وعن عقبة بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «انسابكم هذه ليست بمسبة على احد كلكم بنو آدم طف الصاع بالصاع لم تملؤوه ليس لاحد على احد فضل إلا بدين وتقوى كفى بالرجل ان يكون بذيا فاحشا بخيلا» . رواه احمد والبيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْسَابُكُمْ هَذِهِ لَيْسَتْ بِمَسَبَّةٍ عَلَى أَحَدٍ كُلُّكُمْ بَنُو آدَمَ طَفُّ الصَّاعِ بِالصَّاعِ لَمْ تملؤوه لَيْسَ لِأَحَدٍ عَلَى أَحَدٍ فَضْلٌ إِلَّا بِدِينٍ وَتَقْوًى كَفَى بِالرَّجُلِ أَنْ يَكُونَ بَذِيًّا فَاحِشًا بَخِيلًا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے یہ انساب (ذات، قبیلے) کسی کے لیے باعث عار نہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور تم سب باہم اس طرح برابر ہو جس طرح ایک صاع دوسرے صاع کے برابر ہوتا ہے، دین اور تقویٰ کے علاوہ کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں، آدمی کے لیے عار کے لحاظ سے یہی کافی ہے کہ وہ زبان دراز، فحش گو اور بخیل ہو۔ “ حسن، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (145/4، 158) [و الطبراني في الکبير (295/17 ح 814)] و البيھقي في شعب الإيمان (5146، نسخة محققة: 4783)] ٭ عبد الله بن لھيعة صرح بالسماع عند الطبراني، و ھذا الحديث روي عنه يحيي بن إسحاق السيلحيني وھو سمع منه قبل اختلاطه، و للحديث شواھد معنوية کثيرة جدًا.»
عن ابي هريرة قال: قال رجل: يا رسول الله من احق بحسن صحابتي؟ قال: «امك» . قال: ثم من؟ قال: «امك» . قال: ثم من؟ قال «امك» . قال: ثم من؟ قال: «ابوك» . وفي رواية قال: «امك ثم امك ثم امك ثم اباك ثم ادناك ادناك» . متفق عليه عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: «أُمَّكَ» . قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «أُمَّكَ» . قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ «أُمَّكَ» . قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «أَبُوكَ» . وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: «أُمَّكَ ثُمَّ أُمَّكَ ثُمَّ أُمَّكَ ثُمَّ أَبَاكَ ثمَّ أدناك أدناك» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کسی آدمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تیری والدہ۔ “ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تیری ماں۔ “ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تیری ماں۔ “ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیرا باپ، پھر تیرا قریبی رشتہ دار، پھر اس سے کم قریبی رشتہ دار۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5971) و مسلم (4، 2548/1)»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رغم انفه رغم انفه رغم انفه» . قيل: من يا رسول الله؟ قال: «من ادرك والديه عند الكبر احدهما او كلاهما ثم لم يدخل الجنة» . وراه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَغِمَ أَنْفُهُ رَغِمَ أَنْفُهُ رَغِمَ أَنْفُهُ» . قِيلَ: مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا ثمَّ لم يدْخل الْجنَّة» . وَرَاه مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو!“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کس کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے والدین میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے میں پا لے پھر وہ (ان کے ساتھ حسن سلوک کر کے) جنت میں داخل نہ ہو۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2551/9)»
وعن اسماء بنت ابي بكر رضي الله عنه قالت: قدمت علي امي وهي مشركة في عهد قريش فقلت: يا رسول الله إن امي قدمت علي وهي راغبة افاصلها؟ قال: «نعم صليها» . متفق عليه وَعَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ: «نعم صِليها» . مُتَّفق عَلَيْهِ
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میری والدہ میرے پاس تشریف لائیں جبکہ وہ مشرکہ تھی، یہ اس وقت کی بات ہے جب قریش سے (حدیبیہ کا) معاہدہ ہوا تھا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بے شک میری والدہ میرے پاس آئی ہیں جبکہ وہ بہتر سلوک کی متمنی ہے تو کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! اس سے صلہ رحمی کرو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2620) و مسلم (1003/50)»
وعن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن آل فلان ليسوا لي باولياء إنما وليي الله وصالح المؤمنين ولكن لهم رحم ابلها ببلالها. متفق عليه وَعَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ آل فُلَانٍ لَيْسُوا لِي بِأَوْلِيَاءَ إِنَّمَا وَلِيِّيَ اللَّهُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنْ لَهُمْ رَحِمٌ أَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا. مُتَّفق عَلَيْهِ
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”آل ابو فلاں میرے دوست و حمایتی نہیں، میرا حمایتی تو اللہ اور صالح مومن ہیں، لیکن ان کے ساتھ رشتہ داری ہے جسے میں صلہ رحمی کے ذریعے برقرار رکھوں گا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5990) و مسلم (215/366)»
وعن المغيرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله حرم عليكم عقوق الامهات وواد البنات ومنع وهات. وكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال» . متفق عليه وَعَن الْمُغِيرَةِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ وَوَأْدَ الْبَنَاتِ وَمَنَعَ وَهَاتِ. وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ نے ماؤں کی نافرمانی کرنے، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے، بخل کرنے اور دست سوال دراز کرنے کو تم پر حرام قرار دیا ہے، اور فضول باتیں کرنے، (لوگوں کے احوال جاننے کے لیے) زیادہ سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو تمہارے متعلق ناپسند فرمایا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2408) و مسلم (593/12)»
وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من الكبائر شتم الرجل والديه» . قالوا: يا رسول الله وهل يشتم الرجل والديه؟ قال: «نعم يسب ابا الرجل فيسب اباه ويسب امه فيسب امه» . متفق عليه وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِنَ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَيْهِ» . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَهَلْ يَشْتُمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ ويسبُّ أمه فيسب أمه» . مُتَّفق عَلَيْهِ
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ “ صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا آدمی اپنے والدین کو گالی دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، وہ کسی آدمی کے والد کو گالی دیتا ہے تو (بدلے میں) وہ اس کے والد کو گالی دیتا ہے، اور یہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے، تو (بدلے میں) وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5973) و مسلم (90/146)»
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن من ابر البر صلة الرجل اهل ود ابيه بعد ان يولي» . رواه مسلم وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ أَبَرِّ الْبِرِّ صِلَةَ الرَّجُلِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ بَعْدَ أَن يولي» . رَوَاهُ مُسلم
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک آدمی کا اپنے والد کے فوت ہو جانے کے بعد، اس کے دوستوں سے صلہ رحمی کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2552/13)»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من احب ان يبسط له في رزقه وينسا له في اثره فليصل رحمه» . متفق عليه وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَره فَليصل رَحمَه» . مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا رزق فراخ کر دیا جائے اور اس کی عمر دراز کر دی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5976) و مسلم (21/ 2557)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خلق الله الخلق فلما فرغ منه قامت الرحم فاخذت بحقوي الرحمن فقال: مه؟ قالت: هذا مقام العائذ بك من القطيعة. قال: الا ترضين ان اصل من وصلك واقطع من قطعك؟ قالت: بلى يا رب قال: فذاك. متفق عليه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُلِقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْهُ قَامَتِ الرَّحِمُ فَأَخَذَتْ بِحَقْوَيِ الرَّحْمَنِ فَقَالَ: مَهْ؟ قَالَتْ: هَذَا مقَام العائذ بك من القطيعةِ. قَالَ: أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ؟ قَالَتْ: بَلَى يَا رَبِّ قَالَ: فَذَاك. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے مخلوق کو پیدا فرمایا، اور جب وہ اس سے فارغ ہوا تو رحم کھڑا ہو گیا اور اس نے رحمن کی کمر پکڑ لی، اس پر (رحمن) نے فرمایا: ہٹ جا؟ اس (رحم) نے عرض کیا، یہ مقام اس کا ہے جو تیرے ساتھ قطع رحمی سے پناہ طلب کرتا ہے، فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ میں اس سے تعلق قائم رکھوں جو تجھ سے تعلق قائم رکھے، اور جو تجھ سے تعلق توڑ دے میں اس سے تعلق توڑ دوں، رحم نے عرض کیا، رب جی! کیوں نہیں (میں راضی ہوں)، فرمایا: ”یہ میں نے جو کہا ایسے ہی ہو گا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4830) و مسلم (16/ 2554)»