مشكوة المصابيح
كتاب الآداب
كتاب الآداب
آدم علیہ السلام کا بھولنا
حدیث نمبر: 4662
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَنَفَخَ فِيهِ الرُّوحَ عَطَسَ فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ فَحَمِدَ اللَّهَ بِإِذْنِهِ فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا آدَمَ اذْهَبْ إِلَى أُولَئِكَ الْمَلَائِكَةِ إِلَى مَلَأٍ مِنْهُمْ جُلُوسٍ فَقُلِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ. فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ. قَالُوا: عَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ. ثُمَّ رَجَعَ إِلَى رَبِّهِ فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ بَنِيكَ بَيْنَهُمْ. فَقَالَ لَهُ اللَّهُ وَيَدَاهُ مَقْبُوضَتَانِ: اخْتَرْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ؟ فَقَالَ: اخْتَرْتُ يَمِينَ رَبِّي وَكِلْتَا يَدَيْ رَبِّي يَمِينٌ مُبَارَكَةٌ ثُمَّ بَسَطَهَا فَإِذَا فِيهَا آدَمُ وَذُرِّيَّتُهُ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَا هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ فَإِذَا كُلُّ إِنْسَانٍ مَكْتُوبٌ عُمْرُهُ بَين عَيْنَيْهِ فَإِذا فيهم رجلٌ أضوؤهُم-أَوْ مِنْ أَضْوَئِهِمْ-قَالَ: يَا رَبِّ مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا ابْنُكَ دَاوُدُ وَقَدْ كَتَبْتُ لَهُ عُمْرَهُ أَرْبَعِينَ سَنَةً. قَالَ: يَا رَبِّ زِدْ فِي عُمْرِهِ. قَالَ: ذَلِكَ الَّذِي كَتَبْتُ لَهُ. قَالَ: أَيْ رَبِّ فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُ لَهُ مِنْ عُمْرِي سِتِّينَ سَنَةً. قَالَ: أَنْتَ وَذَاكَ. قَالَ: ثُمَّ سَكَنَ الْجَنَّةَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أُهْبِطَ مِنْهَا وَكَانَ آدَمُ يَعُدُّ لِنَفْسِهِ فَأَتَاهُ مَلَكُ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: قَدْ عَجَّلْتَ قَدْ كَتَبَ لِي أَلْفَ سَنَةٍ. قَالَ: بَلَى وَلَكِنَّكَ جَعَلْتَ لِابْنِكَ دَاوُدَ سِتِّينَ سَنَةً فَجَحَدَ فَجَحَدَتْ ذُرِّيَّتُهُ وَنَسِيَ فَنَسِيَتْ ذُرِّيَّتُهُ قَالَ: «فَمن يؤمئذ أَمر بِالْكتاب وَالشُّهُود» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ نے آدم ؑ کو پیدا فرمایا اور ان میں روح پھونکی تو انہوں نے چھینک ماری اور الحمد للہ کہا، انہوں نے اللہ کی توفیق سے اس کی حمد بیان کی، تو ان کے رب نے انہیں کہا: اللہ تجھ پر رحم کرے، آدم! فرشتوں کی اس جماعت کی طرف جاؤ جو بیٹھی ہوئی ہے، (وہاں جا کر) کہو: السلام علیکم! انہوں نے کہا: السلام علیکم! انہوں نے کہا: علیک السلام و رحمۃ اللہ! پھر وہ وہاں سے اپنے رب کے پاس واپس آئے تو اس نے فرمایا: ”بے شک یہ تمہارا اور تیری اولاد کا باہمی سلام ہے۔ اللہ نے انہیں حکم دیا جبکہ اس کے دونوں ہاتھ بند تھے، تم دونوں میں سے جسے چاہو اختیار کر لو، انہوں نے کہا: میں نے اپنے رب کا دایاں ہاتھ منتخب کر لیا جبکہ میرے رب کے دونوں ہاتھ دائیں بابرکت ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے دائیں ہاتھ کو پھیلایا تو اس میں آدم ؑ اور ان کی اولاد تھی، انہوں نے عرض کیا، رب جی! یہ کون ہیں؟ فرمایا: یہ تمہاری اولاد ہے، ہر انسان کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھی ہوئی تھی، اور ان میں ایک ایسا آدمی تھا جو ان سب سے زیادہ روشن (چہرے والا) تھا، انہوں نے عرض کیا، رب جی! یہ کون ہے؟ فرمایا: یہ آپ کے بیٹے داؤد ؑ ہیں، اور میں نے ان کی عمر چالیس سال لکھی ہے، انہوں نے عرض کیا: رب جی! اس کی عمر میں اضافہ فرما، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بس یہی ہے جو میں نے اس کے لیے لکھ دی ہے، انہوں نے عرض کیا، رب جی! میں نے اپنی عمر سے ساٹھ سال اسے عطا کر دیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تیرا معاملہ ہے، فرمایا: پھر وہ جس قدر اللہ نے چاہا جنت میں رہے، پھر وہاں سے اتار دیے گئے، اور آدم ؑ اپنی عمر شمار کیا کرتے تھے، جب موت کا فرشتہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا: تم جلدی آ گئے ہو کیونکہ میری عمر تو ہزار برس لکھی گئی تھی، اس نے عرض کیا، جی ہاں، (درست ہے) لیکن آپؑ نے اپنے بیٹے داؤد ؑ کو ساٹھ سال دے دیے تھے، انہوں نے انکار کیا اسی وجہ سے ان کی اولاد نے بھی انکار کیا، اور وہ بھول گئے اسی وجہ سے ان کی اولاد بھی بھول جاتی ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسی دن سے لکھنے اور گواہی دینے کا حکم فرمایا گیا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (3368 وقال: حسن غريب)»
قال الشيخ الألباني: صَحِيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن