وعن ابي هريرة قال: قبل رسول الله صلى الله عليه وسلم الحسن بن علي وعنده الاقرع بن حابس. فقال الاقرع: إن لي عشرة من الولد ما قبلت منهم احدا فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال: «من لا يرحم لا يرحم» متفق عليه وسنذكر حديث ابي هريرة: «اثم لكع» في «باب مناقب اهل بيت النبي صلى الله عليه وعليهم اجمعين» إن شاء تعالى وذكر حديث ام هانئ في «باب الامان» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَبْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ وَعِنْدَهُ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ. فَقَالَ الْأَقْرَعُ: إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: «مَنْ لَا يَرْحَمْ لَا يُرْحَمْ» مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَسَنَذْكُرُ حَدِيثَ أَبِي هُرَيْرَةَ: «أَثَمَّ لُكَعُ» فِي «بَابِ مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ» إِنْ شَاءَ تَعَالَى وَذَكَرَ حَدِيثَ أمِّ هَانِئ فِي «بَاب الْأمان»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیا، اس وقت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پاس تھے، اقرع رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے دس بچے ہیں، میں نے ان میں سے کسی کا بوسہ نہیں لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (تعجب سے) اس کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: ”جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ “ متفق علیہ۔ اور ہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ((أَثَمَّ لُکَعُ)) باب مناقب اھل بیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعلیھم اجمعین میں ان شاء اللہ تعالیٰ ذکر کریں گے۔ جبکہ ام ہانی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث باب الامان میں ذکر کی گئی ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5997) و مسلم (2318/65) ٭ حديث: أثم لکع؟ يأتي (6134) و حديث أم ھاني تقدم (3977)»
عن البراء بن عازب رضي الله عنهما قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «ما من مسلمين يلتقيان فيتصافحان إلا غفر لهما قبل ان يتفرقا» . رواه احمد والترمذي وابن ماجه وفي رواية ابي داود قال: «إذا التقى المسلمان فتصافحا وحمدا الله واستغفراه غفر لهما» عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ إِلَّا غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَتَفَرَّقَا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَفِي رِوَايَةِ أَبِي دَاوُدَ قَالَ: «إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ فَتَصَافَحَا وَحَمِدَا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَاهُ غفر لَهما»
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان ملاقات کرتے وقت مصافحہ کرتے ہیں، تو ان کے الگ ہونے سے پہلے انہیں بخش دیا جاتا ہے۔ “ احمد، ترمذی، ابن ماجہ۔ اور ابوداؤد کی روایت میں ہے، فرمایا: ”جب دو مسلمان ملاقات کرتے وقت مصافحہ کرتے ہیں، اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں، اور اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں، تو انہیں بخش دیا جاتا ہے۔ “ سندہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ و ابودداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أحمد (289/4 ح 18746) و الترمذي (2727 وقال: حسن غريب) و ابن ماجه (3703) و أبو داود (5212) ٭ أبو إسحاق مدلس و عنعن و للحديث شواھد ضعيفة. ٭ و رواية: ’’وحمدا الله و استغفراه غفرلھما‘‘ رواها أبو داود (5211) و سنده ضعيف، فيه أبو الحکم زيد بن أبي الشعثاء العنزي، و ثقه ابن حبان وحده.»
وعن انس قال: قال رجل: يا رسول الله الرجل منا يلقى اخاه او صديقه اينحني له؟ قال: «لا» . قال: افيلتزمه ويقبله؟ قال: «لا» . قال: افياخذ بيده ويصافحه؟ قال: «نعم» . رواه الترمذي وَعَن أنس قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَالَ: «لَا» . قَالَ: أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ؟ قَالَ: «لَا» . قَالَ: أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کسی آدمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم میں سے آدمی اپنے بھائی یا اپنے دوست سے ملاقات کرتا ہے، تو کیا وہ اس کے سامنے سر جھکائے؟ فرمایا: ”نہیں۔ “ اس نے کہا: کیا وہ اسے گلے لگائے اور اس کا بوسہ لے؟ فرمایا: ”نہیں۔ “ اس نے عرض، کیا وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس سے مصافحہ کرے؟ فرمایا: ”ہاں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2728 وقال: حسن) [و ابن ماجه (3702)] ٭ فيه حنظلة بن عبيد الله السدوسي: ضعيف.»
وعن ابي امامة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تمام عيادة المريض ان يضع احدكم يده على جبهته او على يده فيساله: كيف هو؟ وتمام تحياتكم بينكم المصافحة. رواه احمد والترمذي وضعفه وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم قَالَ: تَمَامُ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ أَنْ يَضَعَ أَحَدُكُمْ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ أَوْ عَلَى يَدِهِ فَيَسْأَلَهُ: كَيْفَ هُوَ؟ وَتَمَامُ تَحِيَّاتِكُمْ بَيْنَكُمُ الْمُصَافَحَةُ. رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَضَعفه
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مریض کی عیادت اس طرح پوری ہوتی ہے کہ تم میں سے کوئی ایک اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر یا اس کے ہاتھ پر رکھ کر اس سے دریافت کرے: ”کیا حال ہے؟“ اور تمہارا آپس میں پورا سلام دعا، مصافحہ کرنا ہے۔ “ احمد، ترمذی، اور امام ترمذی ؒ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (260/5 ح 22591) و الترمذي (2731) ٭ فيه علي بن يزيد: ضعيف مجروح، و عبيد الله بن زحر: ضعيف.»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قدم زيد بن حارثة المدينة ورسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي فاتاه فقرع الباب فقام إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم عريانا يجر ثوبه والله ما رايته عريانا قبله ولا بعده فاعتنقه وقبله. رواه الترمذي وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَدِمَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ الْمَدِينَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَأَتَاهُ فَقَرَعَ البابَ فقامَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُرْيَانًا يَجُرُّ ثَوْبَهُ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُهُ عُرْيَانًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ فَاعْتَنَقَهُ وَقَبَّلَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لائے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے۔ وہ آپ کے پاس آئے تو انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (فرطِ محبت سے) اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے، قمیص پہنے بغیر، اس کی طرف چلے، اللہ کی قسم! میں نے اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آپ کو قمیص کے بغیر دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے گلے لگایا اور اس کا بوسہ لیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2732 وقال: حسن غريب) ٭ إبراهيم بن يحيي بن محمد: حسن الحديث و أبوه يحيي: ضعيف و کان ضريرًا يتلقن و محمد بن إسحاق بن يسار مدلس و عنعن. إن صح السند إليه.»
وعن ايوب بن بشير عن رجل من عنزة انه قال: قلت لابي ذر: هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصافحكم إذا لقيتموه؟ قال: ما لقيته قط إلا صافحني وبعث إلي ذات يوم ولم اكن في اهلي فلما جئت اخبرت فاتيته وهو على سرير فالتزمني فكانت تلك اجود واجود. رواه ابو داود وَعَنْ أَيُّوبَ بْنِ بُشَيْرٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَنَزةَ أنَّه قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَافِحُكُمْ إِذَا لَقِيتُمُوهُ؟ قَالَ: مَا لَقِيتُهُ قَطُّ إِلَّا صَافَحَنِي وَبَعَثَ إِلَيَّ ذَاتَ يَوْمٍ وَلَمْ أَكُنْ فِي أَهْلِي فَلَمَّا جِئْتُ أُخْبِرْتُ فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ عَلَى سَرِيرٍ فَالْتَزَمَنِي فَكَانَتْ تِلْكَ أَجْوَدَ وَأَجْوَدَ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ایوب بن بشیر، عنزہ قبیلے کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا: میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرتے تھے تو وہ تم سے مصافحہ کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: میں جب بھی آپ سے ملا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے مصافحہ کیا ہے، آپ نے ایک روز مجھے طلب فرمایا لیکن میں گھر پر نہیں تھا، جب میں آیا تو مجھے بتایا گیا، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت چار پائی پر تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے گلے لگایا، یہ (گلے لگانا) بہت ہی بہتر تھا، بہت ہی بہتر۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (5214) ٭ أيوب بن بشير: مستور و رجل من بني عنزة: مجھول، قاله المنذري.»
وعن عكرمة بن ابي جهل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم جئته: «مرحبا بالراكب المهاجر» . رواه الترمذي وَعَن عكرمةَ بن أبي جهلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جِئْتُهُ: «مَرْحَبًا بِالرَّاكِبِ الْمُهَاجِرِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جس روز میں (بیعت اسلام کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجر سوار کے لیے خوش آمدید۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2735 وقال: ليس إسناده بصحيح) ٭ سفيان الثوري و أبو إسحاق مدلسان و عنعنا و مصعب بن سعد أرسل عن عکرمة بن أبي جھل، فالسند منقطع.»
وعن اسيد بن حضير-رجل من الانصار-قال: بينما هو يحدث القوم-وكان فيه مزاح-بينا يضحكهم فطعنه النبي صلى الله عليه وسلم في خاصرته بعود فقال: اصبرني. قال: «اصطبر» . قال: إن عليك قميصا وليس علي قميص فرفع النبي صلى الله عليه وسلم عن قم يصه فاحتضنه وجعل يقبل كشحه قال: إنما اردت هذا يا رسول الله. رواه ابو داود وَعَن أُسَيدِ بن حُضَيرٍ-رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ-قَالَ: بَيْنَمَا هُوَ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ-وَكَانَ فِيهِ مُزَاحٌ-بَيْنَا يُضْحِكُهُمْ فَطَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَاصِرَتِهِ بِعُودٍ فَقَالَ: أَصْبِرْنِي. قَالَ: «أَصْطَبِرُ» . قَالَ: إِنَّ عَلَيْكَ قَمِيصًا وَلَيْسَ عَلَيَّ قَمِيصٌ فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَم يصِهِ فَاحْتَضَنَهُ وَجَعَلَ يُقَبِّلُ كَشْحَهُ قَالَ: إِنَّمَا أَرَدْتُ هَذَا يَا رسولَ الله. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ لا تعلق انصار کے ایک قبیلے سے تھا، وہ بیان کرتے ہیں: ایک دن وہ لوگوں سے باتیں کر رہے تھے اور وہ مزاح طبیعت تھے اور وہ انہیں (اپنی باتوں کے ذریعے) ہنسا رہے تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لکڑی سے اس کے پہلو پر چوب لگائی، انہوں نے کہا: مجھے بدلہ دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں بدلہ دیتا ہوں۔ “ انہوں نے عرض کیا: آپ پر تو قمیص ہے جبکہ مجھ پر قمیص نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قمیص اٹھائی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چمٹ گیا اور آپ کے پہلو کو بوسہ دینے لگا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بس یہی چاہتا تھا۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (5224)»
وعن الشعبي: ان النبي صلى الله عليه وسلم تلقى جعفر بن ابي طالب فالتزمه وقبل مابين عينيه. رواه ابو داود والبيهقي في «شعب الإيمان» مرسلا وفي بعض نسخ «المصابيح» وفي «شرح السنة» عن البياضي متصلا وَعَنِ الشَّعْبِيِّ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلَقَّى جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَالْتَزَمَهُ وقبَّلَ مابين عَيْنَيْهِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ» مُرْسَلًا وَفِي بَعْضِ نُسَخِ «الْمَصَابِيحِ» وَفِي «شرح السّنة» عَن البياضي مُتَّصِلا
شعبی ؒ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا تو انہیں گلے لگایا اور ان کی آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) بوسہ دیا۔ ابوداؤد، بیہقی فی شعب الایمان مرسلا۔ جبکہ مصابیح کے بعض نسخوں میں اور شرح السنہ میں البیاضی کی سند سے متصل ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (5220) و البيھقي في شعب الإيمان (8968، والسنن الکبري 101/7) ٭ السند مرسل، و رواه البيھقي بسند ضعيف عن الشعبي عن عبد الله بن جعفر به مسندًا و للحديث طرق ضعيفة کلھا. و ذکره البغوي في مصابيح السنة (3630) و شرح السنة (292/12 بعد ح 3327) بدون سند و لم أجده مسندًا وله شواھد ضعيفة عند أبي القاسم البغوي في معجم الصحابة (277) و الطبراني في الکبير (108/2 ح 1470) وغيرهما.»
وعن جعفر بن ابي طالب في قصة رجوعه من ارض الحبشة قال: فخرجنا حتى اتينا المدينة فتلقاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعتنقني ثم قال: ما ادري: انا بفتح خيبر افرح ام بقدوم جعفر؟ «. ووافق ذلك فتح خيبر. رواه في» شرح السنة وَعَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي قِصَّةِ رُجُوعِهِ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ قَالَ: فَخَرَجْنَا حَتَّى أَتَيْنَا الْمَدِينَةَ فَتَلَقَّانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَنَقَنِي ثُمَّ قَالَ: مَا أَدْرِي: أَنَا بِفَتْحِ خَيْبَرَ أَفْرَحُ أَمْ بِقُدُومِ جَعْفَرٍ؟ «. وَوَافَقَ ذَلِكَ فَتْحَ خَيْبَرَ. رَوَاهُ فِي» شَرْحِ السّنة
جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سرزمین حبشہ سے واپسی کے واقعہ کے بارے میں مروی ہے، انہوں نے فرمایا: جب ہم مدینہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا استقبال کیا اور مجھے گلے لگا لیا، پھر فرمایا: ”میں نہیں جانتا کہ مجھے فتح خیبر کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کی آمد کی۔ “ اتفاق سے ان کی آمد فتح خیبر کے روز تھی۔ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (291/12 بعد ح 3327) بدون سند. ٭ ورواه الطبراني في الصغير (19/1 ح30) والکبير (108/2 ح 1470، 100/22 ح 244) فيه أحمد بن خالد بن عبد الملک بن سرح، ليس بشئ (لسان الميزان 165/1) و أنس بن سالم الخولاني، ترجمته في تاريخ دمشق (232/2) و لم أجد من وثقه.»