عن زيد بن ثابت قال: دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وبين يديه كاتب فسمعته يقول: ضع القلم على اذنك فإنه اذكر للمآل. رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وفي إسناده ضعف عَن زيدٍ بن ثابتٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ كَاتِبٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: ضَعِ الْقَلَمَ عَلَى أُذُنِكَ فَإِنَّهُ أَذْكَرُ لِلْمَآلِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَفِي إِسْنَادِهِ ضعفٌ
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کاتب تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”قلم اپنی کان پر رکھو کیونکہ ایسا کرنا (کان پر قلم رکھنا) مقصد و انجام جلد یاد کرا دیتا ہے۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں ضعف ہے۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2714) ٭ عنبسة و محمد بن زاذان متروکان، تقدما (4653)»
وعنه قال: امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اتعلم السريانية. وفي رواية: إنه امرني ان اتعلم كتاب يهود وقال: «إني ما آمن يهود على كتاب» . قال: فما مر بي نصف شهر حتى تعلمت فكان إذا كتب إلى يهود كتبت وإذا كتبوا إليه قرات له كتابهم. رواه الترمذي وَعَنْهُ قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَعَلَّمَ السُّرْيَانِيَّةَ. وَفِي رِوَايَةٍ: إِنَّهُ أَمَرَنِي أَنْ أَتَعَلَّمَ كِتَابَ يَهُودَ وَقَالَ: «إِنِّي مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابٍ» . قَالَ: فَمَا مَرَّ بِيَ نِصْفُ شَهْرٍ حَتَّى تَعَلَّمْتُ فَكَانَ إِذَا كَتَبَ إِلَى يَهُودَ كَتَبْتُ وَإِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ قَرَأْتُ لَهُ كِتَابَهُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ میں سریانی زبان سیکھوں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہودیوں کی کتابت سیکھوں اور فرمایا: ”مجھے یہود کی کتابت کا اندیشہ ہے۔ “ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نصف ماہ سے پہلے ہی ان کی زبان سیکھ لی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہود کے نام خط لکھتے تو میں تحریر کرتا اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام خط لکھتے تو ان کے مکتوب میں آپ کو پڑھ کر سناتا تھا۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2715 وقال: حسن صحيح)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا انتهى احدكم إلى مجلس فليسلم فإن بدا له ان يجلس فليجلس ثم إذا قام فليسلم فليست الاولى باحق من الآخرة» رواه الترمذي وابو داود وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى مَجْلِسٍ فَلْيُسَلِّمْ فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَجْلِسَ فَلْيَجْلِسْ ثُمَّ إِذَا قَامَ فَلْيُسَلِّمْ فَلَيْسَتِ الْأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الْآخِرَةِ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں آئے تو وہ سلام کرے، پھر اگر وہ بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے، اور جب وہ وہاں سے اٹھے تو وہ سلام کرے، پہلا (سلام) دوسرے (سلام) سے زیادہ حق نہیں رکھتا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2706 وقال: حسن) و أبو داود (5208)»
وعنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا خير في جلوس في الطرقات إلا لمن هدى السبيل ورد التحية وغض البصر واعان على الحمولة» رواه في «شرح السنة» وذكر حديث ابي جري في «باب فضل الصدقة» وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا خَيْرَ فِي جُلُوسٍ فِي الطُّرَقَاتِ إِلَّا لِمَنْ هَدَى السَّبِيلَ وَرَدَّ التَّحِيَّةَ وَغَضَّ الْبَصَرَ وَأَعَانَ عَلَى الْحُمُولَةِ» رَوَاهُ فِي «شَرْحِ السُّنَّةِ» وَذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي جُرَيٍّ فِي «بَاب فضل الصَّدَقَة»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”راستوں میں بیٹھنے میں کوئی خیر و بھلائی نہیں، مگر اس شخص کے لیے (خیر) ہے جو راستہ بتائے، سلام کا جواب دے، نظر جھکائے اور جو سواری پر بوجھ رکھوانے میں مدد کرے۔ “ اور ابو جریّ سے مروی حدیث ”باب فضل الصدقۃ“ میں ذکر کی گئی ہے۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه البغوي في شرح السنة (305/12 ح 3339) ٭ فيه يحيي بن عبيد الله (ضعيف جدًا) عن أبيه عن أبي ھريرة إلخ و حديث أبي داود (4816 و سنده حسن) يغني عنه و کذا حديث البخاري في الأدب المفرد (1149) حديث أبي جري تقدم (1918)»
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لما خلق الله آدم ونفخ فيه الروح عطس فقال: الحمد لله فحمد الله بإذنه فقال له ربه: يرحمك الله يا آدم اذهب إلى اولئك الملائكة إلى ملا منهم جلوس فقل: السلام عليكم. فقال: السلام عليكم. قالوا: عليك السلام ورحمة الله. ثم رجع إلى ربه فقال: إن هذه تحيتك وتحية بنيك بينهم. فقال له الله ويداه مقبوضتان: اختر ايتهما شئت؟ فقال: اخترت يمين ربي وكلتا يدي ربي يمين مباركة ثم بسطها فإذا فيها آدم وذريته فقال: اي رب ما هؤلاء؟ قال: هؤلاء ذريتك فإذا كل إنسان مكتوب عمره بين عينيه فإذا فيهم رجل اضوؤهم-او من اضوئهم-قال: يا رب من هذا؟ قال: هذا ابنك داود وقد كتبت له عمره اربعين سنة. قال: يا رب زد في عمره. قال: ذلك الذي كتبت له. قال: اي رب فإني قد جعلت له من عمري ستين سنة. قال: انت وذاك. قال: ثم سكن الجنة ما شاء الله ثم اهبط منها وكان آدم يعد لنفسه فاتاه ملك الموت فقال له آدم: قد عجلت قد كتب لي الف سنة. قال: بلى ولكنك جعلت لابنك داود ستين سنة فجحد فجحدت ذريته ونسي فنسيت ذريته قال: «فمن يؤمئذ امر بالكتاب والشهود» رواه الترمذي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَنَفَخَ فِيهِ الرُّوحَ عَطَسَ فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ فَحَمِدَ اللَّهَ بِإِذْنِهِ فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا آدَمَ اذْهَبْ إِلَى أُولَئِكَ الْمَلَائِكَةِ إِلَى مَلَأٍ مِنْهُمْ جُلُوسٍ فَقُلِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ. فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ. قَالُوا: عَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ. ثُمَّ رَجَعَ إِلَى رَبِّهِ فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ بَنِيكَ بَيْنَهُمْ. فَقَالَ لَهُ اللَّهُ وَيَدَاهُ مَقْبُوضَتَانِ: اخْتَرْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ؟ فَقَالَ: اخْتَرْتُ يَمِينَ رَبِّي وَكِلْتَا يَدَيْ رَبِّي يَمِينٌ مُبَارَكَةٌ ثُمَّ بَسَطَهَا فَإِذَا فِيهَا آدَمُ وَذُرِّيَّتُهُ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَا هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ فَإِذَا كُلُّ إِنْسَانٍ مَكْتُوبٌ عُمْرُهُ بَين عَيْنَيْهِ فَإِذا فيهم رجلٌ أضوؤهُم-أَوْ مِنْ أَضْوَئِهِمْ-قَالَ: يَا رَبِّ مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا ابْنُكَ دَاوُدُ وَقَدْ كَتَبْتُ لَهُ عُمْرَهُ أَرْبَعِينَ سَنَةً. قَالَ: يَا رَبِّ زِدْ فِي عُمْرِهِ. قَالَ: ذَلِكَ الَّذِي كَتَبْتُ لَهُ. قَالَ: أَيْ رَبِّ فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُ لَهُ مِنْ عُمْرِي سِتِّينَ سَنَةً. قَالَ: أَنْتَ وَذَاكَ. قَالَ: ثُمَّ سَكَنَ الْجَنَّةَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أُهْبِطَ مِنْهَا وَكَانَ آدَمُ يَعُدُّ لِنَفْسِهِ فَأَتَاهُ مَلَكُ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: قَدْ عَجَّلْتَ قَدْ كَتَبَ لِي أَلْفَ سَنَةٍ. قَالَ: بَلَى وَلَكِنَّكَ جَعَلْتَ لِابْنِكَ دَاوُدَ سِتِّينَ سَنَةً فَجَحَدَ فَجَحَدَتْ ذُرِّيَّتُهُ وَنَسِيَ فَنَسِيَتْ ذُرِّيَّتُهُ قَالَ: «فَمن يؤمئذ أَمر بِالْكتاب وَالشُّهُود» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ نے آدم ؑ کو پیدا فرمایا اور ان میں روح پھونکی تو انہوں نے چھینک ماری اور الحمد للہ کہا، انہوں نے اللہ کی توفیق سے اس کی حمد بیان کی، تو ان کے رب نے انہیں کہا: اللہ تجھ پر رحم کرے، آدم! فرشتوں کی اس جماعت کی طرف جاؤ جو بیٹھی ہوئی ہے، (وہاں جا کر) کہو: السلام علیکم! انہوں نے کہا: السلام علیکم! انہوں نے کہا: علیک السلام و رحمۃ اللہ! پھر وہ وہاں سے اپنے رب کے پاس واپس آئے تو اس نے فرمایا: ”بے شک یہ تمہارا اور تیری اولاد کا باہمی سلام ہے۔ اللہ نے انہیں حکم دیا جبکہ اس کے دونوں ہاتھ بند تھے، تم دونوں میں سے جسے چاہو اختیار کر لو، انہوں نے کہا: میں نے اپنے رب کا دایاں ہاتھ منتخب کر لیا جبکہ میرے رب کے دونوں ہاتھ دائیں بابرکت ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے دائیں ہاتھ کو پھیلایا تو اس میں آدم ؑ اور ان کی اولاد تھی، انہوں نے عرض کیا، رب جی! یہ کون ہیں؟ فرمایا: یہ تمہاری اولاد ہے، ہر انسان کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھی ہوئی تھی، اور ان میں ایک ایسا آدمی تھا جو ان سب سے زیادہ روشن (چہرے والا) تھا، انہوں نے عرض کیا، رب جی! یہ کون ہے؟ فرمایا: یہ آپ کے بیٹے داؤد ؑ ہیں، اور میں نے ان کی عمر چالیس سال لکھی ہے، انہوں نے عرض کیا: رب جی! اس کی عمر میں اضافہ فرما، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بس یہی ہے جو میں نے اس کے لیے لکھ دی ہے، انہوں نے عرض کیا، رب جی! میں نے اپنی عمر سے ساٹھ سال اسے عطا کر دیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تیرا معاملہ ہے، فرمایا: پھر وہ جس قدر اللہ نے چاہا جنت میں رہے، پھر وہاں سے اتار دیے گئے، اور آدم ؑ اپنی عمر شمار کیا کرتے تھے، جب موت کا فرشتہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا: تم جلدی آ گئے ہو کیونکہ میری عمر تو ہزار برس لکھی گئی تھی، اس نے عرض کیا، جی ہاں، (درست ہے) لیکن آپؑ نے اپنے بیٹے داؤد ؑ کو ساٹھ سال دے دیے تھے، انہوں نے انکار کیا اسی وجہ سے ان کی اولاد نے بھی انکار کیا، اور وہ بھول گئے اسی وجہ سے ان کی اولاد بھی بھول جاتی ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسی دن سے لکھنے اور گواہی دینے کا حکم فرمایا گیا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3368 وقال: حسن غريب)»
وعن اسماء بنت يزيد قالت: مر علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في نسوة فسلم علينا. رواه ابو داود وابن ماجه والدارمي وَعَن أسماءَ بنت يزيدَ قَالَتْ: مَرَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نِسْوَةٍ فَسَلَّمَ عَلَيْنَا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه والدارمي
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہ��ں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری خواتین کی جماعت کے پاس سے گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (5204) و ابن ماجه (3701) و الدارمي (277/2 ح 2640)»
وعن الطفيل بن ابي بن كعب: انه كان ياتي ابن عمر فيغدو معه إلى السوق. قال فإذا غدونا إلى السوق لم يمر عبد الله بن عمر على سقاط ولا على صاحب بيعة ولا مسكين ولا احد إلا سلم عليه. قال الطفيل: فجئت عبد الله بن عمر يوما فاستتبعني إلى السوق فقلت له: وما تصنع في السوق وانت لا تقف على البيع ولا تسال عن السلع وتسوم بها ولا تجلس في مجالس السوق فاجلس بنا ههنا نتحدث. قال: فقال عبد الله بن عمر: يا ابا بطن-قال وكان الطفيل ذا بطن-إنما نغدو من اجل السلام نسلم على من لقيناه. رواه مالك والبيهقي في «شعب الإيمان» وَعَن الطفيلِ بن أُبي بن كعبٍ: أَنَّهُ كَانَ يَأْتِي ابْنَ عُمَرَ فَيَغْدُو مَعَهُ إِلَى السُّوقِ. قَالَ فَإِذَا غَدَوْنَا إِلَى السُّوقِ لَمْ يَمُرَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَلَى سَقَّاطٍ وَلَا عَلَى صَاحِبِ بَيْعَةٍ وَلَا مِسْكِينٍ وَلَا أَحَدٍ إِلَّا سَلَّمَ عَلَيْهِ. قَالَ الطُّفَيْلُ: فَجِئْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَوْمًا فَاسْتَتْبَعَنِي إِلَى السُّوقِ فَقُلْتُ لَهُ: وَمَا تَصْنَعُ فِي السُّوقِ وَأَنْتَ لَا تَقِفُ عَلَى الْبَيْعِ وَلَا تَسْأَلُ عَن السّلع وتسوم بِهَا وَلَا تَجْلِسُ فِي مَجَالِسِ السُّوقِ فَاجْلِسْ بِنَا هَهُنَا نتحدث. قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: يَا أَبَا بَطْنٍ-قَالَ وَكَانَ الطُّفَيْلُ ذَا بَطْنٍ-إِنَّمَا نَغْدُو مِنْ أَجْلِ السَّلَامِ نُسَلِّمُ عَلَى مَنْ لَقِينَاهُ. رَوَاهُ مَالك وَالْبَيْهَقِيّ فِي «شعب الْإِيمَان»
طفیل بن ابی بن کعب سے روایت ہے کہ وہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کرتے تھے اور وہ ان کے ساتھ صبح کے وقت بازار جاتے، راوی بیان کرتے ہیں، جب ہم بازار جاتے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وہاں معمولی کاروبار کرنے والے، بڑے سرمایہ دار، مسکین اور جس کسی شخص کے پاس سے بھی گزرتے تو اسے سلام کرتے، طفیل بیان کرتے ہیں، میں ایک روز عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھے بازار جانے کے لیے کہا، میں نے انہیں کہا: آپ بازار میں کیا کریں گے؟ جبکہ آپ کسی بیع پر رکتے نہیں، نہ سودے کے متعلق دریافت کرتے ہیں، نہ اس کی قیمت پوچھتے ہیں اور نہ آپ بازار کی مجالس میں بیٹھتے ہیں، لہذا آپ یہاں ہی تشریف رکھیں اور ہم بات چیت کرتے ہیں، راوی بیان کرتے ہیں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا: پیٹ والے! راوی بیان کرتے ہیں، طفیل کا پیٹ بڑا تھا، ہم سلام کی غرض سے جاتے ہیں، ہم ہر ملنے والے کو سلام کرتے ہیں۔ اسنادہ صحیح، رواہ مالک و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه مالک في الموطأ (961/2. 962 ح 1859) و البيھقي في شعب الإيمان (8790)»
وعن جابر قال: اتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم فقال: لفلان في حائطي عذق وانه آذاني مكان عذقه فارسل النبي صلى الله عليه وسلم: «ان بعني عذقك» قال: لا. قال: «فهب لي» . قال: لا. قال: «فبعنيه بعذق في الجنة» ؟ فقال: لا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما رايت الذي هو ابخل منك إلا الذي يبخل بالسلام» . رواه احمد والبيهقي في «شعب الإيمان» وَعَن جَابر قَالَ: أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لِفُلَانٍ فِي حَائِطِي عَذْقٌ وَأَنَّهُ آذَانِي مَكَانُ عَذْقِهِ فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْ بِعْنِي عَذْقَكَ» قَالَ: لَا. قَالَ: «فَهَبْ لِي» . قَالَ: لَا. قَالَ: «فَبِعْنِيهِ بِعَذْقٍ فِي الْجَنَّةِ» ؟ فَقَالَ: لَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا رَأَيْتُ الَّذِي هُوَ أَبْخَلُ مِنْكَ إِلَّا الَّذِي يَبْخَلُ بِالسَّلَامِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا، فلاں شخص کا میرے باغ میں کھجور کا ایک درخت ہے، وہ اس کھجور کے درخت کی وجہ سے مجھے ایذا پہنچاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیغام بھیجا کہ اپنا کھجور کا درخت مجھے فروخت کر دو، اس نے کہا: نہیں: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”چلو مجھے ہبہ کر دو۔ “ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں کھجور کے درخت کے بدلے میں مجھے فروخت کر دو۔ “ اس نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے سلام کہنے میں بخل کرنے والے کے علاوہ تجھ سے زیادہ بخیل کوئی اور نہیں دیکھا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (328/3 ح 14571) [و عبد بن حميد (1037)] و البيھقي في شعب الإيمان (8771، نسخة محققة: 8396 و السنن 157/6. 158) والحاکم (20/2) ٭ فيه عبد الله بن محمد بن عقيل ضعيف، ضعفه الجمھور.»
وعن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «البادئ بالسلام بريء من الكبر» . رواه البيهقي في «شعب الإيمان» وَعَن عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْبَادِئُ بِالسَّلَامِ بَرِيءٌ مِنَ الْكِبْرِ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شعب الْإِيمَان»
عبداللہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہوتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (8786، نسخة محققة: 8407) ٭ سفيان الثوري و أبو إسحاق السبيعي مدلسان و عنعنا.»
عن ابي سعيد الخدري قال: اتانا ابو موسى قال: إن عمر ارسل إلي ان آتيه فاتيت بابه فسلمت ثلاثا فلم يرد علي فرجعت. فقال: ما منعك ان تاتينا؟ فقلت: إني اتيت فسلمت على بابك ثلاثا فلم ترد علي فرجعت وقد قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا استاذن احدكم ثلاثا فلم يؤذن له فليرجع» . فقال عمر: اقم عليه البينة. قال ابو سعيد: فقمت معه فذهبت إلى عمر فشهدت عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: أَتَانَا أَبُو مُوسَى قَالَ: إِنَّ عُمَرَ أَرْسَلَ إِلَيَّ أَنْ آتِيَهُ فَأَتَيْتُ بَابَهُ فَسَلَّمْتُ ثَلَاثًا فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ فَرَجَعْتُ. فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنَا؟ فَقُلْتُ: إِنِّي أَتَيْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَى بَابِكَ ثَلَاثًا فَلم تردَّ عليَّ فَرَجَعْتُ وَقَدْ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلَاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَلْيَرْجِعْ» . فَقَالَ عُمَرُ: أَقِمْ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةَ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَقُمْتُ مَعَهُ فذهبتُ إِلى عمرَ فشهِدتُ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوموسی رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے، انہوں نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے اپنے پاس بلا بھیجا، میں ان کے دروازے پر آیا اور تین بار سلام کیا، مجھے جواب نہ ملا تو میں لوٹ گیا، انہوں نے (مجھ سے) پوچھا: تمہیں کس چیز نے ہمارے پاس نہ آنے دیا؟ میں نے کہا: میں آیا تھا اور آپ کے دروازے پر تین بار سلام کیا تھا لیکن تم نے مجھے جواب نہ دیا اس لئے میں واپس چلا گیا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا تھا: ”جب تم میں سے کوئی تین بار اجازت طلب کرے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا جائے۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس پر دلیل پیش کرو۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان کے ساتھ کھڑا ہوا اور عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر گواہی دی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6245) و مسلم (33/ 2153)»