپس آ گئے، اور لوگ آپ کے بیان کردہ فرمان میں فکر و غم کی کیفیت میں تھے، بیان کرتی ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دروازے کی دہلیز پکڑ کر فرمایا: اسماء کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ نے دجال کے ذکر سے ہمارے دل نکال کر رکھ دیے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر وہ میری زندگی میں نکل آیا تو میں اس کا مقابلہ کروں گا، ورنہ میرا رب ہر مومن پر میرا خلیفہ ہے۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم اپنا آٹا گوندھتی ہیں اور روٹی پکا کر ابھی فارغ بھی نہیں ہوتیں کہ پھر بھوک لگ جاتی ہے، تو اس روز مومنوں کی کیا حالت ہو گی؟ فرمایا: تسبیح و تقدیس جو آسمان والوں کے لیے کافی ہوتی ہے وہی ان کے لیے کافی ہو گی۔ حسن، رواہ احمد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«حسن، رواه أحمد (6/ 453. 454 ح 28120) [و الطبراني (24/ 158 ح 405 وسنده حسن. 161)]
٭ انظر النھاية في الفتن و الملاحم (ح 263 بتحقيقي) لمزيد التحقيق.
٭ قلت: قتادة لم ينفرد به، بل تابعه ثابت و حجاج بن الأسود و عبد العزيز بن صھيب به. فالحديث حسن.»

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
--. دجال اللہ تعالیٰ کے قریب بےقدر ہے
حدیث نمبر: 5492
Save to word اعراب
عن المغيرة بن شعبة قال: ما سال احد رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدجال اكثر مما سالته وإنه قال لي: «ما يضرك؟» قلت: إنهم يقولون: إن معه جبل خبز ونهر ماء. قال: هو اهون على الله من ذلك. متفق عليه عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: مَا سَأَلَ أَحَدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَن الدجالِ أكثرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ وَإِنَّهُ قَالَ لِي: «مَا يَضُرُّكَ؟» قُلْتُ: إِنَّهُمْ يَقُولُونَ: إِنَّ مَعَهُ جَبَلَ خُبْزٍ وَنَهَرَ مَاءٍ. قَالَ: هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ من ذَلِك. مُتَّفق عَلَيْهِ
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، دجال کے متعلق، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے، مجھ سے زیادہ کسی نے دریافت نہیں کیا، کیونکہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔ میں نے عرض کیا: وہ (لوگ یا یہود و نصاریٰ) کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کی نہر ہو گی؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ (دجال) اللہ کے نزدیک ان اشیاء کی وجہ سے مزید ذلیل ہو گا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (7122) و مسلم (115 / 2939)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. دجال ایک سفید گدھے پر سوار ہو کر نکلے گا
حدیث نمبر: 5493
Save to word اعراب
وعن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يخرج الدجال على حمار اقمر ما بين اذنيه سبعون باعا» . رواه البيهقي في «كتاب البعث والنشور» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَخْرُجُ الدَّجَّالُ عَلَى حِمَارٍ أَقْمَرَ مَا بَيْنَ أُذُنَيْهِ سَبْعُونَ بَاعًا» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «كِتَابِ الْبَعْثِ وَالنُّشُورِ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دجال ایک نہایت سفید گدھے پر سوار ہو کر نکلے گا، اس کے دونوں کانوں کے مابین ستر باع (ایک باع دو ہاتھوں کی لمبائی کے برابر ہوتا ہے) فاصلہ ہو گا۔ لم اجدہ، رواہ البیھقی فی البعث و النشور۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«لم أجده، رواه البيھقي في البعث والنشور (لم أجده)
٭ وروي البخاري في التاريخ الکبير (1/ 199) عن إسماعيل عن أخيه عن سليمان عن محمد بن عقبة بن أبي عتاب المديني عن أبيه عن أبي ھريرة عن النبي ﷺ به و سنده ضعيف، محمد بن عقبة و أبوه لم يوثقھما غير ابن حبان فيما أعلم، و روي ابن أبي شيبة (15/ 161. 162ح 37525) عن وکيع عن فطر عن أبي الطفيل عن رجل من أصحاب النبي ﷺ قال: ’’يخرج الدجال علي حمار رجس، رجس علي رجس‘‘ و سنده حسن.»

قال الشيخ زبير على زئي: لم أجده
--. ابن صیاد کا ذکر
حدیث نمبر: 5494
Save to word اعراب
عن عبد الله بن عمر ان عمر بن الخطاب انطلق مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رهط من اصحابه قبل ابن الصياد حتى وجدوه يلعب مع الصبيان في اطم بني مغالة وقد قارب ابن صياد يومئذ الحلم فلم يشعر حتى ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهره بيده ثم قال: «اتشهد اني رسول الله؟» فقال: اشهد انك رسول الاميين. ثم قال ابن صياد: اتشهد اني رسول الله؟ فرصه النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال: «آمنت بالله وبرسله» ثم قال لابن صياد: «ماذا ترى؟» قال: ياتيني صادق وكاذب. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خلط عليك الامر» . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إني خبات لك خبيئا» وخبا له: (يوم تاتي السماء بدخان مبين) فقال: هو الدخ. فقال: «اخسا فلن تعدو قدرك» . قال عمر: يا رسول الله اتاذن لي في ان اضرب عنقه؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن يكن هو لا تسلط عليه وإن لم يكن هو فلا خير لك في قتله» . قال ابن عمر: انطلق بعد ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بن كعب الانصاري يؤمان النخل التي فيها ابن صياد فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يتقي بجذوع النخل وهو يختل ان يسمع من ابن صياد شيئا قبل ان يراه وابن صياد مضطجع على فراشه في قطيفة له فيها زمزمة فرات ام ابن صياد النبي صلى الله عليه وسلم وهو يتقي بجذوع النخل. فقالت: اي صاف-وهو اسمه-هذا محمد. فتناهى ابن صياد. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو تركته بين» . قال عبد الله بن عمر: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس فاثنى على الله بما هو اهله ثم ذكر الدجال فقال: «إني انذركموه وما من نبي إلا وقد انذر قومه لقد انذر نوح قومه ولكني ساقول لكم فيه قولا لم يقله نبي لقومه تعلمون انه اعور وان الله ليس باعور» . متفق عليه عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بن الْخطاب انْطَلَقَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِهِ قِبَلَ ابْنِ الصياد حَتَّى وجدوهُ يلعبُ مَعَ الصّبيانِ فِي أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ يَوْمَئِذٍ الْحُلُمَ فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ ثمَّ قَالَ: «أتشهدُ أَنِّي رسولُ الله؟» فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ. ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَرَصَّهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: «آمَنت بِاللَّه وبرسلِه» ثمَّ قَالَ لِابْنِ صيَّاد: «مَاذَا تَرَى؟» قَالَ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ» . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي خَبَّأْتُ لَكَ خَبِيئًا» وَخَبَّأَ لَه: (يومَ تَأتي السَّماءُ بدُخانٍ مُبينٍ) فَقَالَ: هُوَ الدُّخُّ. فَقَالَ: «اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ» . قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَأْذَنُ لي فِي أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ يَكُنْ هُوَ لَا تُسَلَّطْ عَلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ هُوَ فَلَا خير لَك فِي قَتْلِهِ» . قَالَ ابْنُ عُمَرَ: انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بْنُ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ يَؤُمَّانِ النَّخْلَ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ وَهُوَ يَخْتِلُ أنْ يسمعَ مِنِ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ وَابْنُ صَيَّادٍ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا زَمْزَمَةٌ فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ. فَقَالَتْ: أَيْ صَافُ-وَهُوَ اسْمُهُ-هَذَا مُحَمَّدٌ. فَتَنَاهَى ابْنُ صَيَّادٍ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ» . قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ فَقَالَ: «إِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ لَقَدْ أَنْذَرَ نُوحٌ قَوْمَهُ وَلَكِنِّي سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ أَعْوَرُ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ ابن صیاد کی طرف روانہ ہوئے اور انہوں نے اسے بنو مغالہ کے قلعے میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے پایا، ابن صیاد ان دنوں بلوغت کے قریب تھا، اسے (آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد کا) پتہ اس وقت چلا جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی پشت پر ہاتھ مارا، پھر فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف (غصہ سے) دیکھا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں (عربوں) کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے زور سے دبایا اور فرمایا: میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابن صیاد سے فرمایا: تم کیا دیکھتے ہو؟ اس نے کہا: میرے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرے لیے معاملہ مشتبہ کر دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تمہارے لیے اپنے دل میں ایک چیز چھپائی ہے (بتاؤ وہ کیا ہے؟) آپ نے یہ بات چھپائی تھی: جس دن آسمان ظاہر دھوئیں کے ساتھ آئے گا۔ اس نے کہا: وہ دخ (دھواں) ہے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دور ہو جا، تو اپنی حیثیت سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا آپ اس کے متعلق مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اسے قتل کر دوں؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو یہ وہی (دجال) ہے تو پھر اس پر غلبہ حاصل نہیں کیا جا سکتا، اور اگر یہ وہ نہیں تو پھر اس کے قتل کرنے میں تیرے لیے کوئی بھلائی نہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اس کے بعد رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابی بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر کھجور کے اس باغ کی طرف روانہ ہوئے جس میں ابن صیاد تھا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھجور کے تنوں میں چھپنے لگے آپ چاہتے تھے کہ اس سے پہلے کہ ابن صیاد آپ کو دیکھ لے، آپ اس سے کچھ سن لیں، ابن صیاد مخملی چادر میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا، اور کچھ گنگنا رہا تھا، اتنے میں ابن صیاد کی ماں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ لیا جبکہ آپ کھجور کے تنوں میں چھپ رہے تھے، اس نے کہا: صاف یہ ابن صیاد کا نام ہے (دیکھو!) محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آ گئے، چنانچہ ابن صیاد متنبہ ہو گیا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر وہ اس کو (اس حالت پر) چھوڑ دیتی تو وہ (اپنے دل کی بات) ظاہر کر دیتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کو خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی جو اس کی شان کے لائق ہے۔ پھر دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں، اور ہر نبی ؑ نے اس سے اپنی قوم کو ڈرایا ہے، نوح ؑ نے بھی اپنی قوم کو ڈرایا لیکن میں اس کے متعلق تمہیں ایسی بات بتاؤں گا جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی، تم خوب جان لو کہ وہ کانا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (1354. 1355) و مسلم (95/ 2930)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. ابن صیاد تو کیا دیکھتا ہے
حدیث نمبر: 5495
Save to word اعراب
وعن ابي سعيد الخدري قال: لقيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر وعمر-يعني ابن صياد-في بعض طرق المدينة فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اتشهد اني رسول الله؟» فقال هو: اتشهد اني رسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «آمنت بالله وملائكته وكتبه ورسله ماذا ترى؟» قال: ارى عرشا على الماء. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ترى عرش إبليس على البحر وما ترى؟» قال: ارى صادقين وكاذبا او كاذبين وصادقا. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لبس عليه فدعوه» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: لَقِيَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ-يَعْنِي ابْنَ صَيَّادٍ-فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟» فَقَالَ هُوَ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ مَاذَا تَرَى؟» قَالَ: أَرَى عَرْشًا عَلَى الْمَاءُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَرَى عَرْشَ إِبْلِيسَ عَلَى الْبَحْرِ وَمَا تَرَى؟» قَالَ: أَرَى صَادِقَيْنِ وَكَاذِبًا أَوْ كَاذِبَيْنِ وَصَادِقًا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لُبِسَ عَلَيْهِ فَدَعُوهُ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ مدینے کے کسی راستے میں اس (ابن صیاد) سے ملے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ جواب میں اس نے کہا کہ کیا آپ گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ تو کیا دیکھتا ہے؟ اس نے کہا: میں تخت کو پانی پر دیکھتا ہوں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو شیطان کا تخت سمندر پر دیکھتا ہے۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو (اس کے علاوہ اور) کیا دیکھتا ہے؟ اس نے کہا: دو سچے اور ایک جھوٹا دیکھتا ہوں یا دو جھوٹے اور ایک سچا دیکھتا ہوں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس پر معاملہ مشتبہ کر دیا گیا ہے، تم اسے چھوڑ دو۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (87/ 2925)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. جنت کی مٹّی سفید اور خوشبودار ہے
حدیث نمبر: 5496
Save to word اعراب
وعنه ان ابن صياد سال النبي صلى الله عليه وسلم عن تربة الجنة. فقال: «در مكة يبضاء ومسك خالص» . رواه مسلم وَعَنْهُ أَنَّ ابْنَ صَيَّادٍ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تُرْبَةِ الْجَنَّةِ. فَقَالَ: «در مَكَّة يبضاء ومسك خَالص» . رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن صیاد نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جنت کی مٹی کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نرم و ملائم سفید خالص کستوری ہے۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (93/ 2928)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. ابن صیاد اور دجال کا ذکر
حدیث نمبر: 5497
Save to word اعراب
وعن نافع قال: لقي ابن عمر ابن صياد في بعض طرق المدينة فقال له قولا اغضبه فانتفخ حتى ملا السكة. فدخل ابن عمر على حفصة وقد بلغها فقالت له: رحمك الله ما اردت من ابن صياد؟ اما علمت ان رسول الله عليه وسلم قال: «إنما يخرج من غضبة يغضبها» . رواه مسلم وَعَنْ نَافِعٍ قَالَ: لَقِيَ ابْنُ عُمَرَ ابْنَ صَيَّادٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ لَهُ قَوْلًا أَغْضَبَهُ فَانْتَفَخَ حَتَّى مَلَأَ السِّكَّةَ. فَدَخَلَ ابْنُ عُمَرَ عَلَى حَفْصَةَ وَقَدْ بَلَغَهَا فَقَالَتْ لَهُ: رَحِمَكَ اللَّهُ مَا أَرَدْتَ مِنِ ابْنِ صياد؟ أما علمت أَن رَسُول اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّمَا يَخْرُجُ مِنْ غضبةٍ يغضبها» . رَوَاهُ مُسلم
نافع بیان کرتے ہیں، ابن عمر رضی اللہ عنہ مدینے کے کسی راستے میں ابن صیاد سے ملے تو انہوں نے اس سے کوئی بات کہی جس نے اسے ناراض کر دیا اور غصہ کی وجہ سے اس کی سانس پھول گئی حتی کہ راستہ بھر گیا (اس کے بعد) ابن عمر رضی اللہ عنہ، حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہیں اس واقعہ کی اطلاع ہو چکی تھی، تو انہوں نے انہیں فرمایا: اللہ تم پر رحم فرمائے، تم نے ابن صیاد سے کس چیز کا قصد کیا؟ کیا تمہیں علم نہیں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ (دجال) ایک غصے کی وجہ سے نکلے گا جو اسے غصہ دلایا جائے گا۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (98/ 2932)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. ابن صیاد دجال بننا پسند کرتا ہے
حدیث نمبر: 5498
Save to word اعراب
وعن ابي سعيد الخدري قال: صحبت ابن صياد إلى مكة فقال: ما لقيت من الناس؟ يزعمون اني الدجال الست سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إنه لا يولد له» . وقد ولد لي اليس قد قال: «هو كافر» . وانا مسلم او ليس قد قال: «لا يدخل المدينة ولا مكة» ؟ وقد اقبلت من المدينة وانا اريد مكة. ثم قال لي في آخر قوله: اما والله إني لاعلم مولده ومكانه واين هو واعرف اباه وامه قال: فلبسني قال: قلت له: تبا لك سائر اليوم. قال: وقيل له: ايسرك انك ذاك الرجل؟ قال: فقال: لو عرض علي ما كرهت. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ صياد إِلَى مَكَّة فَقَالَ: مَا لَقِيتُ مِنَ النَّاسِ؟ يَزْعُمُونَ أَنِّي الدَّجَّالُ أَلَسْتَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّهُ لَا يُولَدُ لَهُ» . وَقَدْ وُلِدَ لِي أَلَيْسَ قَدْ قَالَ: «هُوَ كَافِرٌ» . وَأَنا مُسلم أَو لَيْسَ قَدْ قَالَ: «لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مَكَّةَ» ؟ وَقَدْ أَقْبَلْتُ مِنَ الْمَدِينَةِ وَأَنَا أُرِيدُ مَكَّةَ. ثُمَّ قَالَ لِي فِي آخِرِ قَوْلِهِ: أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ مَوْلِدَهُ وَمَكَانَهُ وَأَيْنَ هُوَ وَأَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ قَالَ: فَلَبَسَنِي قَالَ: قُلْتُ لَهُ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ. قَالَ: وَقِيلَ لَهُ: أَيَسُرُّكَ أَنَّكَ ذَاكَ الرَّجُلُ؟ قَالَ: فَقَالَ: لَوْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا كَرِهْتُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں مکہ کی طرف جاتے ہوئے ابن صیاد کے ساتھ تھا، اس نے مجھے کہا: مجھے لوگوں (کے کلام) سے کس قدر تکلیف پہنچی ہے؟ وہ سمجھتے ہیں کہ میں دجال ہوں، کیا تم نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ اس کی اولاد نہیں ہو گی۔ جبکہ میری اولاد ہے، کیا آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ کافر ہے؟ جبکہ میں مسلمان ہوں، کیا آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ نہیں فرمایا: وہ مدینہ میں داخل ہو گا نہ مکہ میں۔ جبکہ میں مدینہ سے آ رہا ہوں اور مکے جا رہا ہوں، پھر اس نے مجھ سے اپنی آخری بات یہ کی: سن لو، اللہ کی قسم! میں اس (دجال) کی جائے پیدائش اور وقت پیدائش کو جانتا ہوں اور وہ کہاں ہے؟ یہ بھی جانتا ہوں، میں اس کے والدین کو جانتا ہوں، ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، اس (ابن صیاد) نے مجھے اشتباہ میں ڈال دیا، وہ بیان کرتے ہیں، میں نے اسے کہا: تیرے لیے باقی ایام میں تباہی ہو، ابوسعید بیان کرتے ہیں، اسے کہا گیا: کیا تو یہ پسند کرتا ہے کہ وہ (دجال) تم ہی ہو؟ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اس نے کہا: اگر وہ چیز (دجال کی خصلت و جبلت وغیرہ) مجھ پر پیش کی جائے تو میں ناپسند نہیں کروں گا۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (91. 89/ 2927)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

Previous    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.